دروس رمضان: پانچواں درس: رمضان، جہاد فی سبیل اللہ اور نفس کے خلاف جدوجہد کا مہینہ


الحمد للہ والصلوٰۃ والسلام علی رسول اللہ و علی آلہ و صحبہ

آج کے درس کیلئے یہ موضوع اختیار کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس کی کہ ہم میں عموماً یہ عادت سرایت کرگئی ہے کہ رمضان میں سُستی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں اور اس کیلئے عُذر یہ پیش کرتے ہیں کہ بھئی روزہ ہے۔ اب اتنی گرمی میں کون اتنی تکلیف برداشت کرے۔ حالانکہ ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کا طرزِ عمل اس کے برعکس تھا۔ دیگر عبادات اور کاموں کو تو چھوڑیئے ، جہاد جیسی پُر مشقت ترین عبادت وہ اس ماہِ مبارک میں بکثرت کیا کرتے تھے۔
اسلامی تاریخ کے بہت سے مشہور معرکے اسی ماہ میں ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری اکثریت کا یہ حال ہے کہ نیند کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔

جہاد اسلام کی چوٹی ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے منقول ایک طویل روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: "اسلام کے کوہان کی بلندی (یعنی اسلام کی چوٹی) اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنا ہے۔
(مسند احمد)


جہاد کے فضائل بے حد عظیم ہیں۔ قرآن کریم اور احادیث نبوی میں اس کی فضیلت کثرت سے بیان کی گئی ہے۔ مثلاً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
"جنت میں سو درجے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کیلئے تیار کیا ہے۔ ان میں سے ہر دو درجات میں اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان ہے۔ پس جب تم اللہ سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کرو۔ کیونکہ وہ سب سے عمدہ اور سب سے اعلیٰ جنت ہے۔ اور پھر فرمایا: "اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے اور اس سے جنت کے دریا پھوٹتے ہیں"
(صحیح بخاری)


جہاد کے فضائل تو مستقل کتاب کے متقاضی ہیں اور چونکہ ہمارا اصل موضوع اس وقت جہاد اور رمضان کے مابین تعلق بیان کرنا ہے تو یہاں اس کی تفصیل میں نہیں جاتے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ، اور اس کے بعد خیر القرون میں یہ ماہِ مبارک جہاد کا مہینہ تھا۔ آپ کی حیاتِ طیبہ کے دو بڑے معرکے اسی ماہ میں پیش آئے۔ ان میں سے پہلا معرکہ بدر کا تھا اور دوسرا واقعہ فتح مکہ کا تھا۔ جو ایسی عظیم الشان فتح تھی کہ کہنے والے بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد ہی اسلام پورے جزیرۂ عرب میں پھیلا، فتح مکہ کے اگلے ہی سال پورے جزیرۂ عرب سے کثرت سے وفود آئے اور اسلام پر بیعت کی۔ یہی واقعہ پورے خطے سے بتوں کی بیخ کنی کا بھی بڑا سبب بنا۔

سن اکانوے ہجری میں فتحِ اندلس کا واقعہ بھی اسی ماہ میں پیش آیا۔ جبکہ چھ سو اٹھاون ہجری میں معرکۂ عینِ جالوت بھی رمضان المبارک میں ہی ہوا جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی تھی۔ 

جہاد کے علاوہ بھی ہمارے اسلاف کی عادت اس مبارک مہینے میں یہ تھی کہ وہ آرام کو تقریباً ترک کردیا کرتے تھے۔ بالخصوص قرآن کریم کے ساتھ ان کا شغف بہت بڑھ جایا کرت تھا۔ چنانچہ مروی ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رمضان المبارک میں فجر کے وقت قرآن مجید کی تلاوت فرماتیں، جب سورج نکل آتا تو پھر سوجاتیں۔ 

امام قتادہ رحمہ اللہ جو بلند مرتبہ مفسر قرآن کریم ہیں، رمضان المبارک میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے۔ غیر رمضان میں ہر ساتویں روز ختم قرآن کریم کیا کرتے تھے۔ اور رمضان المبارک میں ہر تین دن بعد ایک بار قرآن ختم فرماتے، جبکہ آخری عشرہ میں ہر رات میں ایک بار ختم فرماتے تھے۔ 

امام ابنِ شہاب زہری رحمہ اللہ رمضان المبارک کی آمد پر فرماتے تھے: "بے شک یہ تلاوت قرآن اور کھانا کھلانے کا مہینہ ہے"

ابنِ عبد الحکم کہتے ہیں: "جب رمضان المبارک شروع ہوجاتا تو امام مالک رحمہ اللہ قرأتِ حدیث اور اہلِ علم کے ساتھ بیٹھنے سے گریز فرماتے اور قرآن کریم کی تلاوت فرماتے"

اور عبد الرزاق کہتے ہیں: "امام سفیان ثوری رحمہ اللہ رمضان المبارک میں تمام تر (فرائض و سنن کے علاوہ) عبادات ترک فرما کر قرآن مجید کی تلاوت فرماتے"

امام ابنِ رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "صلحائے متقدمین رمضان المبارک میں نماز اور غیرِ نماز 
میں قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت فرماتے تھے۔ 

اسود بن یزید ہر دو راتوں میں ایک ختم فرمایا کرتے۔ 

ابراہیم النخعی کا آخری دس راتوں میں یہی معمول تھا اور شروع کی بیس راتوں میں ہر تین رات میں ایک ختم فرمایا کرتے۔ 

اور امام ابو حنیفہ و امام شافعی رحمہما اللہ رمضان المبارک میں نماز کے علاوہ ساٹھ مرتبہ قرآن ختم فرمایا کرتے تھے۔
(لطائف المعارف)

قرآن کریم کے ساتھ اتنی مشغولیت نفس کے تقاضوں کے خلاف چل کر ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ ورنہ نفس تو نہ صرف یہ کہ برائی پر ابھارنے والا ہے، بلکہ آرام طلب بھی ہے اور ہمیں مختلف طریقوں سے ورغلانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ لیکن کیا ہی خوب اور یاد رکھے جانے کے قابل مقولہ ہے کہ: 

"گناہ کے وقت کی لذت زائل ہوجانے والی اور اس وقت کا گناہ باقی رہ جانے والا ہے۔ جبکہ نیکی کے وقت جو مشقت پیش آئے، اُس کی تھکن تو مٹ جاتی ہے لیکن ثواب باقی رہتا ہے" 

الغرض اگر ہمیں اس ماہِ مبارک میں نیکیوں کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کرنا ہے تو کمرِ ہمت باندھ لینی ہوگی، سُستی کو الوداع کہنا ہوگا اور نفس کے تقاضوں کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔ ایک شاعر کیا خوب کہتا ہے: 
بقدر الكد تكتسب المعالي
ومن طلب العلا سهر الليالي
ومن رام العلا من غير كد
أضاع العمر في طلب المحال
تروم العز ثم تنام ليلا
يغوص البحر من طلب اللآلي


ترجمہ: محنتوں کے بقدر ہی مراتب ملا کرتے ہیں اور جو بلند مقام و مرتبے کے خواہشمند ہوتے ہیں وہ راتوں کو جاگا کرتے ہیں۔ 

اور جس نے بغیر مشقت کے کامیابی پانا چاہی، اُس نے اپنی عمر ایک ناممکن کام میں ضائع کردی۔ 

تمہیں عزت کی طلب ہے مگر راتوں میں بے خبر پڑے سوتے رہتے ہو۔ (جان لو کہ) جنہیں موتیوں کی طلب ہوتی ہے وہ گہرے سمندروں میں غوطے لگایا کرتے ہیں۔
واللہ اعلم

تبصرے