مفتی تقی عثمانی صاحب کا "آسان ترجمۂ قرآن" تعارف و تبصرہ

مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ حال ہی میں مفتی صاحب کا ترجمۂ قرآن مجید بنام "آسان ترجمۂ قرآن" کراچی سے شائع ہوکر منظرِ عام پر آیا ہے۔ مفتی ابولُبابہ نے اپنے دو مضامین میں اس ترجمہ کا عمدہ تعارف و تبصرہ پیش کیا ہے۔ میں نے یہی دو مضامین تلخیص کے ساتھ یکجا کرنے کی کوشش کی ہے جو آپ آئندہ سطور میں ملاحظہ کریں گے۔
دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی ان کی امثال و اتباع میں اضافہ فرمائیں اور ان سمیت تمام علمائے حق کو درازیٔ عمر کے ساتھ دین کی مزید خدمت کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!

"سنجیدہ تحریروں کا آغاز عموماً کسی لطیفے سے نہیں کیا جاتا۔ مگر زیر نظر مضمون کے سنجیدگی کے آخری حد کا متقاضی ہونے کے باوجود اس کا آغاز ایک لطیفے سے کرنے کو دل چاہتا ہے۔ وجہ اس کی صرف یہی نہیں کہ لطیفہ بامعنی اور صورتِ حال ۔۔۔ دل چاہے تو "لطفِ حال" کہہ لیں۔۔۔ پر پوری طرح منطبق ہے بلکہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو کچھ لطیفے کے مرکزی کردار پر گزری، یہ ایک عرصہ تک خود کالم نگار پر گزرتی رہی ہے۔ 

لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ ایک خان صاحب نے مولانا صاحب سے وعظ میں سن لیا کہ ہندو کاپر (کافر) ہے اس لیے کہ کلمہ نہیں پڑھتا۔ خان صاحب کو اس پر طیش آیا کہ اس کی یہ جرأت کہ یہ کلمہ نہیں پڑھتا اور ہمارے سامنے دندناتا پھرتا ہے۔ ایک لالہ جی کی جو شامت آئی تو ادھر کو آنکلے۔ خان صاحب نے جھٹ سے گردن ناپی، دھوبی پٹخا مارا اور زمین پر دے پٹخ، سینے پر سوار ہوگئے۔ "خوچہ! کاپر کا بچہ! تم وہی ہے جو کلمہ نہیں پڑھتا"۔ لالہ جی کو جان چھٹتی نظر آرہی تھی نہ بچتی۔ مرتے کیا نہ کرتے۔ لجاجت سے التجا کی کہ کلمہ پڑھا دیجیے تاکہ زمین بوسی اور زبردستی کی "خان سواری" سے تو نجات ملے۔ لالہ جی کی آمادگی کا مسئلہ جب حل ہوا تو خان صاحب کو احساس ہوا کہ اگلا مسئلہ اس سے بھی سنگین ہے اور وہ یہ ہے کہ کلمہ شریف خود ان کو بھی نہیں آتا تھا!!!

اس عاجز کو "فہم دین کورس" کے دوران جس صورتحال سے سابقہ پڑا، وہ خان صاحب کی "خود آگاہی" کے بعد پیدا ہونے والی سنگین صورتحال سے کچھ مختلف نہ تھی۔ فرق تھا تو اتنا کہ خان صاحب کیلئے لالہ جی کے سینے سے اترنا اور اپنی راہ لینا آسان تھا، جبکہ ہمارے لیے "فہم دین کورس" کا آغاز ہوجانے کے بعد حاضرین کو ۔۔۔ جو صدقِ طلب سے سرشار تھے ۔۔۔ مطمئن کرنا نہایت مشکل تھا۔ جان چھڑانا تو اس سے بھی سوا مشکلات پیدا کرتا بلکہ عار کا سبب تھا۔ 

مسئلہ یہ درپیش تھا کہ درس دینے والے علماء حضرات کی زبان اور اس میں پیش کردہ ترجمۂ قرآن "عربک اردو" یا "پرشین اردو" میں ہوتا تھا۔ اور سامعین "اینگلو اردو" کے عادی تھے۔ مدرسین حضرات اپنی گفتگو میں فارسی اور عربی کے عالمانہ الفاظ اور خوبصورت ترکیبیں بلا تکلف استعمال کرتے تھے جبکہ وہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ جو "شاگرد" کے طور پر ان کے سامنے موجود تھا، وہ اس معیاری اور شاندار اردو کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ اسے کس طرح قرآن کریم کا آسان ترجمہ سمجھایا جائے؟ وہ کون سی مختصر تشریح ہو جو قرآن کا بنیادی پیغام ان کے دل میں اُتار دے؟ اور ضعیف روایات اور فقہی اختلافات سے ہٹ کر مستند بات اور قول مختار ان کے ذہن نشین ہوجائے؟ 

اردو میں ایسا ترجمہ و تشریح دستیاب نہ تھی جو ایک طرف تو علمی و تحقیقی اعتبار سے مستند ہو، دوسری طرف اس کی زبان اتنی آسان اور معیاری ہو کہ کم پڑھے لکھے افراد اور جدید تعلیم یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والے، سب کیلئے یکساں طور پر مفید اور کار آمد ہو۔ علم و ادب کے امتزاج کی سب سے زیادہ جس موضوع کو ضرورت تھی، اس کی طرف اتنی ہی کم توجہ کی جارہی تھی۔ 

بات خان صاحب کے "سینہ زور" لطیفے سے شروع ہوئی تھی اور کہاں جاپہنچی؟ خان صاحب کو خدا جانے بعد میں کلمہ سمجھنے اور لالہ جی کو پڑھانے کا موقع ملا یا نہ ملا، لیکن ہمیں اُس وقت اس مہیب خلا کے پُر ہونے اور عامۃ المسلمین کے سامنے شرمندگی سے بچنے کا ذریعہ دستیاب ہونے کا یقین ہوگیا جب تقریباً دو سال قبل سنا کہ عصر حاضر کی نابغہ روزگار شخصیت، مفکر اسلام، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم، قرآن کریم کا اُردو ترجمہ لکھ رہے ہیں۔ سال ڈیڑھ سال ہونے کو آیا کہ حضرت کا انگریزی میں ترجمۂ قرآن کریم چھپ کر منظر عام پر آیا۔ یہ ایسی ضرورت تھی جو اسلام اور انگریز یا عربی اور انگریزی کی عالمی معرکہ آرائی شروع ہونے سے لے کر آج تک پوری نہ ہوئی تھی۔ اس سے پہلے انگریزی میں جو ترجمے تھے۔ وہ کسی ایسے عالم کی کاوشوں کا نتیجہ نہ تھے جو علومِ دینیہ میں رسوخ کے ساتھ انگریزی زبان پر بھی براہِ راست اور بذاتِ خود عبور رکھتا ہو۔ انگریزی تراجم یا تو غیر مسلموں کے تھے یا نو مسلموں کے، یا پھر ایسے اہلِ اسلام کے جو علومِ عربیت اور علومِ دینیہ پر اتنی گہری نظر نہ رکھتے تھے جو اس نازک علمی کام کیلئے اور پھر اس کام کے معیار و مستند ہونے کیلئے درکار ہوتا ہے۔ قرآن کریم کا قرض اُتارنا تو انسان کی استطاعت سے باہر ہے لیکن عوام کے قرض کی پہلی قسط جو انگریزی ترجمے کی شکل میں ادا ہوئی تھی، آج اُس کی دوسری قسط اردو ترجمے کی شکل میں ادا ہونے کی صورت پیدا ہوگئی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں کیلئے اللہ تعالی نے ایک ہی شخصیت کو قبول فرمایا اور ان سے لیے گئے دونوں کام ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر عمدہ اور معیاری نکلے۔ اردو ترجمے سے یہاں ہماری مراد "آسان ترجمۂ قرآن" کے نام سے سامنے آنے والا وہ اسم با مسمی ترجمہ ہے جو مفتی تقی عثمانی صاحب نے کیا ہے۔ 

قرآن کریم کے ترجمے کیلئے دو چیزیں ضروری ہیں۔ ایک تو دینی علوم اور خصوصاً علوم عربیت میں مہارت اور دوسرے متعلقہ زبان پر عبور اور اس کی باریکیوں پر گہری نظر۔ ہم محولہ بالا ترجمہ قرآن پر ان دونوں حوالوں سے گفتگو کریں گے۔ 

علوم دینیہ میں رسوخ
علمائے اسلام نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر کیلئے پندرہ علوم میں مہارت ضروری ہے۔ عقائد، قرأت، حدیث، فقہ، اصول فقہ، اسباب نزول، ناسخ و منسوخ اور سات علوم عربیت (یعنی صرف و نحو، لغت، اشتقاق اور معانی، بیان، بدیع) درج بالا شرط کے حوالے سے دیکھا جائے تو حضرت کی اب تک کی ساری زندگی انہی علوم کے پڑھنے پڑھانے میں گزری ہے۔ آپ 1960ء سے تاحال (یعنی تقریباً نصف صدی ہوگئی) مختلف اسلامی علوم کی تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ نیز دینی و ادبی موضوعات پر آپ کی تصانیف پر نگاہ ڈالی جائے تو اب تک کم و بیش 64 کے قریب کتابیں چھپ کر منظر عام پر آچکی ہیں جن میں سے 5 عربی میں، 53 اردو میں اور 22 انگریزی میں ہیں جبکہ 14 کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ ان تصنیفات میں سے علوم القرآن پر 7، علوم الحدیث پر 6، علم الفقہ والفتویٰ پر 14 کتابیں ہیں۔ بقیہ کتب بھی علمی، ادبی اور اصلاحی موضوعات پر ہیں یا تقاریر، اصلاحی بیانات اور سبقی دروس کے مجموعے ہیں۔ 

ہمارے ہاں بہت سے ڈاکٹرز، پروفیسرز اور اسکالرز ہیں جن کا "درس قرآن" کے حوالے سے طوطی بولتا ہے۔ علمائے کرام جب خیر خواہی کا فرض ادا کرتے ہوئے ان حضرات سے "استفادہ" سے منع کرتے ہیں تو قدرتی طور پر عوام کا سوال ہوتا ہے: "کیوں؟ آخر ان کا درس سننے میں حرج ہی کیا ہے؟ اتنی پُر مغز اور دلنشیں باتیں ہوتی ہیں۔ علمائے کرام کو تو لگتا ہے جدت پسندوں سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔۔۔! مگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو۔۔۔ دیگر وجوہات کے علاوہ۔۔۔ ایک بڑی وجہ جو ان اسکالر حضرات کے کام کو "نیکی برباد گناہ لازم" کا مصداق بنادیتی ہے وہ علوم عربیت میں عدم مہارت اور شرعی علوم خصوصاً "علم الفقہ" سے ناواقفیت کے سبب "آیات الاحکام" کی تفسیر میں ان کے اغلوطے اور مغالطے ہیں۔ شرعی احکام (جو علم فقہ کا اصل موضوع ہیں) کے بیان یا استنباط میں ان حضرات کی لڑکھڑاہٹیں اور بوکھلاہٹیں دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں جبکہ علمائے کرام کے تراجم یا دروس اس خامی اور عیب سے بحمد اللہ محفوظ ہوتے ہیں۔ مثلاً:

دیکھیے "ظہار" ایک قرآنی فقہی اصطلاح ہے۔ اس کا مخصوص پس منظر اور خاص مفہوم ہے۔ عام مترجم اس کا صحیح صحیح اور معنی کے بالکل قریب لے جانے والا ترجمہ نہیں کرسکتا۔ آیت کریمہ میں ارشاد ہے: 

وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ(الاحزاب: 04)
اس آیت کے مختلف ترجمے دیکھیے۔ آخری ترجمہ محولہ بالا ترجمے کا ہے۔ 
1: "نہ اس نے تم لوگوں کی ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو، تمہاری ماں بنایا ہے۔" (مولانا مودودی)
2: "اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ) کی مائیں نہیں بنایا۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
3: "اور نہیں بنایا اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، تمہاری مائیں۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
4: "اور تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کے برابر کہہ دو تمہاری ماں نہیں بنایا۔" (مولانا احمد رضا خاں بریلوی)
5: "اور نہ تمہاری عورتوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو تمہاری ماں بنایا۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
6: "اور تم جن بیویوں کو ماں کی پشت سے تشبیہہ دے دیتے ہو، ان کو تمہاری ماں نہیں بنایا۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

ظہار کے حقیقی معنی و مفہوم کو جس میں بیوی کو ماں کی پشت سے تشبیہہ دینے کا عنصر لازمی طور پر شامل ہے، جس خوبصورتی سے حضرت نے ادا کیا ہے، اس کی معنویت کو کچھ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس کے پس منظر سے آگاہ ہیں۔ 

ادب سے مناسبت:
ادبی اعتبار سے دیکھا جائے تو آپ کے متعدد شہرۂ آفاق سفرنامے، کالموں کے مجموعی اور شخصی خاکے آپ کے زورِ قلم کی بہترین مثال ہیں۔ آپ کی تحریر میں چاشنی اور اثر آفرینی کے ساتھ سادگی و پرکاری اس قدر خوبصورتی سے گندھی ہوئی ملتی ہے کہ اس کی سحر انگیزی کا قائل ہوئے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ عربی اور انگریزی پر تو آپ کو جو عبور ہے سو ہے، اُردو تو آپ کے گھر کی لونڈی ہے۔ نثر ہو یا نظم، تقریر ہو یا تحریر، تحقیقی مضامین ہوں یا تفریحی یادداشتیں۔۔۔ آپ کا قلم ہر میدان میں لوہا منوا چکا ہے اور تقریباً جملہ اصنافِ تحریر ہی آپ کی جولان گاہ رہ چکی ہیں۔ زبان و بیان پر آپ کی گرفت اور ٹھیٹھ محاوراتی ٹکسالی اردو پر عبور کے ساتھ آپ کے فطری ادبی ذوق کی حسین پرچھائیں آپ کے اس ترجمے میں واضح نظر آتی ہے۔ کچھ ترجمے تو ایسے بے ساختہ اور برمحل ہیں کہ سبحان اللہ! پڑھنے والا جھوم ہی جائے۔ مثلاً: 
هَيْتَ لَكَ
"آ بھی جاؤ" (یوسف:23)
فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ
"ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔" (الشمس:14)
وَزِيَادَةٌ
"اور اس سے بڑھ کر کچھ اور بھی۔" (یونس:26)

ادبِ عالمی کے ذوق اور اس سے فطری مناسب کی بناء پر اس ترجمے میں ایک طرف تونَسْيًا مَنْسِيًّا(بھولی بسری)،قِسْمَةٌ ضِيزَى(بھونڈی تقسیم)،سَبْحًا طَوِيلًا(لمبی مصروفیت) جیسی تراکیب کے بامحاورہ ترجمے دیکھنے کو ملتے ہیں تو دوسری طرف درج ذیل جملوں میں کی گئی ترجمانی پر بھی ذرا ایک نظر ڈالیے جو لفظی اور آزاد ترجمہ کی درمیانی روش کی عمدہ مثالیں ہیں:

مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ
کیا بات ہے؟ مجھے ہُدہُد نظر نہیں آرہا۔" (النمل:20)
ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ
"غرض اوپر تلے اندھیرے ہی اندھیرے۔" (النور:40)
فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ
"اب تمہیں جو کچھ کرنا ہے، کرلو۔" (طٰہٰ:72)
وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ
"اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی نہیں آنے دیا۔" (الانعام:82)

اصل الفاظ کے قریب رہتے ہوئے معانی و مفاہیم کی بھرپور وضاحت کس قدر مشکل کام ہے؟ اس کا اندازہ اہل علم کو بخوبی ہے۔ ذیل کی کچھ آیات دیکھیے، مترجم کس روانی اور پُر کاری سے اس گھاٹی سے گزرے ہیں:

فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا
"پھر جب کھانا کھاچکو تو اپنی اپنی راہ لو۔" (الاحزاب:53)
فَنَادَوْا وَلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ
"تو انہوں نے اس وقت آوازیں دیں جب چھٹکارے کا وقت رہا ہی نہیں تھا۔" (سورۃ ص:3)
فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ
"اب پھر سے نظر دوڑا کر دیکھو! کوئی رخنہ نظر آتا ہے؟" (الملک:3)
وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَحْجُورًا
"بلکہ یہ کہتے پھریں گے کہ خدایا! ہمیں ایسی پناہ دے کہ یہ ہم سے دور ہوجائیں۔" (الفرقان:22)

اسی طرح
وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (البقرۃ:7 
میں نفی اور استثناء کے ذریعے جو "حصر" ہے، علم معانی جانے بغیر اس کی حقیقی تفہیم کوئی کیسے کرسکتا ہے؟ حضرت نے ترجمہ کیا ہے:
"اور ان کا کام بس یہ ہے کہ وہم و گمان باندھتے رہتے ہیں۔" 
دوبارہ پڑھیے: "اور ان کا کام بس یہ ہے۔۔۔۔" عربیت کا ذرا بھی ذوق (یا چسکا) ہو تو سچ پوچھیے لطف ہی آجاتا ہے۔ یہی "حصر" ایک اور جگہ بھی ہے جہاں دوسری طرح کے الفاظ سے یہی معنی ادا کیا ہے: 

وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (اسراء:85)
"اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ تھوڑا ہی سا علم ہے۔" 
پہلی آیت میں "بس یہ ہے۔۔۔" اور دوسری جگہ "تھوڑا ہی سا۔۔۔" کے ذریعے کس خوبصورتی سے زبان و بیان کی باریکیوں کو نبھایا گیا ہے۔ 

سورتوں کا تعارف:
"آسان ترجمۂ قرآن" میں سورت سے پہلے تعارف کے عنوان سے "خلاصۂ سورت" یا "سورت کا مرکزی پیغام" یا مضمون دیا گیا ہے۔ اس میں مصنوعی ربط کے بجائے حقیقی اور واقعی انداز میں قرآن کریم کی تالیفی ترتیب اور معنویت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس تعارف کے علاوہ اردو ترجمہ کے شوع میں دیا گیا مبسوط مقدمہ بھی ہے جو مطالعۂ قرآن کیلئے بنیاد کا کام دیتا ہے۔ 

مختصر تشریحات
اگر "آسان ترجمۂ قرآن" صرف ترجمہ ہوتا تو اس کی افادیت اتنی ہمہ گیر نہ ہوتی جتنی کہ اس کے ساتھ موجود مختصر، جامع اور برمحل تفسیری تشریحات نے بڑھادی ہے۔ ترجمہ پڑھنے کے دوران قرآن کریم کے طالب علم کو جہاں جہاں آیت کا مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آسکتی تھی، وہاں مستند علمی تشریحات کے ذریعے اس کی تشنگی دور کی گئی ہے۔ ان تشریحات میں بڑی خوبصورتی سے رسمی تعبیرات اور اختلاف اقوال کے بجائے عصر حاضر کے انسان کے ذہن کے مطابق قرآنیات کی تفہیم و تشریح پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ 

تقابلی مطالعہ:
عربی کا مشہور مقولہ ہے: "و بضدها تتبين الاشياء" امثال یا اضداد کے ساتھ موازنے سے ہی کسی چیز کی خوبیاں واضح ہوتی ہیں۔ اس اُصول کی روشنی میں ہم "آسان ترجمۂ قرآن" کی چند منتخب آیات کا مروّجہ پانچ معاصر تراجم کے ساتھ تقابل کریں اور اس تقابل کو کسی طرح کی تنقیص و تحقیر یا کسی کی خدمت کا درجہ گھٹانے کے بجائے محض طالب علمانہ تحقیق اور ترجیحی خصوصیات کے تفقد تک محدود رہیں تو ان شاء اللہ ایک اچھا مطالعہ ثابت ہوگا۔ 

پہلی مثال:
وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمان:20)
1: اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں۔" (مولانا مودودی)
2: اور تمہیں بھرپور دیں اپنی نعمتیں ظاہر اور چھپی۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
3: اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
5: "اور پوری کررکھی ہیں اس نے تمہارے اوپر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
6: "اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری پوری نچھاور کی ہیں۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

دوسری مثال:
بَقَرَةٌ لَا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ (البقرۃ:71)
1: "کہ وہ ایسی گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی، نہ زمین جوتتی ہے نہ پانی کھینچتی ہے۔" (مولانا مودودی)
2: "وہ ایک گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی کہ زمین جوتے اور نہ کھیتی کو پانی دے۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
3: "کہ وہ گائے کام کرنے والی زمین میں ہل جوتنے والی اور کھیتوں کو پانی پلانے والی نہیں۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
4: "کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ہو۔ نہ تو زمین جوتتا ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتا ہو۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
5: "کہ وہ ایک گائے ہے جو نہیں ہے محنت کرنے والی، کہ زمین جوتتی ہے اور نہ پانی دیتی ہو کھیتی کو۔ (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
6: "کہ وہ ایسی گائے ہو جو کام میں جت کر زمین نہ گاہتی ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہو۔" (آسان ترجمۂ قرآن)
"ذَلُولٌ"کیلئے "کام میں جت کر" اور تُثِيرُ الْأَرْضَ " کیلئے "زمین نہ گاہتی ہو" کے الفاظ کا انتخاب عربی اور اردو تعبیرات کو جس خوبصورتی سے آمنے سامنے لا کھڑا کرتا ہے، اس کا لطف اہلِ علم ہی لے سکتے ہیں۔ 

تیسری مثال:
نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ (ص:44)
1: "(ایوب علیہ السلام) بہترین بندہ، اپنے رب کی طرف بہت رجوع کرنے والا۔" (مولانا مودودی)
2: "کیا اچھا بندہ بے شک وہ بہت رجوع کرنے والا ہے۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
3: "وہ بڑا نیک بندہ تھا اور بڑی ہی رغبت رکھنے والا۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
4: "بہت خوب بندے تھے بے شک وہ رجوع کرنے والے تھے۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
5: "بہترین بندہ اور یقیناً تھا وہ بہت زیادہ رجوع کرنے والا (اپنے رب کی طرف)" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
6: "وہ بہترین بندے تھے، واقعی وہ اللہ سے خوب لو لگائے ہوئے تھے۔" (آسان ترجمۂ قرآن)
"اواب" کا ترجمہ "خوب لو لگانے والا" ایسا ہے کہ کسی تبصرے کی ضرورت ہی نہیں۔ بقیہ تمام تراجم کو دیکھ لیجیے (اللہ تعالی قرآن کریم کی ہر طرح خدمت کرنے والوں کو ان کی کوششوں کا اجر عطا فرمائے) ٹھیٹھ اردو تعبیر تک نہ پہنچنے کی وجہ سے قاری اصل قرآنی مراد پانے کا لطف نہیں لے سکتا۔ 

ترجمہ اور ترجمانی کا فرق:
یہ تین مثالیں بطور نمونہ کافی ہونی چاہئیں۔ ویسے بھی یہ اخباری مضمون ہے، کوئی تحقیقی مقالہ نہیں، لیکن ایک مثال اور پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس میں "ترجمہ اور ترجمانی کا فرق" قارئین ملاحظہ فرماسکیں گے:
وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ (یوسف:24)
1: "وہ اس کی طرف بڑھی اور یوسف علیہ السلام بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان کو نہ دیکھ لیتا۔" (مولانا مودودی)
2: اور بے شک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
3: اس عورت نے یوسف کی طرف کا قصد کیا اور یوسف اس کا قصد کرتے اگر وہ اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھتے۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
4: "اور اس عورت نے ان کا قصد کیا اور انہوں نے اس کا قصد کیا، اگر وہ اپنے پروردگار کی نشانی نہ دیکھتے تو جو ہوتا ہوتا۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
5: "اور یقیناً بڑھی وہ اس کی طرف اور بڑھتے وہ (یوسف علیہ السلام) بھی اس کی طرف، اگر نہ دیکھ لیتے وہ برہان اپنے رب کی۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
6: "اس عورت نے تو واضح طور پر یوسف (کے ساتھ برائی) کا ارادہ کرلیا تھا اور یوسف کے دل میں بھی اس عورت کا خیال آچلا تھا، اگر وہ اپنے رب کی دلیل کو نہ دیکھ لیتے۔" (آسان ترجمۂ قرآن)
سبحان اللہ! ترجمہ ہی ایسا ہوا ہے کہ بھرپور ترجمانی کے ساتھ 
تمام اشکالات و جوابات کا از خود جواب ہوگیا ہے بلکہ سرے سے اشکالات پیدا ہی نہیں ہونے دیے گئے۔ 
غرضیکہ کہا جاسکتا ہے علم و ادب اور لفظ دانی و معنی شناسی کے حسین امتزاج نے اردو میں ترجمۂ قرآن کی وہ کمی بڑی حد تک پوری کردی ہے جس سے عصری اردو کا دامن خالی تھا اور اردو میں دستیاب دینی ادب کے ماتھے پر وہ جھومر سجادیا گیا ہے جو حسین ہونے کے باوجود خالی خالی، اُجڑا اُجڑا سا لگتا تھا۔"

تحریر: مفتی ابو لُبابہ شاہ منصور
تلخیص و کمپوزنگ: احمد

تبصرے