ایک عرب خاتون کا عجیب طرزِ گفتگو

ایک معمر عرب خاتون حج کے راستہ میں ایک درخت کے تنے کے پاس بیٹھی تھیں، یہ خاتون قافلہ سے بچھڑ کر راستہ بھٹک چکی تھیں۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد رشید، مشہور عالم دین، میدان علم کے ساتھ ساتھ میدان جنگ کے بھی نامور شہسوار حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ ان کے پاس سے گزرے، آپ رحمہ اللہ بھی حج بیت اللہ اور زیارت مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض سے سفر کررہے تھے۔ خاتون کو اس حال میں دیکھ کر انہوں نے اس سے بات چیت کی، اس خاتون نے حیرت انگیز طور پر ان کی ہر بات کا جواب قرآنی آیات کی شکل میں دیا۔ پورا مکالمہ درج ذیل ہے:
عبداللہ بن مبارک: السلام علیک و رحمۃ اللہ۔
خاتون:سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ۔

ترجمہ: سلام کہا جائے گا انہیں پروردگارِ مہربان کی طرف سے۔ (سورۃ یسین آیت 58)پھر یہ آیت پڑھی۔


مَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَيَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ۔
ترجمہ: جس کو اللہ تعالی گمراہ کردے اس کو کوئی راہ پر نہیں لاسکتا۔(سورۃ الاعراف آیت 186)۔
یہ اس جانب اشارہ تھا کہ میں راستہ بھٹک چکی ہوں۔

عبداللہ بن مبارک: آپ کہاں سے آرہی ہیں؟

خاتون: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آَيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ۔

ترجمہ: پاک ہے وہ (اللہ) جو اپنے بندے کو رات ہی را ت میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں۔ یقیناً اللہ تعالی ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے۔
(سورہ اسراء آیت 1)

مراد یہ تھی کہ میں مسجد اقصی سے آرہی ہوں۔

عبداللہ بن مبارک: آپ یہاں کب سے ٹھہری ہوئی ہیں؟

خاتون: ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا۔
ترجمہ: برابر تین رات (سورۃ مریم آیت 10)

عبداللہ بن مبارک:آپ کے کھانے کا کیا انتظام ہے؟

خاتون: وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ۔
ترجمہ: وہی (اللہ) ہے جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔ 
(سورة الشعراء آیت 79)

عبداللہ بن مبارک: کیا وضو کا پانی موجود ہے؟

خاتون:فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا۔
ترجمہ: اور تمہیں پانی نہ ملے تو تیمم کرلو(سورۃ النساء آیت 43)
مطلب یہ کہ پانی نہیں مل رہا ہے، سو تیمم کرلیتی ہوں۔

عبداللہ بن مبارک: یہ کھانا حاضر ہے کھالیجئے۔

خاتون: اتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ۔
ترجمہ: رات تک روزے کو پورا کرو (سورۃ بقرہ آیت 187)
اشارہ تھا کہ میں روزے سے ہوں۔

عبداللہ بن مبارک: یہ رمضان کا مہینہ تو نہیں ہے۔

خاتون: فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ۔
ترجمہ: پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اس کیلئے بہتر ہے۔ (سورۃ بقرۃ آیت 184)۔

ابن المبارک رحمہ اللہ سمجھ گئے کہ خاتون نے نفلی روزہ رکھا ہے

عبداللہ بن مبارک: لیکن سفر میں تو روزہ افطار کرلینے کی اجازت ہے۔

خاتون: وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ۔
ترجمہ: اور اگر تم روزہ رکھو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔ (سورۃ بقرۃ آیت 184)

عبداللہ بن مبارک: آپ مجھ جیسے انداز میں بات کیجئے۔

خاتون: مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ۔
ترجمہ: (انسان) منہ سے کوئی لفظ نہیں نکالتا مگر اس کیلئے نگہبان تیار ہے۔ (سورۃ ق آیت 18)
یعنی چونکہ انسانی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ لکھ لیا جاتا ہے اور اس کیلئے فرشتہ مقرر ہے تو بربنائے احتیاط قرآن کریم کی آیات ہی کے ذریعے میں بات کرتی ہوں۔

عبداللہ بن مبارک: کس قبیلہ سے تعلق رکھتی ہیں؟۔

خاتون: وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا۔
ترجمہ: اور جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ بے شک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔ (سورۃ الاسراء آیت 36)

عبداللہ بن مبارک:مجھے معاف کردیں میں نے واقعی غلطی کی۔

خاتون:لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ۔
ترجمہ: آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ (سورۃ یوسف آیت 92)

عبداللہ بن مبارک: کیا آپ میری اونٹنی پر بیٹھ کر قافلہ سے جا ملنا پسند کریں گی؟

خاتون: وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ۔
ترجمہ: تم جو نیکی کرو گے اللہ تعالی اس سے باخبر ہے۔ (سورۃ البقرہ آیت 197)
(یعنی اگر آپ مجھ سے یہ حسن سلوک کرنا چاہیں تو اللہ اس کا اجر دے گا)

عبداللہ بن مبارک: اچھا تو پھر سوار ہوجائیے (یہ کہہ کر حضرت نے اپنی اونٹنی بٹھا دی)۔

خاتون: قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ
ترجمہ: مسلمان مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ (سورۃ النور آیت 30)
حضرت عبداللہ بن مبا رک رحمہ اللہ مدعا سمجھ گئے اور منہ پھیر کر ایک طرف کھڑے ہوگئے، سوار ہوتے وقت خاتون کا کپڑا کجاوے میں الجھ گیا۔ اس پر وہ پکار اٹھیں: 
وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ۔
ترجمہ: تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے، اور وہ (اللہ) تو بہت سی باتوں سے درگزر فرمالیتا ہے۔ (سورۃ الشوری آیت 30)

خاتون گویا حضرت عبداللہ بن مبارک کو توجہ دلا رہی تھیں کہ یہاں کچھ مشکل پیش آگئی ہے۔ حضرت ابن مبارک سمجھ گئے اور اونٹنی کا پیر باندھا اور کجاوے کے تسمے درست کیئے۔ خاتون نے حضرت عبداللہ کی مہارت و قابلیت کی تحسین کیلئے ایک آیت پڑھی: 

خاتون: فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ۔
ترجمہ: ہم نے صحیح فیصلہ سلیمان (علیہ السلام) کو سمجھا دیا۔ (سورۃ الانبیاء آیت 79)
پھر جب سواری کا مرحلہ طے ہوگیا تو خاتون نے سواری کا آغاز کرنے کی آیت پڑھی۔ 

سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ (13) وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ
ترجمہ: پاک ذات ہے اس کی جس نے اسے ہمارے بس میں کردیا حالانکہ ہمیں اسے قابو کرنے کی طاقت نہ تھی۔ اور بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ (سورۃ الزخرف آیات 13 و 14)

اب حضرت عبداللہ بن مبارک نے اونٹنی کی مہار تھامی اور تیز قدموں کے ساتھ حدی خوانی کرتے ہوئے چلنے لگے۔ 

خاتون: وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ۔
ترجمہ: اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست کر۔ (سورۃ لقمان آیت 29)

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ آہستہ چلنے لگے اور حدی کی آواز بھی پست کردی۔

خاتون:فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآَنِ
ترجمہ: پڑھو قرآن میں سے جو آسان ہو۔ (سورۃ مزمل آیت 20)
یعنی فرمائش ہوئی کہ حدی (اشعار) کے بجائے قرآن پاک میں سے کچھ پڑھئے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک قرآن پڑھنے لگے اور خاتون نے اس پر خوش ہوکر کہا:
وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ۔
ترجمہ: اور نصیحت صرف عقل مند ہی حاصل کرتے ہیں۔ (سورۃ البقرۃ آیت 269)
تھوڑی دیر بعد حضرت ابن المبارک نے پوچھا: اے خالہ کیا آپ کے شوہر زندہ ہیں؟

خاتون:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ
ترجمہ: اے ایمان والو! مت پوچھی ایسی باتیں کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں۔ (سورۃ المائدہ آیت 101)
مطلب یہ کہ اس بارے میں سوال نہ کرو۔ اور قرینہ بتا رہا تھا کہ غالباً خاتون کے شوہر فوت ہوچکے ہیں۔

آخر کار ان دونوں نے قافلہ کو جا پکڑا۔

عبداللہ بن مبارک: کیا اس قافلے میں آپ کا کوئی لڑکا یا عزیز ہے جو آپ سے تعلق رکھتا ہے؟

خاتون: الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا۔
ترجمہ: مال و اولاد تو دنیا کی ہی زینت ہے۔ (سورۃ الکہف آیت 46)

حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سمجھ گئے کہ خاتون کے بیٹے قافلے میں موجود ہیں۔ 

عبداللہ بن مبارک: آپ کے بیٹے قافلے میں کیا کام کرتے ہیں؟
مدعا یہ تھا کہ ان کو پہچاننے میں آسانی ہو۔

خاتون: وَعَلَامَاتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ
ترجمہ: اور بھی بہت سی نشانیاں (مقرر فرمائیں) اور ستاروں سے بھی لوگ راہ حاصل کرتے ہیں۔ (سورۃ النحل آیت 16)
مفہوم یہ تھا کہ وہ قافلے کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں

عبداللہ بن مبارک: کیا آپ ان کے نام بتاسکتی ہیں؟

خاتون:وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا 
ترجمہ: اور ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالی نے اپنا دوست بنالیا ہے۔ (سورۃ النساء آیت 125)

وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا
ترجمہ: اور موسی (علیہ السلام) سے اللہ تعالی نے صاف طور پر کلام کیا۔ (سورۃ النساء آیت 164)

يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ
ترجمہ: اے یحیی ! میری کتاب کو مضبوطی سے تھام لو۔ (سورۃ مریم آیت 12 )
ان تین آیات کو پڑھ کر خاتون نے بتادیا کہ ان کے بیٹوں کے نام ابراہیم، موسی اور یحیی ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے قافلے میں ان ناموں کو پکارنا شروع کیا تو وہ تینوں جوان فوراً حاضر ہوگئے۔

خاتون: (اپنے لڑکوں سے)
فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هَذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنْظُرْ أَيُّهَا أَزْكَى طَعَامًا فَلْيَأْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِنْهُ
ترجمہ: اب تم اپنے میں سے کسی کو یہ چاندی دے کر شہر بھیجو وہ خوب دیکھ بھال لے کہ شہر کا کون سا کھانا پاکیزہ تر ہے، پھر اسی میں سے تمہارے کھانے کیلئے لے آئے۔ (سورۃ الکہف آیت 19)
یعنی تم میں سے کوئی نقدی لے کر جائے اور مہمان کو کھانا کھلانے کا اہتمام کرے۔

جب کھانا لایا گیا تو خاتون نے حضرت ابن المبارک رحمہ اللہ کی جانب متوجہ ہوکر کہا :
كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ
ترجمہ: مزے سے کھاؤ پیو اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم نے گذشتہ زمانے میں کئے۔ (سورۃ الحاقہ آیت 24)

اس سے مراد حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی وہ بھلائی تھی جو انہوں نے دوران سفر خاتون کے ساتھ کی تھی۔ 
اور پھر اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ میں آپ کی شکر گزار ہوں، خاتون نے یہ آیت پڑھی
هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ
ترجمہ: نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کیا ہے۔ (سورۃ الرحمن آیت 60)

یہاں تک پہنچ کر یہ مبارک گفتگو ختم ہوگئی۔ اس ضعیف خاتون کے لڑکوں نے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو بتایا کہ ان کی والدہ چالیس سال سے اسی طرح قرآن ہی کے ذریعہ گفتگو کررہی ہیں۔

تبصرے