علمِ دین اور علمائے کرام کی فضیلت

 بـســم الله الرحــمن الـرحـــيم

الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ و بعد

علم، اللہ سبحانہ و تعالی کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی فضیلت اور اہمیت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے۔ یہ ان انعامات الٰہیہ میں سے ہے جن کی بنا پر انسان دیگر مخلوقات سے افضل ہے۔ علم ہی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر اس کے ذریعے فرشتوں پر ان کی برتری ثابت فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل فرمائی گئی اُس میں اُن کی تعلیم سے ابتدا کی گئی اور پہلی ہی وحی میں بطورِ احسان انسان کو دیئے گئے علم کا تذکرہ فرمایا گیا:


اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5)
ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا ہے جسے وہ نہیں جانتا تھا۔ (العلق: 1 تا 5)

دینِ اسلام میں حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے اور علم و اہلِ علم کی متعدد فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور مسلمانوں کو علم کے حصول پر ابھارا گیا ہے۔ اور جس طرح علم کی اہمیت و فضیلت مسلّمہ ہے، اُسی طرح اِس نعمتِ عظیم کے حامل افراد کی فضیلت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امت میں تو بالخصوص اہلِ علم بہت اعلی مقام کے حامل ہیں حتیٰ کہ انہیں انبیائے کرام کا وارث قرار دیا گیا ہے۔ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: "علماء، انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور انبیاء علیہم السلام دینار اور درہم کا ورثہ نہیں چھوڑتے بلکہ انہوں نے علم کا ورثہ چھوڑا ہے۔ پس جس شخص نے اس سے (علم) حاصل کیا اس نے بڑا حصہ لے لیا۔" (ایک روایت کا کچھ حصہ، پوری روایت اسی مضمون میں آگے بمعہ حوالہ بیان ہوگی ان شاء اللہ)

چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری پیغمبر تھے، اس کے بعد اُن کے علم کے وارث یہی حضرات ہیں۔ اور انہی کی بے مثل اور خالص اللہ سبحانہ و تعالی کی رضا جوئی کیلئے کی گئی جدوجہد اور خدمتِ دین کا نتیجہ ہے کہ یہ دین الحمد للہ آج تک اپنی اصل شکل و صورت میں باقی ہے اور ہر دور میں اس کے دفاع کیلئے یہی علمائے کرام تھے جو سینہ سپر رہے۔ یہی وہ مبارک جماعت ہے جس نے دینی مسائل پر دقیق و عمیق نظر رکھی اور دین کے ہر ہر پہلو کو اس قدر واضح کردیا کہ اب عامۃ المسلمین کیلئے شرعی اوامر و نواہی سے آگاہی حاصل کرنا نہایت آسان ہوگیا ہے۔


اللہ تعالی غریقِ رحمت کرے ان پاکباز ہستیوں کو، اور تمام مسلمانوں کی اس خیر خواہی پر انہیں اپنی شان کے لائق اجر عطا فرمائیں۔ اور ان کے اتباع و امثال میں اضافہ فرمائیں۔ آمین



قرآنِ مجید اور فضیلتِ علم و علماء کا بیان:

1:يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ(269)
ترجمہ: وہ جسے چاہے حکمت اور دانائی دیتا ہے اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا جائے وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں۔ (البقرۃ:269)

امام مجاہد رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "(حکمت سے) نبوت نہیں، بلکہ علم، فقہ اور قرآن (کا علم) مراد ہے" (تفسیر ابنِ کثیر)

جبکہ امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا: "حکمت اللہ کے دین کی معرفت، اس کی فقہ (سمجھ) حاصل کرنا اور اتباع کرنا ہے" (الجامع لاحکام القران، للقرطبی)


2: هُوَ الَّذِي أَنزلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلا أُولُو الألْبَابِ (7)رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (8) رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ (9)
ترجمہ: وہی اللہ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کیلئے، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ اور پختہ و مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لاچکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل مند ہی حاصل کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، یقیناً تو ہی بہت بڑی عطا دینے والا ہے۔ اے ہمارے رب! تو یقیناً لوگوں کو ایک دن جمع کرنے والا ہے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ (آل عمران: 6 تا 9)


شیخ عبد الرحمن السعدی رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ نے راسخون فی العلم (علم میں پختہ لوگوں) کی سات صفات بیان کی ہیں۔ یہ بندے کی خوش بختی کی علامت ہیں۔

(1) علم: یہ وہ راستہ ہے جو اللہ تک پہنچاتا ہے۔ اس کے احکامات اور قوانین کو واضح کرتا ہے۔

(2) "رسوخ فی العلم" (علم میں پختہ ہونا) یہ صفت محض علم سے بڑھ کر ہے، اس لیے کہ راسخ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ آدمی محقق و مدقق عالم ہو۔ جس کو اللہ نے ظاہری علم بھی عطا فرمایا ہو اور باطنی علم بھی۔ شریعت کے اسرار میں اس کا علم بھی پختہ ہوتا ہے، عمل بھی درست ہوتا ہے اور حال بھی کامل ہوتا ہے۔

(3) وہ پوری کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور متشابہ کو محکم کی روشنی میں سمجھتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: (ترجمہ) "کہتے ہیں ہم تو اس پر ایمان لاچکے۔ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے"۔

(4) وہ اللہ تعالیٰ سے معافی کے طلب گار ہوتے ہیں اور جن غلطیوں میں گمراہ مبتلا ہوچکے ہیں، یہ لوگ اُن سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔

(5) وہ اللہ کا احسان مانتے ہیں کہ اس نے انہیں ہدایت دی۔ کیونکہ کہتے ہیں (ترجمہ) "اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردینا"

(6) اس کے ساتھ ساتھ وہ اللہ کی رحمت کا سوال کرتے ہیں، جس میں ہر بھلائی کا حصول اور ہر برائی سے بچاؤ شامل ہے۔ اس مقصد کیلئے اللہ تعالی کے اسم (الوہاب) کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں۔

(7) اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ قیامت کے آنے پر پورا ایمان رکھتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں۔ یہی ایمان عمل کرنے پر آمادہ کرتا، اور لغزش سے بچا کر رکھتا ہے۔



3: شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (18)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہلِ علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور وہ عدل کے ساتھ دنیا کو قائم رکھنے والا ہے۔ اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ (آل عمران:18)


حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی گواہی کے بعد ملائکہ اور اہلِ علم کی گواہی کا تذکرہ کیا ۔۔۔ اور یہاں علمائے کرام کی عظیم خصوصیت (فضیلت) ہے"۔ (تفسیر ابن کثیر)

جبکہ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس آیت میں علم اور اہلِ علم کا شرف و فضیلت بھی بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی علماء سے افضل ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے اور ملائکہ کے نام کے بعد اُس کا نام بیان فرماتے۔" (الجامع لأحکام القرآن)

واضح رہے کہ علمائے کرام کی یہ فضیلت، انبیاء علیہم السلام کے بعد ہی ہے۔ اور ظاہر ہے انبیاء علیہم السلام ہی سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس آیت کا اولین مصداق وہی ہیں۔

جبکہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:
"اور اس میں اہلِ علم کی بڑی فضیلت اور واضح منقبت کا بیان ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کے نام کو اپنے اور ملائکہ کے ناموں کے بعد ذکر کیا ہے۔ اور اہلِ علم سے یہاں مراد علمائے کتاب (قرآن مجید) اور سنت ہیں اور (وہ علوم) جن سے ان (کتاب و سنت کے احکام) کی مراد تک پہنچا جاسکے۔" (فتح القدیر)



4:وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا
ترجمہ: جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کردیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کرلیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔ (النساء: 83)

امام حسن بصری و قتادہ رحمہما اللہ سے اس کی تفسیر میں منقول ہے کہ "اولی الامر" سے یہاں مراد "اہلِ علم و فقہ" ہیں۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی)



5:وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
ترجمہ: اور نہیں لائق مومنوں کو یہ کہ نکلیں وہ (جہاد کیلئے) سارے کے سارے، پس کیوں نہیں نکلا ہر فرقے سے ان میں سے ایک گروہ تاکہ سمجھ حاصل کریں وہ دین میں اور تاکہ ڈرائیں وہ اپنی قوم کو جب لوٹ کر آئیں وہ ان کی طرف تاکہ وہ (پیچھے والے بھی) ڈریں؟۔ (التوبہ:122)

تفسیر سعدی میں اس آیت کی تفسیر میں ہے: "اس سے علم کی فضیلت مستفاد ہوتی ہے خاص طور پر دین میں سمجھ کی فضیلت، نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ "تفقہ فی الدین" (دینی علوم میں سمجھ داری) بہت اہم معاملہ ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو کوئی کسی قسم کا علم حاصل کرتا ہے تو اس پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس علم کو اللہ کے بندوں میں پھیلائے۔ اس بارے میں ان کے ساتھ خیر خواہی کرے، کیونکہ عالم سے علم کا پھیلنا اس کی برکت اور اس کا اجر ہے جو بڑھتا رہتا ہے۔ (تفسیر السعدی)



6: وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا
ترجمہ: اور کہیے کہ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔ (طٰہ:114)

شارحِ بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ آیت علم کی فضیلت کی واضح دلیل ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم کے علاوہ کسی اور چیز میں اضافے کی دعا تعلیم نہیں فرمائی"۔ (فتح الباری، کتاب التفسیر)

حضرت موسی اور حضرت خضر علیہما السلام کے درمیان جب ملاقات ہوئی تو اُس موقع پر جب وہ کشتی میں سوار ہوئے، ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی، اس نے سمندر میں ایک یا دو بار چونچ ماری۔ تو خضر علیہ السلام نے فرمایا: "اے موسی! میرا اور تمہارا علم مل کر اللہ کے علم کے ساتھ وہ نسبت نہیں رکھتا جتنی نسبت اس چڑیا نے چونچ مار کر سمندر سے جو قطرہ لیا ہے، اس قطرے کو پورے سمندر سے ہے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب العلم)

اس سےمعلوم ہوا کہ انسان خواہ کتنا ہی علم حاصل کیوں نہ کرلے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم کے سامنے اُس کی کوئی حقیقت نہیں لہٰذا چاہیے کہ اُسے اپنے علم پر کبھی غرور نہ ہو۔ یہ امرِ واقعی ہے کہ ایک عالم کبھی بھی اپنے علم کے بارے میں ایسا دعویٰ نہیں کرے گا کہ وہ علم میں کامل ہے یا اب اسے مزید حصولِ علم کی حاجت نہیں رہی۔



7: وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ
ترجمہ: ہم ان مثالوں کو لوگوں کیلئے بیان کر رہے ہیں۔ انہیں صرف علم والے ہی جانتے ہیں۔ (العنکبوت:43)



8: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ
ترجمہ: اللہ سے اُس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ واقعی اللہ تعالیٰ بڑا زبردست بخشنے والا ہے۔ (فاطر:28)
امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہاں وہ علماء مراد ہیں جو اللہ کی قدرت سے ڈرتے ہیں۔ پس جس نے یہ جان لیا کہ اللہ قدرت رکھنے والا ہے، اُسے اپنے گناہوں پر پکڑ کا بھی زیادہ یقین رہے گا۔

جیسا کہ علی بن ابی طلحہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (اس آیت کی تفسیر میں) فرمایا:
"وہ (علماء) جنہوں نے یہ جان لیا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے"۔
اور ربیع بن انس نے کہا:
"جو اللہ سے نہیں ڈرتا وہ عالم نہیں ہے"۔
جبکہ امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"عالم تو وہی ہے جو اللہ عز وجل سے ڈرتا ہو"۔
اور حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا:
"اللہ کے خوف کیلئے علم کا ہونا اور اللہ سے بے خوفی (اور گناہوں پر جرأت) کیلئے جاہل ہونا کافی ہے۔"
سعد بن ابراہیم رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ مدینہ کا سب سے سمجھدار (فقیہہ) شخص کون ہے؟ فرمایا:
"جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے"۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"بے شک حقیقت میں فقیہہ (سمجھدار، علومِ دینیہ کی سمجھ رکھنے والا) وہ ہے جو (اپنے وعظ سے) لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے۔ نہ انہیں اللہ کی معصیت کی اجازت دے۔ نہ انہیں اللہ کے عذاب سے ہی مأمون کردے، جو کسی اور چیز کی رغبت میں قرآن کو ترک کرنے والا نہ ہو بے شک اُس عبادت میں کوئی خیر نہیں جو بغیر علم کے ہو اور نہ اُس علم میں ہی (خیر ہے) جس میں فقہ (سمجھ) نہ ہو۔ اور نہ اُس قرأت میں جو بغیر تدبر کے ہو"۔
(الجامع لأحکام القرآن)



9:وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ
ترجمہ: اللہ بلند کرے گا ان کیلئے جو ایمان رکھتے ہیں تم میں سے اور علم، اُن کے درجے۔ اور اللہ کو خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ (المجادلۃ:11)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہلِ علم کی تعریف کی ہے۔" اور اس (آیت) کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ بلندی دے گا اہلِ علم کو (عام) ایمان والوں پر۔
(الجامع لأحکام القرآن)

جبکہ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ سبحانہ و تعالی عالِم مومن کو غیر عالِم مومن پر درجات کی بلندی دیتے ہیں اور یہ اُس (عالم) کی فضیلت کی دلیل ہے۔ تو پھر درجات کی بلندی سے مراد کثرتِ ثواب ہے کیونکہ اسی سے درجات بلند ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ بلندی دو معنوں میں ہے۔ دنیا میں بھی عزت اور مرتبہ کی بلندی، کیونکہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہیں اور آخرت میں عالم کو غیر عالم پر جنت میں درجات کی بلندی بھی نصیب ہوگی۔
(فتح الباری۔ کتاب التفسیر)



10:قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ
ترجمہ: کیا علم والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہوسکتے ہیں؟
امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں یہ قول نقل کرتے ہیں: "علم رکھنے والے (در حقیقت) وہ ہیں جو اپنے علم سے نفع اٹھاتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ جبکہ جو شخص علم رکھتا ہے مگر اس پہ عمل نہیں کرتا وہ علم نہ رکھنے والے کے برابر ہی ہے"
(الجامع لأحکام القرآن)

11:نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ
زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں "بذریعہ علم"
(یعنی علم کے ذریعے ہم جس کے چاہیں درجات بلند فرماتے ہیں۔)



احادیثِ مبارکہ اور فضیلتِ علم و علماء

1:کثیر بن قیس رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں دمشق کی جامع مسجد میں حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے کہا: "اے ابو الدرداء! میں تیرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر (مدینہ منورہ) سے ایک حدیث (سننے) کیلئے آیا ہوں۔ میں کسی دوسرے کام سے نہیں آیا بلکہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ آپ فرمارہے تھے کہ "جو علم طلب کرنے کی راہ پر چلا تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی راہ پر چلائے گا۔ اور فرشتے اپنے پروں کو طالبِ علم کی خوشنودی کیلئے بچھاتے ہیں۔ اور عالم کیلئے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں اور پانی کے اندر رہنے والی مچھلیاں بھی استغفار کرتی ہیں اور عالمِ کو عابد (عبادت گزار) پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسا کہ چودھویں رات کے چاند کو تمام ستاروں پر فضیلت ہے، علماء، انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور انبیاء علیہم السلام دینار اور درہم کا ورثہ نہیں چھوڑتے بلکہ انہوں نے علم کا ورثہ چھوڑا ہے۔ پس جس شخص نے اس سے (علم) حاصل کیا اس نے بڑا حصہ لے لیا۔"
(مسند احمد، ترمذی، ابو داود، ابن ماجہ، دارمی، جبکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے "کثیر بن قیس" کی جگہ "قیس بن کثیر" ذکر کیا ہے)

2: حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو اشخاص کا تذکرہ کیا گیا۔ ان میں ایک عابد اور دوسرا عالم تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عالم کی عابد پر (اس طرح) فضیلت ہے جس طرح تم میں سے ادنیٰ درجے کے مسلمان پر میری فضیلت ہے۔" (پھر فرمایا) "بلاشبہ اللہ تعالی، اُس کے فرشتے، آسمانوں اور زمین میں رہنے والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی (سمندر میں) بھی اس شخص کیلئے دعائیں کرتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے۔"
(ترمذی)

3: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص علم کی تلاش میں نکلا، وہ واپس آنے تک اللہ کے راستے میں ہے۔"
(ترمذی، دارمی)

4: حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مومن علم (کی باتیں) سننے سے سیر نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔"
(ترمذی)

5: حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو تر و تازہ رکھے جس نے میری بات کو سنا، اس کو محفوظ کیا، اس کو یاد رکھا اور اس کو (لوگوں تک) پہنچایا۔ پس ایسے لوگ بہت ہیں جو علم کے حامل تو ہیں لیکن فقیہہ نہیں ہیں (یعنی استنباط کا ملکہ نہیں رکھتے) اور ایسے لوگ بھی بہت ہیں جو علم ایسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہہ ہوتے ہیں۔ تین خصلتیں ایسی ہیں جنہیں مومن کا دل ترک نہیں کرتا بلکہ انہیں اپناتا ہے۔ اللہ کی رضا کیلئے خالص عمل کرنا، مسلمانوں کی خیر خواہی کرنا اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ منسلک رہنا کیونکہ اُن کی دعا اس کو چاروں طرف سے گھیرے رہتی ہے۔
(بیہقی ۔ نیز احمد، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ اور دارمی نے اس حدیث کو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے جبکہ ترمذی و ابو داؤد نے "تین خصلتیں" سے حدیث کے آخر تک کے الفاظ ذکر نہیں کیے)

6: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایماندار انسان کو اس کی وفات کے بعد اس کے اعمال اور اس کی نیکیوں میں سے جن کا (ثواب) ملتا رہتا ہے، ان میں سے ایک علم ہے جس کو اس نے حاصل کیا اور پھیلایا ۔۔۔ "
(ابنِ ماجہ، بیہقی شعب الایمان)

7: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرمارہے تھے کہ اللہ عز و جل نے میری جانب وحی کی کہ جو شخص علم کی جستجو میں چلا، میں اس کیلئے جنت کا راستہ آسان کردوں گا اور میں جس شخص کی دو محبوب چیزیں (یعنی آنکھیں) چھین لوں تو میں ان دونوں کی وجہ سے اس کو جنت کا ثواب عطا کروں گا اور علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بہتر ہے اور دین (اسلام) کا دار و مدار پرہیزگاری پر ہے۔
(بیہقی شعب الایمان)

8: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا: "تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ "بے شک اللہ اس کتاب (قرآن مجید) کے ذریعے بعض قوموں کو بلندی عطا فرماتے ہیں اور اسی (پر عمل نہ کرنے) کے سبب بعض کو پست کردیتے ہیں۔
(صحیح مسلم)

9: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دو شخصوں پر رشک کرنا جائز ہے۔ ایک وہ جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ اسے راہِ حق میں خرچ کرتا ہے ۔ دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی جس سے وہ فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔"
(متفق علیہ)

10: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہدائے غزوۂ احد کے دو دو آدمیوں کو ایک ایک قبر میں اکٹھا دفن کرتے تو آپ پوچھتے: ''ان میں سے قرآن کس کو زیادہ یاد تھا؟'' پس جب آپ کو کسی ایک کے بارے میں بتایا جاتا تو آپ اسے قبر میں پہلے اتارتے۔
(بخاری)

11: حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سفید ریش (عمر رسیدہ) مسلمان، حامل قرآن (حافظ و عالم) جو افراط و تفریط سے محفوظ ہو (یعنی غلو کرنے والا ہو نہ اس کی تعلیمات پر عمل کرنے سے کوتاہی برتنے والا ہو) اور عادل و منصف بادشاہ کی تکریم کرنا اللہ تعالیٰ کی عزت کرنے کے ہم معنی ہے''
(ابو داؤد۔ حدیث حسن ہے)


12: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عینیہ بن حصن مدینہ آئے تو اپنے بھتیجے حر بن قیس کے ہاں ٹھہرے اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں حضرت عمر اپنے قریب بٹھایا کرتے تھے اور حضرت عمر کے ہم نشین اور ان کی مجلس مشاورت میں قراء حضرات شامل تھے، خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان۔ عینیہ نے اپنے بھتیجے سے کہا: "میرے بھتیجے! آپ کو اس امیر کے ہاں خاص مقام حاصل ہے مجھے اس سے ملنے کی اجازت لے دیں۔ پس انہوں نے اس (عینیہ) کے لیے اجازت طلب کی تو حضرت عمر نے انہیں اجازت دے دی۔ پس جب وہ ان کے پاس گئے تو کہا: "افسوس! اے ابن خطاب! اللہ کی قسم! آپ ہمیں زیادہ عطیے دیتے ہیں نہ ہمارے درمیان انصاف سے فیصلہ کرتے ہیں۔ حضرت عمر غضبناک ہوگئے حتیٰ کہ انہیں سزا دینے کا ارادہ کیا تو حر بن قیس نے کہا: "اے امیر المومنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے:
''خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ"
("عفو و درگزر اختیار کریں، نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے اعراض فرمائیں" الاعراف:199)
اور یہ عینیہ بھی جاہلوں میں سے ہے۔" (حضرت ابنِ عباس کہتے ہیں) اللہ کی قسم! جب انہوں نے یہ آیت تلاوت کی تو حضرت عمر نے اس سے تجاوز نہیں کیا اور وہ اللہ کی کتاب کے حکم پر ٹھہر جانے والے تھے۔ (یعنی اپنے رائے، قیاس یا غصے پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترجیح دینے والے تھے)


جس علم کی فضیلت بیان ہوئی ہے، اُس سے کون سا علم مراد ہے؟

13: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: "علم تین (قسم کا) ہے۔ (قرآنِ کریم کی) آیتِ محکم، یا سنتِ ثابتہ، یا فریضۂ عادلہ۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ زیادہ ہے" (یعنی اتنا ضروری ہے اور اس کے بعد جو حاصل ہوجائے ٹھیک ۔ نہ ہو تو اُس پر موأخذہ نہیں)
(ابنِ ماجہ، مستدرک حاکم، جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البر)

اور حافظ ابن حجر علیہ رحمۃُ اللہ لکھتے ہیں:
ترجمہ: "اور علم (جس کی فضیلت بیان کی گئی ہے) سے مراد وہ شرعی علم ہے جس سے ان امور کی آگاہی میں مدد ملے جن کا انسان عبادات اور معاملات میں مکلف ہے"۔ پس علم کی جو فضیلت اور عالم کے جو فضائل بیان کیے گئے ہیں، وہ شریعت سے متعلق علوم ہی کے بارے میں ہیں۔
(فتح الباری شرح کتاب العلم)


علم (علمِ دین) دنیا سے کیسے رخصت ہوگا؟
14: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک اللہ (کتاب و سنت کے) علم کو بندوں کے دلوں سے نکال کر نہیں اٹھائے گا۔ البتہ علماء کو فوت کرکے اٹھائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو عوام الناس جاہل لوگوں کو سردار بنائیں گے، ان سے مسائل دریافت کیے جائیں گے، علم نہ ہونے کے باوجود وہ فتویٰ دیں گے اس طرح وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔"
(متفق علیہ)


حصولِ علم کیلئے صحابۂ کرام اور علمائے سلف کے مجاہدات اور ان کی خدمات:
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث سننے کی خاطر ملک شام کا سفر کیا اور ایک ماہ کی مسافت کی مشقت برداشت کی۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ایک حدیث سننے کیلئے مدینہ منورہ سے مصر تشریف لے گئے اور حدیث سننے کے بعد وہاں رکے بغیر فوراً دوبارہ مدینہ منورہ کیلئے روانہ ہوگئے۔ حدیث یہ تھی:
"جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی فرمائیں گے" (متفق علیہ)

ابو العالیہ فرماتے ہیں: "ہم سنتے تھے کہ فلاں صحابی رضی اللہ عنہ سے یہ روایت مروی ہے۔ تو اسناد میں علو (بلندی، یعنی درمیانی واسطے کم سے کم کرنے کی خاطر) ہم اُن صحابی کی جانب سفر کرکے اُن سے براہ راست وہ روایت سنا کرتے تھے" ۔
سلیمان بن شعبہ کہتے ہیں: "ابو داود رحمہ اللہ سے چالیس ہزار احادیث لکھی گئیں (اس حال میں کہ) ان کے پاس کتاب نہیں تھی۔"

اور ابوزرعہ الرازی کہتے ہیں: "مجھے دو لاکھ احادیث یوں یاد ہیں جیسے تم میں سے کسی کو "قل ھو اللہ احد" یاد ہوتی ہے۔

قاضی ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ نے قرآن مجید کی تفسیر لکھی جو 80 جلدوں میں ہے۔ اس کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں ان کی تصانیف ہیں جن میں "شرح الترمذی" ، "شرح مؤطاء" ، "احکام القرآن الکبریٰ و الصغریٰ" ، "العواصم من القواصم" اور "المحصول فی الاصول" مشہور ہیں اور یہ تمام کی تمام اپنی مثال آپ ہیں۔

ابن ابی الدنیا کی تصانیف ایک ہزار سے زائد ہیں۔
اسی طرح امام حاکم رحمہ اللہ، صاحبِ مستدرک کی تصانیف کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد ہے۔

حافظ ابنِ عساکر رحمہ اللہ نے اپنی مشہور تصنیف "تاریخ ابن عساکر" 80 جلدوں میں مکمل کی۔

امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ حصولِ علم کیلئے ایک ہزار سات سو سے زائد اساتذہ کے پاس گئے۔ وہ بیس برس کی عمر میں طلبِ علم کیلئے گھر سے نکلے تھے اور پینسٹھ برس کی عمر میں واپس آئے۔


علم سے متعلق حکیمانہ اقوال:

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "علم مال سے بہتر ہے۔ کیونکہ مال کی تم حفاظت کرتے ہو اور علم تمہاری حفاظت کرتا ہے۔ مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے جبکہ علم تقسیم کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ عالم حاکم ہے اور مال اس کا محکوم ہے۔ خزانوں والے مرگئے، علم والے باقی ہیں جب تک یہ دنیا باقی رہے گی۔

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں سے فرمایا: "علم حاصل کرو، اس لیے کہ اگر تم آج قوم کے چھوٹوں میں سے ہو تو کل تم اِس قوم کے بڑوں میں سے ہوگے۔ جسے یاد نہیں ہوتا وہ لکھ لیا کرے"
(المدخل الی السنن الکبریٰ)

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کم سنی میں حصولِ علم کی اہمیت سے متعلق فرماتے ہیں: "طلب العلم فی الصغر کالنقش فی الحجر"
(ترجمہ) کم عمری میں طلبِ علم (اپنی پختگی میں) پتھر پر لکیر کی طرح ہے۔
(حوالہ بالا)

حضرت لقمان سے متعلق ایک روایت میں ہے کہ اپنے بیٹے سے فرمایا: "اے بیٹے! علماء کی صحبت اختیار کرو۔ اُن کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملاؤ (اُن کے قریب رہو) کیونکہ بے شک اللہ تعالیٰ دلوں کو حکمت سے زندگی دیتے ہیں جس طرح مردہ بنجر زمین کو بارش سے زندگی حاصل ہوتی ہے" ۔

اور فرمایا: "اے بیٹے! مجلسوں کو دیکھ کر اُن میں بیٹھا کرو۔ اگر دیکھو کہ ایک قوم ہے جو اللہ کا ذکر کرتی ہے تو ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ، اگر تم عالم ہوگے تو تمہارا علم نفع پہنچائے گا۔ اگر جاہل ہوگے تو وہ تمہیں سکھائیں گے۔ اور ہوسکتا ہے اُن پر اللہ کی رحمت نازل ہو تو تم بھی (ان کے ساتھ ہونے کی وجہ سے) اس رحمت میں سے حصہ پاؤ۔ اور اگر تم کسی قوم کو دیکھو کہ وہ اللہ کا ذکر نہیں کرتی تو ان کے ساتھ مت بیٹھنا۔ اگر تم عالم ہو تو تمہارا علم تمہیں نفع نہیں دے گا اور اگر جاہل ہو تو یہ تمہارے جہل میں مزید اضافہ کردیں گے"

اور فرمایا: "اے بیٹے! بے شک علم ہی وہ ذریعہ ہے جس نے مساکین کو بادشاہوں کی مجالس تک جا پہنچایا اور انہیں وہاں مقام دلایا"۔

مزید فرمایا: "جس طرح بادشاہوں اور امراء نے تمہارے لیے علم و حکمت چھوڑ رکھی ہے (یعنی اس کی طلب نہیں رکھتے) اسی طرح تم ان کیلئے مال و دولت چھوڑ دو" ۔
(جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البر رحمہ اللہ)



حکیمانہ اشعار:


العلم صید والکتابۃ قیدہ



قید صیودک بالحبال الواثقہ



فمن الحماقۃ ان تصید غزالہ



و تترکھا بین الخلائق طالقہ



شاعر طالبِ علم سے مخاطب ہیں، کہتے ہیں کہ "علم شکار ہے اور اسے لکھنا گویا اُسے قید کرلینا ہے۔ پس تم اپنے شکار کو مضبوط رسیوں سے (یعنی لکھ کر) باندھ لو۔ کیونکہ یہ حماقت ہوگی کہ تم ہرن کو شکار کرلو (پکڑ لو) پھر اسے کھلا چھوڑ دو۔"




عصرِ حاضر اور علمائے کرام کی تضحیک و تحقیر:

دورِ حاضر میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے جو پراپیگنڈا مہم اسلام کے خلاف شروع کی گئی ہے، اس حکمتِ عملی کے تحت منظم طور پر مگر بہت ہی غیر محسوس طریقے سے مسلمانوں کے اذہان میں اسلام کے خلاف شکوک و شبہات کو ابھارا جارہا ہے اور یہ عمل کوئی آج سے نہیں، بلکہ کم از کم دو دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔ البتہ اب وسائل کی فراوانی کے ساتھ ساتھ چونکہ اس کا حیطۂ عمل وسیع ہوگیا ہے، چنانچہ اس کے اثرات پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کیے جارہے ہیں اور اس مقولے پر پوری طرح عمل جاری ہے کہ "جھوٹ کو اتنی بار دہراؤ کہ اسے سچ تسلیم کرلیا جائے"۔

اس پالیسی کے تحت مسلمانوں کے اذہان میں مختلف طریقوں سے علمِ دین اور علمائے دین کی اہمیت کم کرنے اور انہیں اس سے برگشتہ کرنے کیلئے بھی مسلسل کام ہورہا ہے۔ طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے نئی نسل کو اسلام کے ان جلیل القدر خدمت گزاروں سے برگشتہ کیا جارہا ہے، تحقیر آمیز آنداز میں انہیں "مُّلا"، "جاہل مولوی" وغیرہ کے القاب سے پکارا اور یاد کیا جاتا ہے، ان سے بے شمار لطیفے منسوب کیے جاتے ہیں۔ خود ہماری لاعلمی بھی باعثِ حیرت ہے کہ ہم اُس جماعت کو نشانۂ تمسخر بناتے ہیں جس کی فضیلت کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالی قرآن مجید میں پوچھتے ہیں:


"کہہ دو کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں؟"


اور جن کو انبیائے کرام کا وارث لسانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے قرار دیا جاچکا ہے۔


"جاہل مولوی" کی اصطلاح زیادہ پرانی نہیں ہے۔ یہ خود اپنے وضع کنندہ کی عقل پر ماتم کرتی اور بہ زبانِ حال اُس کے ذاتی جُہل کی نشاندہی کرتی ہے کہ اُس نے دو ایسے الفاظ کو یکجا کردیا جن میں بُعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ "مولوی" کا سابقہ علمائے کرام کے ساتھ مخصوص ہے، یعنی صاحبِ علم شخصیت کا نام "مولوی" اور "مولانا" کے سابقے کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ اگر ہم "جاہل مولوی" کو بہ الفاظِ دگر بیان کریں، تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ "جاہل صاحبِ علم"۔ اب اِس کا جواب کون دے کہ اگر وہ عالم ہے تو جاہل کیسے ہوا؟ اور جاہل ہے تو صاحبِ علم کیونکر کہلایا؟۔ اسی طرح "جاہل ڈاکٹر"، "جاہل انجینئر" کے القابات کیوں مستعمل نہیں اور ایسا کہنے والے کو غبی کیوں تصور کیا جائے گا جبکہ عالمِ دین کیلئے یہ اصطلاح وضع کرنے والے کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھا جاتا؟۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ اصطلاح استعمال کرنے والے علم دین کو (معاذ اللہ) علم کا درجہ دینے پر ہی تیار نہیں ہیں؟؟؟۔





میری رائے میں ۔۔ اِس اصطلاح کے پیچھے کار فرما اصل مقصد بہت خطرناک ہے اور وہ یہ کہ عوام الناس کو باور کرادیا جائے کہ علمِ دین کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اور اِس کے حامل اصحابِ علم کہلانے کے لائق نہیں بلکہ یہ نرے "جاہل" ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں علمائے کرام سے متعلق پھیلائے گئے لطیفے، القابات جب کمسن بچوں، نوجوانوں کے سننے میں آتے ہیں تو لامحالہ اُن کے ذہنوں میں ایسی کئی منفی باتیں علمائے کرام سے متعلق بیٹھ جاتی ہیں جو آگے چل کر دینی نقطۂ نظر سے اُن کیلئے تباہ کُن ثابت ہوتی اور انہیں مذہب سے ہی دور کردینے کا باعث بنتی ہیں۔



پھر اگر علماء کے بیچ میں چند ایسے لوگ بھی در آئے ہیں جو برائے نام عالم ہیں، اور درپردہ وہ دین کو نقصان پہنچارہے ہیں تو اِس کی بناء پر تمام علمائے کرام ہی کو مطعون کرنا۔۔۔ کیا دانشمندی کا یہی تقاضا ہے؟ صرف ایک مثال ۔۔۔ کس کے علم میں نہیں کہ بالخصوص وطنِ عزیز میں اتائی ڈاکٹرز مصروفِ عمل ہیں اور اپنی جعلسازی و ناتجربہ کاری کے باعث متعدد افراد کی ہلاکت کا سبب بنے ہیں۔ کیا یہ درست ہوگا کہ ایسے افراد کی موجودگی کی بناء پر شعبۂ طب سے وابستہ تمام افراد کو حقارت کی نظر سے دیکھا جائے؟ انہیں طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا جائے۔؟ غالباً کوئی اِس کے حق میں نہیں ہوگا۔ کیونکہ سب کے علم میں ہے کہ ڈاکٹرز کا معاشرے میں وجود کس قدر ضروری ہے اور اِن کی موجودگی ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں کتنی اہمیت رکھتی ہے۔ مگر افسوس۔۔۔ جتنی اہمیت ہم ان جسمانی معالجین کو دیتے ہیں۔ ہمارے روحانی معالج، ہمارے روحانی مربی و اساتذہ اور معاشرے کی اصلاح کیلئے کوشاں علمائے کرام کی ہم اُسی قدر بے قدری کررہے ہیں۔ اِس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بحیثیتِ مجموعی ہمیں معاشرے کو، نظامِ زندگی کو مکمل طور پر اسلامی ضابطے میں ڈھالنے کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اگر ہوتی ۔۔ تو علمِ دین کی ترویج و تبلیغ، اور ہماری اصلاح کیلئے شبانہ روز کوشاں ۔۔ علمائے کرام کی بھی ہمیں قدر ہوتی۔ اور کسی کی جرأت نہ ہوتی کہ انہیں تحقیر آمیز القابات سے نوازے یا اُس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر انہیں زمین پر "فساد فی سبیل اللہ" کا باعث قرار دے اور کہے کہ "دینِ ملا، فساد فی سبیل اللہ" ۔۔ لا حول و لا قوۃ الا باللہ ۔۔۔

امام شافعی رحمہ اللہ کے کیا خوب اشعار ہیں ایسی ہی طرزِ فکر کے حامل افراد کیلئے:




عاب التفقہ قوم لا عقول لہم

و ما علیہ اذا عابوہ من ضرر

ما ضر شمس الضحیٰ و ہی طالعۃ

ان لا یُریٰ ضوءھا من لیس ذا بصر



ترجمہ: تفقہ (دین کی سمجھ) حاصل کرنے کو اُن لوگوں نے معیوب قرار دیا ہے جو عقل سے محروم ہیں اور ایسے لوگوں کے فقہ پر عیب لگانے سے کوئی ضرر نہیں ہے۔ اگر کوئی نابینا آفتابِ نیمروز کو جو آب و تاب سے طلوع ہوچکا ہو، نہیں دیکھتا تو اس سے آفتاب کی روشنی کو کیا نقصان ہوتا ہے؟

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں علمِ دین اور اس پر عمل نصیب فرمائیں، اور ہمیں علمائے کرام کی تکریم اور ان سے بھرپور استفادے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔

واللہ اعلم، و صلی اللہ وسلم و بارک علیٰ نبینا محمد و علیٰ آلِہِ و صحبہ اجمعین۔

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں