سلام کی سنت کو زندہ کیجئے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
الحمد للہ وحدہ والصلوة والسلام علی من لا نبی بعدہ وبعد
سلام کرنا صحیح اقوال کے مطابق جمیع انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ملائکہ کی آمد کے واقعہ میں اس کا تذکرہ یوں ہے
:
{وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ فَمَا لَبِثَ أَنْ جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ}
ترجمہ: اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغامبر (ملائکہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری لے کر پہنچے اور "سلام" کہا، انہوں نے بھی جواب سلام دیا۔ (سورہ ہود:69)

ساتھ ہی یہ اہل جنت کا بھی تحیہ ہوگا۔ ملاحظہ ہو:
{دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ وَآَخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ}ترجمہ: ان کے منہ سے یہ بات نکلے گی "سبحان اللہ" اور ان کا باہمی سلام یہ ہوگا "السلام علیکم" اور ان کی اخیر بات یہ ہوگی (کہ) تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو سارے جہان کا رب ہے۔ (سورہ یونس:10)
افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہم انبیاء و مرسلین علیہم السلام، اور خاتم المرسلین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت مبارکہ پر عمل میں اجتماعی طور پر کوتاہی کے مرتکب ہورہے ہیں اور اس کا وہ اہتمام اور لزوم باقی نہیں ہے جو ہونا چاہیے تھا۔ (الا ماشاء اللہ)۔ اس سنت کے معاملہ میں ایک بڑی کوتاہی جو تقریباً سبھی سے ہورہی ہے، وہ یہ کہ سلام کرنا صرف اس کو ضروری سمجھا جاتا ہے جسے ہم جانتے ہوں۔ دیکھا جاتا ہے کہ دو مسلمان راستہ میں ایک دوسرے کے قریب سے گزرتے ہیں اور سلام نہیں کرتے۔ حتی کہ یہ بھی دیکھا گیا کہ بعض حضرات کو جب سلام کیا جاتا ہے تو وہ اس بات پر یوں تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ "معاف کیجئے گا میں نے آپ کو پہچانا نہیں" یہی وجہ ہے کہ دلوں میں فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ معاشرے کی فضا حسد، کینہ اور بغض کے جذبات سے بوجھل ہوچکی ہے۔ جبکہ حدیث مبارکہ میں سلام کو آپس میں محبت میں اضافے کا سبب بتایا گیا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّهِ صلى الله عليه وسلم: "لاَ تَدْخُلُونَ الْجَنّةَ حَتّى تُؤْمِنُوا. وَلاَ تُؤْمِنُوا حَتّى تَحَابّوا. أَوَلاَ أَدُلّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ "أَفْشُوا السّلاَمَ بَينَكُمْ".
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم جنت میں نہ جاؤ گے جب تک کہ ایمان نہ لاؤ گے اور ایماندار نہ بنو گے اور جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ رکھو گے۔ کیا میں تم کو وہ چیز نہ بتلا دوں کہ جب تم اس کو کرو گے تو آپس میں محبت ہو جائے؟ (پس اس کیلئے تم) آپس میں سلام پھیلاؤ۔" (صحیح مسلم)
حدثنا عمرو بن خالد قال: حدثنا الليث، عن يزيد، عن أبي الخير، عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما: أن رجلا سأل النبي صلى الله عليه وسلم: أي الإسلام خير؟ قال: "تطعم الطعام، وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف".
ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کہ تم (بھوکے شخص اور مہمان کو) کھانا کھلاؤ اور ہر شخص کو سلام کرو خواہ تم اس کو پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو۔"
(متفق علیہ، رواہ البخاری فی کتاب الایمان، إطعام الطعام من الإسلام، و رواہ مسلم فی صحیحہ فی "کتاب الایمان" ایضاً)
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ میں سلام کے پھیلانے کی ترغیب دی گئی ہے، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کرنے کا حکم صرف ان تک محدود نہیں جنہیں ہم جانتے ہیں، بلکہ تمام مسلمانوں کیلئے ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

"يا أيها الناس أفشوا السلام وأطعموا الطعام وصلوا الأرحام وصلوا والناس نيام تدخلوا الجنة بسلام"
"اے لوگو! سلام پھیلاؤ اور کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو، اور نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں۔ تم جنت میں سلامتی سے داخل ہوجاؤ گے"

(جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، دارمی، سنن البیہقی، مصنف ابن ابی شیبہ، مسند الامام احمد، مستدرک حاکم۔ و قال الحاکم ہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین و لم یخرجاہ)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بازار جاتے تھے اور کہتے تھے: "ہم صرف سلام کی غرض سے جاتے ہیں اور ہر اس شخص کو سلام کرتے ہیں جو ہمیں ملتا ہے" سلام کرنا، اور سلام کرنے میں پہل کرنا، تواضع کی دلیل ہے اور دل سے حسد، تکبر کے علاوہ عُجُب (دوسروں کو خود سے کمتر سمجھنا) سے بھی حفاظت ہوتی ہے۔ سلام مسلمان کے ایک مسلمان بھائی پر حقوق میں شامل ہے۔ اور آپس میں تعارف و الفت اور محبت کی زیادتی کا سبب بھی ہے۔
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "مسلمان پر اس کے مسلمان بھائی کے پانچ حق ہیں:
1:سلام کا جواب دینا
2: چھینکنے والے کا جواب دینا (اس کے "الحمد للہ" کہنے پر "یرحمک اللہ" کہنا)
3: دعوت قبول کرنا
4: بیمار کی خبرگیری کرنا
5: جنازے کے ساتھ جانا(صحیح مسلم)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "سلام کرنا سنت ہے اور اس کا جواب دینا واجب، جماعت میں سے ایک شخص کا سلام کرنا باقی سب کیلئے کفایہ ہے۔ اگر سلام ایک شخص کو کیا گیا ہے تو اس پر جواب دینا لازم ہے جبکہ اگر کسی جماعت کو سلام کیا گیا تو کسی ایک کا جواب دے دینا باقی سب کی جانب سے بھی کافی ہے لیکن افضل یہی ہے کہ سبھی سلام کریں اور جواب بھی سبھی دیں۔"

سلام کس طرح کرنا چاہئے؟

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"سب سے افضل سلام یہ ہے کہ کہے: "السلام علیکم" اور اگر سلام کسی ایک شخص کو کیا جارہا ہے تو یوں کہ سکتا ہے کہ: "السلام علیک" لیکن افضل یہی ہے کہ ایک شخص کو بھی "السلام علیکم" ہی کہے تاکہ اس میں اس شخص کے علاوہ اس کے ساتھی فرشتے بھی داخل ہوجائیں۔"پھر فرماتے ہیں:"اس سے زیادہ کامل سلام یہ ہے کہ "السلام علیکم" میں "و رحمت اللہ و برکاتہ" کا اضافہ کردے۔ تاہم اگر اس نے صرف "السلام علیکم" کہا تب بھی سلام ادا ہوگیا۔"
سلام کا جواب دینا:
اس بارے میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "سلام کے جواب میں افضل اور اکمل یہ ہے کہ "وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ" کہے، اور اگر بغیر واؤ کے (علیکم السلام) کہے تو بھی جواب ادا ہوگیا، اور اگر صرف "وعلیکم السلام" یا "علیکم السلام" کہے تو بھی جائز ہے لیکن اگر صرف "علیکم" کہے تو جواب ادا نہیں ہوا۔"
سلام کے بلحاظِ فضیلت مراتب:سلام کے فضیلت کے لحاظ سے تین مراتب بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سب سے بہتر اور افضل "السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ" ہے۔ اس کے بعد "السلام علیکم و رحمة اللہ" اور پھر "السلام علیکم" اور اسی حساب سے اجر میں بھی کمی بیشی ہے۔ اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض صحابہ کے ہمراہ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص داخل ہوا اور کہا "السلام علیکم" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "وعلیکم السلام، دس" کچھ دیر بعد ایک اور شخص داخل ہوا اور کہا "السلام علیکم و رحمة اللہ" اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "وعلیکم السلام و رحمة اللہ، بیس" پھر ایک اور شخص داخل ہوا اور کہا "السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا "وعلیکم السلام و رحمة اللہ و برکاتہ، تیس" (یعنی پہلے شخص کو سلام پر دس نیکیاں، اور دوسرے اور تیسرے کو بالترتیب بیس اور تیس نیکیاں ملیں)
(ابوداؤد ، ترمذی)
سلام کے آداب:
1: سنت مبارکہ ہے کہ جب دو مسلمانوں کا سامنا ہو تو سوار، پیادہ کو سلام میں پہل کرے، اور کم لوگ زیادہ کو سلام میں پہل کریں جبکہ چھوٹا بڑے کو سلام میں پہل کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
" سوار پیدل کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے پر سلام کرے اور کم لوگ زیادہ لوگوں پر سلام کریں۔" (صحیح مسلم)
2: چاہئے کہ "صبح بخیر"، "خوش آمدید"، یا "ہیلو" اور اسی طرح کے ملتے جلتے الفاظ سے خیر مقدم کی بجائے سنت طریقہ کے مطابق "السلام علیکم" کہا جائے اور یوں خود کو ثواب کا بھی مستحق بنالیا جائے۔ ہاں سلام کے بعد اگر چاہے تو دیگر جائز خیر مقدمی الفاظ کہہ سکتا ہے۔

3: گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرنے سے برکت کا نزول ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
"جب تم گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرو، یہ تمہارے اور تمہارے گھر والوں کیلئے باعث برکت ہوگا" (ترمذی)
اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو یوں کہے: "السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین" (صحیح مسلم)

4: سلام کرتے ہوئے آواز نہ زیادہ بلند ہو اور نہ ہی بہت پست۔حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تشریف لاتے اور ایسی آواز سے سلام کرتے جس سے سونے والانہ جاگے اور جاگنے والا سن لے۔ (صحیح مسلم)
5: اکثر یوں ہوتا ہے کہ ایک ہی دن میں، ایک ہی شخص سے مختصر وقفوں کے بعد ہماری کئی بار ملاقات ہوتی ہے مثلاً ایک ہی جگہ کام کرتے ہوئے۔ ایسی صورت میں فقط پہلی بار سلام کرنا کافی سمجھا جاتا ہے جبکہ استحباب اس میں ہے کہ جتنی بار سامنا ہو، اتنی بار سلام کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
"جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے، پھر اگر درمیان میں کوئی درخت، دیوار یا پتھر آجائے تو دوبارہ سلام کرے" (ابو داؤد)
6: اکثر علمائے کرام نے اجازت دی ہے کہ اگر فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو اجنبی مرد، اجنبیہ عورت کو سلام کرسکتے ہیں، اور اگر عورت سلام کرے تو اس کے سلام کا جواب دے، تاہم وہ آپس میں مصافحہ نہیں کرسکتے۔ محرم ہونے کی صورت میں تو ضرور سلام کرنا اور جواب دینا چاہئے۔

7: بعض حضرات سلام کے ساتھ ہاتھ کے اشارہ کو بھی ضروری سمجھتے ہیں تاہم ایسا صرف اس صورت میں درست ہے جب جسے سلام کیا جارہا ہے، اسے آواز نہ پہنچ رہی ہو۔ یہی امر جواب کی صورت میں بھی ہے۔

8: چاہئے کہ جب مجلس چھوڑ کر اٹھنے لگے تو سلام کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:"جب تم میں سے کوئی مجلس سے اٹھنے کا ارادہ کرے تو چاہئے کہ سلام کرے" (ابو داؤد)

9: سلام کرتے وقت مصافحہ کرنا بھی مستحب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"جب بھی دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں پھر مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے قبل ان کی مغفرت کردی جاتی ہے"

(ابوداؤد و ترمذی)
اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کا استقبال کرتے تھے تو مصافحہ کرتے تھے اور ہاتھ چھڑانے میں پہل نہیں کرتے تھے جب تک کہ وہ شخص ہاتھ نہ چھوڑ دیتا۔
(ترمذی)
10: کوشش کرے کہ خندہ روئی اور بشاشت کے ساتھ سلام کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
"نیکی کے کاموں میں سے کسی کام کو حقیر نہ سمجھو چاہے وہ اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ ملنا ہی کیوں نہ ہو" (صحیح مسلم)
11: بچوں کو سلام کرنا بھی مستحب ہے۔ اس سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوگی اور بچپن ہی سے سلام کرنے کی عادت بھی پڑ جائے گی۔

12: کفار کو سلام کرنے میں پہل نہ کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
"یہود اور نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل مت کرو اور جب تم کسی یہودی یا نصرانی سے راہ میں ملوتو اس کو تنگ راہ کی طرف دبا دو۔" (صحیح مسلم)
ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک منقول ہے کہ: "جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو کہو "وعلیکم"۔
(متفق علیہ)
سو چاہئے کہ اس مبارک سنت کے احیاء کی بھرپور کوشش کی جائے تاکہ دلوں میں قرب پیدا ہو اور ہم اجرو ثواب کے بھی مستحق ہوں

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں