افغان عوام کو ایمان سے محروم کرنے کیلئے افغانستان میں عیسائی مشنریاں سرگرم ہوگئی ہیں۔ انتہائی با اعتماد ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق حالیہ دور میں افغان علاقے "سمنگان" میں چار سو (400) سے زائد خاندان عیسائی بنا دیئے گئے ہیں۔ اس چونکا دینے والی رپورٹ کے مطابق بامیان میں بھی کم و بیش چار سوخاندانوں نے
عیسائیت قبول کرلی ہے۔
یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ان کو فعال ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا کیونکہ ان کی افغانستان میں موجودگی کا ثبوت تقریباً 3 عشرے قبل ملتا ہے جبکہ عیسائیوں کی افغانستان میں موجودگی کی تاریخ صدیوں پرانی ہے مگر اس عرصے میں ان کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔
افغانستان کے شاہ داؤد کی حکمرانی میں پیش آنے والا یہ واقعہ البتہ قابل ذکر ہے کہ انہوں نے چار افراد کو عیسائی تعلیمات کے پرچار اور گمراہ کن عقائد پر مبنی لٹریچر اور معلومات تقسیم کرنے کی کوششوں پر سزا دی تھی اور سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث نہ پائے جائیں۔عیسائیت قبول کرلی ہے۔
یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ان کو فعال ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا کیونکہ ان کی افغانستان میں موجودگی کا ثبوت تقریباً 3 عشرے قبل ملتا ہے جبکہ عیسائیوں کی افغانستان میں موجودگی کی تاریخ صدیوں پرانی ہے مگر اس عرصے میں ان کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔
این جی اوز یا عسیائی مشنریوں کو اپنی سرگرمیوں کو فروغ دینے کا موقع صحیح معنوں میں روسی جارحیت کے دور میں ملا اور مختلف "ریلیف آرگنائزیشنز" اور این جی اوز جو درحقیقت عیسائیت کو افغانستان میں پھیلانے کا مشن لے کر آئی تھیں، افغانستان میں در آئیں۔ ان کو بہ آسانی ایسے مقامی افراد بھی میسر آگئے جو ان کی سرگرمیوں میں بھرپور مددگار ثابت ہوئے۔ یہ "ریلیف ورکرز" یا این جی اوز کے کارندے جنگ زدہ افغانوں کی بحالی کی آڑ میں ان میں مختلف طریقوں سے عیسائیت کا پرچار کرتے اور انہیں اس کی جانب مائل کرنے کی کوششیں کرتے تھے۔
حالیہ دور میں عیسائیت کے فروغ کیلئے سب سے زیادہ سرگرم این جی او "شیلٹر فار لائف" پہلی بار ستمبر 2001 میں ریلیف ورکنگ کے بہانے داخل ہوئی۔ عیسائیت کا مشہور زمانہ ماہر "جان ویور" اس بات کا جائزہ لینے کیلئے ان کے ساتھ تھا کہ یہاں عیسائیت کے فروغ کے کتنے مواقع موجود ہیں اور اس سلسلے میں کیا تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔
اس این جی او کو اپنی فعالیت کا کھلم کھلا موقع طالبان حکومت کے سقوط اور کٹھ پتلی افغان حکومت کی تشکیل کے بعد ہی ملا ہے۔ 2002ء میں اس نے افغان صوبہ بغلان میں زلزلے سے متاثرہ افراد کیلئے "ریلیف ورکنگ" کے بہانے علاقے میں قدم رکھا۔ چونکہ حکومتی رسائی مذکورہ علاقے تک نہ تھی، لہذا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیلٹر فار لائف نے علاقے میں پانچ ہزار تباہ حال خاندانوں کیلئے کیمپ لگائے اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرلیں۔ بعد ازاں اپنے مقصد کے حصول کیلئے شیلٹر فار لائف کے کارکنوں نے ان پانچ ہزار خاندانوں میں عیسائیت پر مبنی تعلیمات پھیلانا شروع کردیں۔ آجکل صورتحال یہ ہے کہ ان تمام خاندانوں کے بچوں کو "اعلیٰ تعلیم" دلانے کے بہانے ان سے علیحدہ پل خمری کے قریب ایک وسیع و عریض عمارت میں ٹھہرایا گیا ہے اس عمارت میں معصوم بچوں کے نوخیز اذہان کو "عقیدہ تثلیث" کی گمراہ کن تعلیمات سے آلودہ کیا جاتا ہے۔ ان کو مکمل طور پر عیسائیت کے قالب میں ڈھالنے کیلئے مذکورہ این جی او نے ان بچوں کی اپنے والدین سے ملاقات پر مکمل پابندی لگا رکھی ہے تاکہ وہ یہ جان ہی نہ سکیں کہ ان کے بچوں کو کیا سکھایا اور پڑھایا جارہا ہے؟۔ اس کیلئے مذکورہ عمارت کے باہر باقاعدہ پرائیویٹ سیکورٹی کمپنی کے خصوصی دستوں کو تعینات کیا گیا ہے جو کسی بھی افغانی کو اندر جانے سے روکنے کے علاوہ بچوں کو بھی باہر نہیں آنے دیتے۔ ان بچوں کے خاندانوں کو این جی او کی طرف سے ماہانہ سو ڈالر جبکہ بچے کی مالی اعانت کی مد میں ستر ڈالر الگ دیئے جاتے ہیں۔ ان خاندانوں کے کئی افراد کو دیگر بیرونی این جی اوز کی طرف سے زیر تعمیر منصوبوں میں نوکریاں بھی دلوائی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ مذکورہ تمام این جی اوز بھی عیسائی ہیں اور ان کے زیر تعمیر منصوبے بھی افغانستان میں عیسائیت کو فروغ دینے سے ہی متعلق ہیں۔
شیلٹر فار لائف کی جانب سے صوبہ بدخشاں میں چار ہزار افراد کو عیسائی بنا کر انہیں "رورل ورکرز کمیونٹی" نامی منصوبے میں کام پر لگادیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت یہ چار ہزار افراد صوبے کے دیگر افراد کو عیسائی بنانے پر مامور ہیں۔ عیسائیت قبول کرنے والی یا کم از کم اس میں دلچسپی رکھنے والی آبادی میں سڑکوں کا جال بچھا دیا جاتا ہے۔ اسپتال اور کلینک تعمیر کیے جاتے ہیں اور اسکولوں کی تعمیر نو کی جاتی ہے۔ شیلٹر فار لائف کی جانب سے جاری شدہ اعداد و شمار کے مطابق اس کام کیلئے گزشتہ سال 35 لاکھ ڈالر کی رقم مختص کی گئی تھی۔
اس این جی او کا "طریقہ واردات" کچھ یوں ہے کہ وہ امدادی کام، اشیائے ضرورت کی تقسیم، قدرتی آفات یا جنگ سے متاثرہ افراد کی بحالی کے منصوبوں کی آڑ میں سادہ لوح افغان باشندوں کو عیسائیت کی تعلیم دیتی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے یہ بڑے صبر سے کام لیتے ہیں اور اپنا جال بہت آہستگی سے ڈالتے ہیں۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
شیلٹر فار لائف نے افغان صوبہ غور میں گزشتہ ایک سال کے دوران تین لاکھ ستتر ہزار افراد میں روٹی، خشک دودھ اور دیگر ضروریات زندگی کا سامان تقسیم کیا تاہم اس کے ساتھ ساتھ اس کی آڑ میں صوبے میں عیسائیت کی تعلیمات پر مبنی لٹریچر بھی تقسیم کیا گیا۔
صوبہ تخار میں اس این جی او کی طرف سے گزشتہ ایک سال کے دوران 29 دیہاتوں میں 81 ہزار افراد میں امدادی سامان کی آڑ میں عیسائیت پر مبنی لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ تخار ہی کے مومائی گاؤں میں ایک گرلز اسکول تعمیر کرایا گیا جہاں نوجوان لڑکیوں کو عیسائیت کی تعلیمات دی جاتی ہیں۔ شیلٹر فار لائف نے صوبہ بدخشاں کے مرکز فیض آباد میں Jesus and gospel کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے جہاں عیسائی مبلغین دھڑلے سے منسوخ دین کی تعلیمات پھیلانے میں مصروف ہیں۔ یہان کے مقامی افراد کو کمپیوٹر اور انگلش کورس مفت سکھانے کی آڑمیں عیسائی تعلیمات قبول کرنے پر راغب کیا جاتا ہے۔ علاقے کے شمالی اتحاد کے زیر قبضہ ہونے کے ناطے ان افراد کو علم دین کی خبر نہیں لہذا ان کا عیسائی تعلیمات سے متاثر ہونا ایک فطری امر ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ انسٹیٹیوٹ میں مخلوط نظام تعلیم رائج کیا گیا ہے۔
شیلر فار لائف نے عیسائیت کو پورے افغانستان میں فروغ دینے کیلئےملک میں اسکولوں کا ایک جال بچھانے کا منصوبہ ترتیب دیا ہے۔ اس مقصد کیلئے جی ای آر (گراس اینرولمنٹ ریٹ) کے نام سے ایک پروجیکٹ پر عمل درآمد جاری ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت ہر سال 45 لاکھ بچوں کو عیسائیت کی تعلیم دینے والے ان اسکولوں میں داخل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے جن کیلئے گیارہ ہزار تین سو پچاسی اسکول تعمیر کیے جائیں گے اور ہر سال ان میں 2300 ٹیچر تعینات کیے جائیں گے۔ اس مقصد کے تحت ان کا صرف قندہار میں 30000 بچوں اور نو عمر لڑکوں کو عیسائی بنانے کا پروگرام ہے۔ ان میں سے بیشتر جنگی کمانڈروں کے بیٹے ہیں۔ یہاں اپنے مقصد کے حصول کیلئے مذکورہ این جی او نے ایک وسیع و عریض سیٹ اپ بنایا ہے جس میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد 1850 ہے۔
ان تمام عیسائی این جی اوز کو امریکی کٹھ پتلی افغان حکومت کی مکمل حمایت و سرپرستی حاصل ہے۔ افغان فوج اور دیگر سرکاری ادارے انہیں ہر قسم کا تعاون اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ تاہم یہ تمام کام صیغۂ راز میں رکھے جاتےہیں اور ہر ممکن احتیاط اور رازداری سے کام لیا جاتا ہے۔ موجودہ افغان حکومت میں کئی اہم عہدوں پر تعینات افراد عیسائی ہیں جس سے ان این جی اوز کا کام مزید آسان ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں قابل اعتماد ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان "جاوید لودھی" بھی عیسائی ہیں اور شیلٹر فار لائف کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔ اس اطلاع کو تقویت اس بات سے ملتی ہے کہ شیلٹر فار لائف میں کسی غیر عیسائی کو ملازمت نہیں دی جاتی اور جاوید لودھی وہاں ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔
افغان حکومت اور عیسائی این جی اوز کا یہ خوفناک گٹھ جوڑ مجاہدین سے پوشیدہ نہیں اور ان کی جانب سے وقتاً فوقتاً ان این جی اوز کے خلاف کارروائیاں سامنے آتی رہتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں مجاہدین نے عیسائیت پھیلانے میں سب سے زیادہ فعال کردار ادا کرنے والی اسی مذکورہ این جی او کے ڈائریکٹر کو اغوا کرلیا ہے۔ موثق اطلاعات کے مطابق یہ ڈائریکٹر مذکورہ این جی او کی گاڑیوں کے قافلے میں کابل سے قندھار کی جانب روانہ ہوئے جہاں ان کا تنظیم کا ذیلی دفتر قائم کرنے کا ارادہ تھا۔ تاہم طالبان نے صوبہ زابل کے قریب سپین غر کے مقام پر گھات لگا کر ان کے قافلے پر حملہ کردیا اور افغان فوجی دستہ جو ڈائریکٹر کی حفاظت پر متعین تھا، کے دو افراد کو شدید زخمی کرکے ڈائریکٹر کو اغوا کرلیا۔ طالبان کے ترجمان لطف اللہ حکیمی نے اس کی تصدیق کی ہے۔
امریکہ اس دعوے کے تحت افغانستان میں وارد ہوا تھا کہ وہ "دہشت گردی" کا خاتمہ چاہتا ہے تاہم افغانستان میں عیسائی این جی اوز کی ان سرگرمیوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کی نظروں میں کھٹکنے والی دہشت گردی کچھ اور نہیں بلکہ "اسلام" ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں