سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مختصر جائزہ

اَلحمدُ للہِ وحدَہُ والصلاۃُ والسلامُ علیٰ من لا نبی بعدہُ ۔۔ و بعد ۔۔

امتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلاۃ والسلام) میں سے بیشمار جلیل القدر علمائے کرام نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کتابیں لکھی ہیں۔ اس وقت یہ محسوس کررہا ہوں کہ اس موضوع پر لکھنا شروع کرتے ہوئے انہیں اپنی بے بضاعتی کا احساس ضرور ہوا ہوگا اور انہوں نے دل میں ضرور اقرار کیا ہوگا کہ خاتم المرسلین، رحمت للعالمین، محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے موضوع سے وہ انصاف نہیں کرپائیں گے۔ تو ایسے شخص کا کیا حال ہوسکتا ہے جو عالم تو کُجا ادنیٰ طالب علم کہلانے کا مستحق بھی نہ ہو۔ اس نیت سے یہ چند سطور کتبِ دینیہ کی مدد سے ترتیب دے رہا ہوں کہ مجھے، اور تمام پڑھنے والوں کو اُس ہادی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے اس تذکرے سے اپنے ایمان کو تقویت بخشنے کا ایک موقع ملے۔ اور شاید کہ ہم کسی حد تک اُس صاحبِ اُسوۂ حسنہ کی حیاتِ طیبہ کے بعض پہلؤوں سے کچھ واقفیت حاصل کرسکیں جس کی پیروی کی قرآن مجید میں تاکید کی گئی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآَخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
ترجمہ: "حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کیلئے جو اللہ سے اور یومِ آخرت سے امید رکھتا ہو، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو"۔ (1)


فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
''میری ساری امت جنت میں جائے گی سوائے اس کے جو انکار کردے۔'' پوچھا گیا: "اے اللہ کے رسول! کون انکار کرے گا؟" آپ نے فرمایا: ''جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے یقیناً (جنت میں جانے سے) انکار کردیا۔'' (2)

مقامِ ولادت، اسمِ گرامی، نسب، ازواج و اولاد

[COLOR=#3d0fe7]مقامِ ولادت:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کی مناسبت سے مقامِ ولادت بھی شہروں اور بستیوں میں سب سے افضل یعنی مکہ مکرمہ ہے۔ جسے قرآن مجید میں "تمام شہروں اور بستیوں کی ماں" (ام القریٰ) کہا گیا جبکہ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے اللہ کی محبوب ترین سرزمین کہا گیا۔ فرمان نبوی ہے:

"]اے مکہ، تُو اللہ رب العزت کی سب سے بہتر اور محبوب ترین زمین ہے، اور اگر مجھے نکلنے پر مجبور نہ کیا گیا ہوتا تو تجھ سے نہ نکلتا" (3)
اس مبارک شہر میں "شعب بنی ہاشم" کے اندر راجح قول کے مطابق 9 ربیع الاول کو پیر کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ (4)

اسمِ گرامی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی محمد تھا جس کے معنی "تعریف کیا گیا" کے ہیں۔ بے شک وہ اسمِ بامسمیٰ تھے۔ محامد و محاسن کے پیکر اور اخلاق کے اس اعلیٰ مرتبے پر فائز جس کی گواہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں دی۔ علاوہ ازیں قرآن مجید میں ان کا نام "احمد" (5) بھی ذکر ہوا ہے۔ جبکہ کنیت "ابوالقاسم" تھی۔
نسب: قبائل عرب میں سب سے زیادہ معزز قبیلہ قریش کے خانوادۂ بنی ہاشم میں آپ کی ولادت ہوئی۔ حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اللہ نے اسماعیل کی اولاد میں سے کنانہ کو چنا، اور قریش کو کنانہ میں سے، اور بنی ہاشم کو قریش میں سے، اور مجھ کو بنی ہاشم میں سے۔" (6)

حضرت ابراہیم علیہ السلام تک آپ کا سلسلۂ نسب یوں ہے:
محمد بن عبدالله بن عبد المطلب (ان کا نام شیبہ تھا) ابن هاشم (ان کا نام عمرو تھا) بن عبد مناف (ان کا نام مغیرہ تھا) بن قصي بن كلاب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان بن أدّ بن مقوم بن ناحور بن تبرح بن يعرب بن يشخب بن ثابت بن إسماعيل (علیہ السلام) بن إبراهيم (علیہ السلام) (7)

ازواجِ مطہرات:
ازواجِ مطہرات کے نام حسبِ ترتیبِ نکاح یوں ہیں:
خديجة بنت خويلد، سودہ بنت زمعہ، عائشہ بنت ابو بکر، حفصہ بنت عمر بن خطاب، زینب بنت خزیمہ بن حارث، أم سلمہ، زینب بنت جحش، جویریہ بنت حارث، أم حبیبہ رملہ بن ابی سفیان، صفیہ بنت حیی بن أخطب، میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہن اجمعین۔ (8)

اولاد:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں کے نام بالترتیب یہ ہیں۔ قاسم، عبد اللہ، (یہ دونوں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے) اور ابراہیم۔ یہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے۔ آپ کے تینوں بیٹے بچپن میں انتقال کرگئے۔
بیٹیوں کے نام بالترتیب: زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ۔ رضی اللہ عنہن۔ تین بیٹیوں کا انتقال آپ کی حیاتِ طیبہ میں ہی ہوا جبکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال آپ کے انتقال کے چھ ماہ بعد ہوا۔ آپ کی تمام بیٹیاں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ (9)

عہدِ طفولیت سے بعثت تک کے چالیس سالہ دور کا ایک مختصر جائزہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والِد کا انتقال اُن کی پیدائش سے قبل ہوچکا تھا۔ آپ کے دادا عبد المطلب نے اُس دور کے عرب معاشرے کے دستور کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بدوی قبیلے "بنی سعد" کی خاتون حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کیا۔ اس دستور سے عربوں کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ ان کے بچے فصیح و بلیغ عربی سیکھ سکیں اور دیہات کی صحت بخش فضاء میں نشوونما پاکر بہتر صحت کے حامل ہوں۔ عموماً بچے دو سال کی عمر تک ان بدوی قبائل میں پرورش پاتے تھے تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کی وجہ سے خانوادۂ بی بی حلیمہ رضی اللہ عنہا پر بے شمار برکات کا ظہور ہوا، لہٰذا دو سال کی مدت پوری ہوجانے کے بعد بھی انہوں نے بی بی آمنہ سے درخواست کی کہ مزید کچھ عرصہ اس بچے کو ان کے پاس رہنے دیا جائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بی بی حلیمہ کے پاس رہے۔ عمرِ طیبہ کے تیسرے سال میں شق صدر کا واقعہ پیش آیا (10) جس کے بعد بی بی حلیمہ نے انہیں ان کی والدہ بی بی آمنہ کے حوالے کردیا۔
چھ سال کی عمر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم والدہ کے پاس رہے یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد آپ کے دادا عبد المطلب نے آپ کی پرورش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر آٹھ سال اور چند ماہ تھی کہ عبد المطلب کا بھی انتقال ہوگیا۔ اور ان کی وصیت کے مطابق اُن کے بیٹے ابوطالب نے آپ کی کفالت کی۔
نہ صرف بعد از بعثت و نبوت، بلکہ قبل از بعثت کی حیاتِ طیبہ بھی ہر لحاظ سے کامل و اکمل، صفاتِ حسنہ سے متصف تھی۔ چنانچہ قبل از نبوت ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو "صادق" اور "امین" کا لقب دیا گیا اور اہلِ مکہ آپ کے مکارمِ اخلاق کے دل و جان سے قائل تھے۔ آپ کی عاداتِ مبارکہ عہدِ طفولیت ہی سے دوسرے بچوں سے جدا تھیں۔ چنانچہ ان کے دادا عبد المطلب اپنے بیٹوں سے، جب وہ ان کے احترام کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے قریب بیٹھنے سے منع کرتے، کہتے: "میرے اس بیٹے کو چھوڑدو، واللہ اس کی شان نرالی ہے" (11)

اپنی پاکیزگیٔ طبع کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اُن خرافات سے دُور رہے جنہیں اُس معاشرے نے فخریہ طور پر اپنا رکھا تھا اور ان کا ارتکاب معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بتوں کی پوجا، شراب نوشی، معمولی باتوں پر قتل و غارت گری جیسے قبائح سے آپ کنارہ کش رہے۔ البتہ آپ اچھے کاموں میں پیش پیش رہتے جس کی ایک مثال حلف الفُضُول میں آپ کی شرکت ہے۔ اس میں متعدد عرب قبائل نے آپس میں اس بات کا عہد کیا تھا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے گا، خواہ اہلِ مکہ میں سے ہو یا باہر سے آیا ہوا کسی کا مہمان یا مسافر، اُس کی مدد کی جائے گی اور غاصب و ظالم سے اُسے اس کا حق دلوایا جائے گا۔ اسی حلف الفُضول کے بارے میں منصبِ رسالت پر فائز ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں عبد اللہ بن جُدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے عوض سُرخ اونٹ بھی پسند نہیں، اور اگر (دور) اسلام میں اس عہد و پیمان کیلئے مجھے بلایا جاتا تو میں لبیک کہتا" (12)
چونکہ قبل از بعثت کی حیاتِ طیبہ بھی ہر لحاظ سے مثالی، بے داغ بلکہ آفتابِ نیمروز کی طرح روشن تھی۔ چنانچہ قرآن مجید میں بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کے بارے میں فرمایا:

أَمْ لَمْ يَعْرِفُوا رَسُولَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ
ترجمہ: یا یہ اپنے پیغمر کو (پہلے سے) جانتے ہی نہیں تھے، اس وجہ سے ان کا انکار کررہے ہیں؟" (13)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی تفسیر میں منقول ہے کہ فرمایا: کیا ان لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پہچانا جب وہ چھوٹے تھے پھر جب وہ بڑے ہوئے (یعنی انہی لوگوں کے درمیان پرورش پائی) اور انہوں نے ان کا نسب، ان کی صداقت اور ان کی امانت، اور ان کے ایفائے عہد کو بھی بخوبی جان لیا تھا۔ (14)

اسی لیے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے شاہ حبشہ نجاشی سے فرمایا: "اے بادشاہ! بے شک اللہ نے ہم میں ایک رسول بھیجا ہے جس کے نسب اور صداقت و امانت سے ہم بخوبی واقف ہیں"۔ مغیرہ بن شعبہ نے بھی کسریٰ کے نائب سے کچھ اسی طرح کہا۔ جبکہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے جو اُس وقت تک مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے، قیصرِ روم ہرقل سے اُن کی تعریف ہی کی، (15) ہرچند کہ اُسوقت دل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کا ارادہ رکھتے تھے مگر انہیں آپ سے متعلق کچھ غلط کہنے کا کوئی موقع ہی نظر نہ آیا۔

طوالت کے خوف سے مختصراً حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اس گواہی پر یہ باب ختم کررہا ہوں۔ جب آپ پر پہلی مرتبہ وحی کا نزول ہوا تو آپ پر ایک خوف کی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اس واقعے کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: "ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو رسوا نہ کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، تہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں"۔ (16)

بعد از رسالت کا دور اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت الی اللہ میں پیش آمدہ مصائب کی ایک جھلک:
تقریباً چالیس برس کی عمر میں غارِ حراء میں سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوا۔ (17)

اس کے بعد حالات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت سے مخالفت میں بے انتہا سرعت سے پلٹا کھایا۔ مشرکین مکہ نے نہ صرف یہ کہ آپ کو جھٹلایا بلکہ آپ کی مخالفت کے ساتھ ساتھ ہر ممکن ایذا رسانی پر بھی کمر بستہ ہوگئے۔ آپ سے تمسخر و استہزاء کا رویہ اپنالیا گیا۔ شاعر و مجنون کہا گیا، آپ پر الزامات لگائے گئے کہ جو وحی آپ پر نازل ہوتی ہے وہ اور کچھ نہیں بس اگلوں کے قصے ہیں، یہ جھوٹ ہے جسے آپ نے گھڑا ہے۔ اور اسے بنانے میں آپ کی مدد کسی انسان نے بھی کی ہے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے، سجدہ میں گئے تو بدبخت عقبہ بن ابی معیط نے اونٹ کی اوجھڑی لاکر آپ کے اوپر ڈال دی۔ (18) اسی بدبخت نے ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک پر اپنا پیر رکھ دیا تھا۔ (19) ایک موقع پر مشرکین یکجا ہوکر بیت اللہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آکر آپ کو بچانے کی کوشش کی جس پر مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر پل پڑے۔ (20)

اس کے علاوہ آپ کو شعبِ ابی طالب میں بمعہ اہلِ خاندان محصور ہونا پڑا، اہلِ طائف کو دعوتِ توحید دینے تشریف لے گئے تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ انکار کیا بلکہ ان کے اشرار آپ کے پیچھے لگ گئے اور انہوں نے آپ کو پتھر مارے یہاں تک کہ زخموں سے رسنے والے خون سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے بھر گئے۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مشرکین کیلئے اجتماعی طور پر بد دعا نہیں فرمائی۔ البتہ خاص خاص اشخاص جن کی ایذا رسانی حد سے بڑھ گئی تھی، ان کیلئے آپ کا بد دعا فرمانا منقول ہے۔

یہ چیدہ چیدہ واقعات کا ایک بہت مختصر تذکرہ تھا جس سے ہم رسول اللہ صی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ و دعوتِ حق کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا صحیح اندازہ نہیں لگاسکتے۔ تاہم اسی پر اکتفا کرنا پڑرہا ہے کہ تفصیلی ذکر کا یہ مضمون متحمل نہیں ہوسکتا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کی ایک جھلک:
یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کریمانہ اخلاق کا اس آیت قرآنی سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ
ترجمہ: اور یقیناً تم اخلاق کے اعلیٰ درجے پر ہو (21)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے پوچھنے والے سے فرمایا: "کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟" اس نے کہا جی پڑھتا ہوں۔ فرمایا: "پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا۔ کیا تم یہ آیت نہیں پڑھتے (ترجمہ) اور یقیناً تم اخلاق کے اعلیٰ درجے پر ہو" (22)

حضرت انس رضی اللہ عنہ، جو دس سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے، فرماتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں سے سب سے اچھے اخلاق کے حامل تھے۔" (23)

انہی انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا:
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم کوئی موٹا اور باریک نہیں چھوا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ اور بہترخوشبو کبھی نہیں سونگھی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی، آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہیں فرمایا اور جو کام میں نے کردیا اس کے بارے میں کبھی نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہیں کیا اس کے بارے میں بھی کبھی نہیں فرمایا کہ تو نے اس طرح کیوں نہ کیا؟" (24)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے، بلکہ درگزر اور اعراض فرماتے۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن سعنہ رضی اللہ عنہ (جو اس وقت یہودی تھے) سے مسلمانوں کی ایک ضرورت کے پیش نظر قرض لیا۔ انہی زید سے روایت ہے کہ جب ادائیگی کے وقت میں دو تین دن باقی رہ گئے، اور آپ صحابہ کی ایک جماعت، جس میں ابوبکر، عمر و عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی تھے تشریف فرما تھے۔ میں (زید) آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کرتے اور چادر کے پلوؤں کو پکڑ کر نہات تُرش روئی سے کہا: "اے محمد! آپ میرا قرضہ ادا نہیں کرتے۔ خدا کی قسم! میں تم سب اولادِ عبد المطلب کو جانتا ہوں کہ بڑے نادہندہ ہو۔"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غصے سے مجھے گھورا اور کہا کہ اے خدا کے دشمن! یہ کیا بک رہا ہے؟ واللہ اگر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈر نہ ہوتا تو تیری گردن اڑادیتا۔" لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت سکون سے مجھے دیکھ رہے تھے، اور تبسم کے لہجہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "عمر! میں اور یہ ایک اور چیز کے زیادہ محتاج تھے۔ وہ یہ کہ مجھے حق کے ادا کرنے میں خوبی برتنے کو کہتے اور اس کو مطالبہ کرنے میں بہتر طریقہ کی نصیحت کرتے۔ جاؤ اس کو لے جاؤ اس کا حق ادا کردو۔ اور تم نے جو اس کو ڈانٹا ہے اس کے بدلے میں بیس (20) صاع کھجوریں اس کے مطالبہ سے زیادہ دے دینا۔ اس کے بعد زید رضی اللہ عنہ اسلام لے آئے، اپنا آدھا مال امتِ محمدیہ پر صدقہ کیا اور بہت سے غزوات میں شریک ہوئے۔ غزوۂ تبوک میں انہیں شہادت نصیب ہوئی۔ رضی اللہ عنہ (25)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرمایا: "میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کیلئے کبھی کسی کے ظلم کا بدلہ لیا ہو۔ البتہ اللہ کی حرمتوں میں سے کسی حرمت کی ہتک ہوتی تو آپ سے زیادہ غصہ والا کوئی شخص نہیں ہوتا تھا۔ " (26)

حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے اپنے باپ (حضرت علی رضی اللہ عنہ) سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا کہ آپ کا طور و طریقہ اپنے ہم نشینوں کے ساتھ کیسا تھا، تو انہوں نے فرمایا: "ہر وقت ہنس مکھ ہوتے، نرم اخلاق والے تھے، نرم طبیعت تھے، نہ تو سخت کلام نہ ہی تندخو تھے، نہ تو چلانے والے تھے اور نہ ہی فحش گو تھے نہ کسی کے عیب بیان کرنے والے۔ جو چیز پسند نہ فرماتے، اس سے تغافل برتتے اور اسے نا امید بھی نہ فرماتے اور اس کا جواب نہ دیتے۔ تین باتوں سے اپنے آپ کو بالکل محفوظ کررکھا تھا، جھگڑے، تکبر اور لایعنی باتوں سے۔۔ اور تین باتوں سے لوگوں کو بچا رکھا تھا، نہ کسی کی مذمت کرتے تھے، نہ ہی کسی کا عیب بیان کرتے تھے اور نہ ہی کسی ایسی چیز کی جستجو کرتے تھے کہ جس کے واقع ہونے سے عار آتی ہو۔ آپ گفتگو نہیں فرماتے تھے مگر وہی جس سے ثواب کی امید ہوتی ہو، اور جس وقت آپ گفتگو فرماتے تو آپ کے ہم مجلس صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نہایت ہی خاموش آنکھیں نیچے کیے بیچٹھے رہتے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، پر جب آپ خاموش ہوجاتے تو آپ کے ہم مجلس گفتگو کرتے اور آپ کی موجودگی میں اپنی باتوں میں کسی قسم کا جھگڑا نہ کرتے اور جو شخص آپ کی خدمت بابرکت میں عرض معروض کرتا، باقی سب کے سب خاموش رہتے یہاں تک کہ وہ اپنی گفتگو سے فارغ ہوجاتا۔ ان حضرات کی بات آپ کے حضور میں ایسی ہوتی، جیسے ان میں سے پہلے شخص کی بات (یعنی آپ کے حضور ہر بات کرنے والے کی بات کو یکساں اہمیت حاصل تھی چاہے وہ پہلے بات کرتا یا بعد میں، کسی سے اعراض نہ فرماتے اور ہر ایک کی بات کو پوری توجہ سے سماعت فرماتے) جس بات سے سب حضرات ہنستے، آپ بھی تبسم فرماتے اور جس سے سب تعجب کرتے، آپ بھی تعجب فرماتے تھے اور آپ اجنبی یا مسافر کی سخت گفتگو اور بے ادبی کے پوچھنے پر صبر کرتے تا آنکہ آپ کے صحابہ، مسافروں کو آپ کی مجلس میں لے آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی ہدایت فرماتے کہ جب کسی ضرورت مند کو دیکھو کہ وہ اپنی ضرورت پورا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کی امداد کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کی تعریف کرنا منظور فرماتے جو حد سے تجاوز نہ کرتا، کسی ایک کی گفتگو منقطع نہیں فرماتے تھے یہاں تک کہ وہ حد سے نہ بڑھ جاتا۔ پس اسے منع فرما کر بات ختم فرمادیتے یا اٹھ کر چلے جاتے۔ (27)

کمالِ سخاوت: حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی شخص کے کوئی چیز مانگنے پر انکار نہیں فرمایا"۔ (28)

مشہور عرب شاعر فرزدق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِسی حسنِ خلق کو اپنے قصیدہ کے ایک شعر میں یوں بیان کرتا ہے:


ما قال لا قط الا فی تشہدہِ

لو لا التشہد کانت لأُوہُ نعمِ


(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی لفظ "لا" (نہیں) تشہد کے علاوہ نہیں کہا۔ اگر تشہد نہ ہوتا تو پر آپ کا کلمہ لا بھی نعم (ہاں) ہوتا) (29)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سائل کی ضرورت پوری فرماتے حتیٰ کہ اس کیلئے مقروض تک ہوجاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی ضرورت مند نے آپ سے کچھ سوال کیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: "میرے پاس تو اس وقت کچھ موجود نہیں ہے، تم میرے نام سے خرید لو، جب کچھ آجائے گا تو میں ادا کردوں گا۔" اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ "یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کے پاس جو کچھ تھا آپ دے چکے ہیں اور جو چیز آپ کی قدرت میں نہیں ہے، اُس کا حق تعالیٰ شانہُ نے آپ کو مکلف نہیں بنایا ہے"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ مقولہ ناگوار گزرا تو ایک انصاری صحابی نے عرض کیا کہ "اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) خرچ کیجیے اور عرش کے مالک سے کمی کا اندیشہ نہ کیجیے" آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انصاری صحابی کا یہ کہنا بہت پسند آیا اور آپ نے تبسم فرمایا، جس کا اثر چہرۂ مبارک پر ظاہر ہوتا تھا۔ اور آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسی کا حکم فرمایا ہے" ۔ (30)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کا بیان کسی ضخیم کتاب میں بھی پورا نہیں ہوسکتا۔ جتنا بیان ہوا اسے "مشتے از خروارے" تصور کیا جائے۔

حلیۂ مبارکہ:
]ہجرت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام معبد خزاعیہ کے خیمے سے گزرے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد اپنے شوہر سے آپ کے حلیہ مبارک کا جو نقشہ کھینچا وہ یہ تھا:

]"چمکتا رنگ، تابناک چہرہ، خوبصورت ساخت، نہ توندلے پن کا عیب نہ گنجے پن کی خامی، جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہوا پیکر، سرمگیں آنکھیں، لمبی پلکیں، بھاری آواز، لمبی گردن، سفید و سیاہ آنکھیں، سیاہ سرمگیں پلکیں، باریک اور باہم ملے ہوئے ابرو، چمک دار کالے بال، خاموش ہوں تو باوقار، گفتگو کریں تو پُر کشش، دور سے (دیکھنے میں) سب سے تابناک و پُر جمال، قریب سے سب سے خوبصورت اور شیریں، گفتگو میں چاشنی، بات واضح اور دوٹوک، نہ مختصر نہ فضول، انداز ایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہیں۔ درمیانہ قد، نہ ناٹا کہ نگاہ میں نہ جچے، نہ لمبا کہ ناگوار لگے۔ دو شاخوں کے درمیان ایسی شاخ کی طرح ہیں جو سب سے زیادہ تازہ و خوش منظر ہے۔ رفقاء ان کے گرد حلقہ بنائے ہوئے، کچھ فرمائیں تو توجہ سے سنتے ہیں، کوئی حکم دیں تو لپک کر بجالاتے ہیں، مُطاع و مکرم، نہ تُرش رو، نہ لغو گو" (31)

]حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

]"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ لمبے تڑنگے تھے نہ ناٹے کھوٹے، لوگوں کے حساب سے درمیانہ قد کے تھے۔ بال نہ زیادہ گھنگریالے تھے نہ بالکل کھڑے کھڑے بلکہ دونوں کے بیچ بیچ کی کیفیت تھی۔ رخسار نہ بہت زیادہ پُر گوشت تھا، نہ ٹھوڑی چھوٹی اور پیشانی پست، چہرہ کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا۔ رنگ گورا گلابی، آنکھیں سُرخی مائل، پلکیں لمبی، جوڑوں اور مونڈھوں کی ہڈیاں بڑی بڑی، سینہ مبارک پر ناف تک بالوں کی ہلکی سی لکیر، بقیہ جسم بال سے خالی، ہاتھ اور پاؤں کی انگلیاں پُر گوشت، چلتے تو قدرے جھٹکے سے پاؤں اٹھاتے اور یوں چلتے گویا کسی ڈھلوان پر چل رہے ہیں۔ جب کسی طرف توجہ فرماتےتو پورے وجود کے ساتھ متوجہ ہوتے۔ دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارے انبیاء کے خاتم تھے، سب سے زیادہ سخی دست اور سب سے بڑھ کر جرأت مند، سب سے زیادہ صادق اللہجہ اور سب سے بڑھ کر عہد و پیمان کے پابندِ وفا۔ سب سے زیادہ نرم طبیعت اور سب سے شریف ساتھی۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچانک دیکھتا ہیبت زدہ ہوجاتا۔ جو جان پہچان کے ساتھ ملتا محبوب رکھتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف بیان کرنے والا یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ جیسا نہیں دیکھا۔ (صلی اللہ علیہ وسلم)" (32)

دارِ فانی سے رحلت:
سن 11 ہجری، 12 ربیع الأول بروز پیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دارِ فانی سے دارِ باقی رحلت فرماگئے۔ آپ کی عمر تریسٹھ سال چار دن ہوچکی تھی۔ (33) حیاتِ طیبہ کے آخری دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو وصیت فرمائی کہ "الصلاۃ الصلاۃ و ما ملکت ایمانکم" (نماز، نماز اور تمہارے زیرِ دست (لونڈی غلام) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کئی بار دہرائے۔ (34)

اللہ تعالیٰ کی بے شمار سلامتی و رحمت ہو اُس ذاتِ بابرکات پر جس نے فریضۂ رسالت کو بہترین طریقے سے نبھایا، امانت ادا فرمائی اور امت کی خیرخواہی کا حق ادا فرمادیا۔ دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے متبعین اور ان کے اوامر و نواہی کے مطیعین اور ان پر اللہ کی جانب سے نازل فرمائی گئی کتاب کے عاملین میں شمار فرمائیں۔ آمین۔

حوالہ جات:
1: سورۃ الاحزاب، آیت 21
2: صحیح البخاری، حدیث رقم 24913
3: جامع الترمذی، سنن النسائی، سنن ابن ماجہ، مستدرک حاکم
4: تاریخ خضری، رحمۃ للعالمین۔ بحوالہ "الرحیق المختوم"۔
5: سورۃ الصف، آیت 5
6: صحیح مسلم، کتاب الفضائل
7: اعرف نبیک صلی اللہ علیہ وسلم، تالیف: ماجد اسلام البنکانی
8: "قم فأنذر" تالیف: دکتور محمد بن عبد الرحمن العریفی
9: حوالہ مندرجہ بالا
10: ابنِ ہشام، بحوالہ الرحیق المختوم
11: ابنِ ہشام، تلقیح الفہوم، تاریخ خضری۔ بحوالہ الرحیق المختوم
12: ابنِ ہشام، بحوالہ الرحیق المختوم
13: سورۃ المومنون، آیت 69
14: تفسیر البغوی
15: تفسیر ابنِ کثیر
16: الرحیق المختوم
17: صحیح البخاری
18: صحیح البخاری
19: مختصر السیرۃ بحوالہ الرحیق المختوم
20: ابنِ ہشام بحوالہ الرحیق المختوم
21: سورۃ القلم، آیت 4
22: تفسیر ابنِ کثیر
23: متفق علیہ
24: متفق علیہ
25: جمع الوسائل
26: جامع الترمذی
27: جامع الترمذی، ایک طویل حدیث کا حصہ۔ بحوالہ خصائل نبوی
28: جامع الترمذی، بحوالہ خصائل نبوی
29: خصائل نبوی
30: جامع الترمذی
31: زاد المعاد فی ہدی خیر العباد۔ بحوالہ الرحیق المختوم
32: ابنِ ہشام و ترمذی
33: الرحیق المختوم
34: صحیح البخاری

تبصرے