غیر مسلم ممالک سے درآمد کیا جانے والا گوشت ۔ ایک تحقیق


السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

گذشتہ دنوں غیر مسلم ممالک سے درآمد کیے جانے والے گوشت سے متعلق بزرگ عالمِ دین عبد اللہ ذاکری صاحب کا ایک فتویٰ نظر سے گزرا۔ آپ کا تعلق افغانستان سے ہے اور اتحاد علمائے افغانستان کے سربراہ بھی ہیں۔ فتویٰ خاص طور پر افغانستان میں درآمد کیے جانے والے گوشت سے متعلق ہے۔ مذکورہ فتویٰ عربی میں تھا جبکہ بعد ازاں ایک محترم دوست نے اس کے اردو ترجمے کی ذمہ داری میرے ناتواں کاندھوں پر ڈالی۔ جیسا تیسا ترجمہ مفادِ عامہ کی نیت سے یہاں بھی حاضرِ خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ غلطیوں کو معاف فرمائیں۔ آمین


تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اور درود و سلام ہو سید المرسلین پر اور ان کی آل اور اصحاب پر اور ان کی امت کے علمائے کرام پر۔ اور اُن پر بھی جنہوں نے روزِ آخرت تک بھلائی کے ساتھ ان کی اتباع کی۔

شیخ عبد اللہ ذاکری حفظہ اللہ تعالیٰ کی سربراہی میں ایک خاص نشست کا اہتمام ہوا جس میں علماء و فقہائے کرام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس نشست میں غیر مسلم ممالک سے اسلامی ممالک کو درآمد کیے جانے والے گوشت کے معاملے پر بات چیت کی گئی۔ اور اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے اور اس بارے میں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی تالیف "احکام الذبائح واللحوم السمتوردۃ" (ذبیحوں اور درآمد کیے جانے والے گوشت کے احکام) جو ربیع الاول 1426 ہجری میں طبع ہوئی، اور صفر 1399ء میں سعودی عرب کی "مجلس ہیئۃ کبار العلماء" کی جانب سے ان ذبیحوں کی شرعی حیثیت کے بارے میں کی جانے والی تحقیق جن کا گوشت غیر مسلم ممالک سے سعودی عرب کو درآمد کیا جاتا ہے، سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے شرعی احکام کی روشنی میں فیصلہ کیا اور یہ فتویٰ جاری کیا: 

1: یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ حرام و حلال کی تمیز کرنا ایک اہم شرعی فریضہ ہے، اسی طرح یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ وہ پاکیزہ چیزیں کھانا جنہیں اللہ نے ہمارے لیے حلال کیا ہے اور ان چیزوں کو ترک کرنا جو حرام کی گئی ہیں، انسان کے دل اور اعمال پر بہت بڑی تاثیر رکھتی ہیں۔ اسی لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام انسانوں کو حلال طیب کھانے کا حکم دیا ہے جیسا کہ وہ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

"لوگو جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ۔" (البقرۃ: 168)

اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خاص طور پر اس بات کا حکم دیا کہ وہ اُن پاکیزہ چیزوں میں سے کھائیں جو اللہ تعالیٰ نے بطور رزق کے انہیں فراہم کی ہیں۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائیں ہیں ان کو کھاؤ اور اگر اللہ ہی کے بندے ہو تو اس (کی نعمتوں) کا شکر بھی ادا کرو" (البقرۃ:172) 

اور یہی حکم مرسلین علیہم السلام کو بھی یوں دیا گیا: 

"اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور عمل نیک کرو۔ جو عمل تم کرتے ہو میں ان سے واقف ہوں" (المومنون:51)

پس پاکیزہ چیزوں میں سے کھانے کا انسان کے نفس اور بدن پر قابلِ تعریف اثر پڑتا ہے، چنانچہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ پاکیزہ چیزوں کی جانب رغبت کریں، حرام سے اجتناب برتیں اور مشتبہہ چیزوں کو چھوڑ دیں۔ 

2: تمام چیزوں اور حیوانات میں اصل حرمت ہے۔ چنانچہ کوئی بھی چیز اس وقت تک حلال نہیں جب تک اس سے متعلقہ فرائض اور شروط کو پورا نہیں کرلیا جاتا۔ اسی طرح اُن حیوانات کا گوشت کھانا جو حلال ہیں، اُس وقت تک درست نہیں جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اسے ایسے افراد نے ذبح کیا ہے جو اس کے اہل تھے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مُردار کا گوشت، خون، خنزیر کا گوشت، اور اس جانور کا گوشت جسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اور وہ جانور جو گلا گھونٹنے سے مرا ہو، جو چوٹ لگنے سے مرا ہو، اور جو گرنے سے مرا ہو، یا جو سینگ لگنے سے مرا ہو یا پھر وہ جانور جسے درندوں نے چیر پھاڑ کھایا ہو، ان سب کو حرام کردیا ہے ماسوائے اُن کے جنہیں پاکیزہ (ذبح) کرلیا جائے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبیحے کو دین کی نشانیوں اور اسلامی شریعت کی خاصیتوں میں سے بتلایا ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 

"مجھے حکم ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ کہیں کہ "لا الہ الا اللہ" پس جب انہوں نے یہ کہا اور ہماری نماز پڑھی، ہمارے قبلے کی جانب منہ کیا اور ہمارے ذبیحے کی طرح ذبح کیا تو ہم پر ان کا خون اور مال حرام ہوگیا مگر اُس کے حق کے ساتھ" (بخاری) 

پس یہ دلیل ہے کہ حیوانات میں اصل تحریم ہے مگر یہ کہ انہیں شریعت کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق پاکیزہ کرلیا جائے۔ اور یہ کہ جانور کا ذبح کرنا عبادات میں سے ہے اور اسے شرعی احکامات کے مطابق ہونا چاہیے۔ انسان کو اس سلسلے میں آزادی نہیں دی گئی کہ وہ اس میں شرعی اصول و ضوابط کا خیال رکھے بغیر کوئی تصرف کرے۔ 

3: تمام علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ مشرکین کا ذبیحہ حرام ہے اور اسی طرح بُت پرستوں، منکرینِ ادیان اور ان جیسے کفار کی دیگر اصناف سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کا ذبیحہ بھی سوائے یہود اور نصاریٰ کے، اسی طرح علماء کا اس پر بھی اجماع ہے کہ یہود و نصاریٰ کا ذبیحہ کھانا جائز ہے اور اس کی دلیل قرآن کریم میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: 

"آج تمہارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے" (المائدۃ: 5) 

چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہماری رہنمائی فرمائی کہ اہلِ کتاب کا طعام تمہارے لیے حلال ہے اور یہاں طعام سے مراد ان کا ذبیحہ ہے جیسا کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما اور دوسرے اہلِ علم نے کہا ہے۔ مگر وہ اس باب میں مسلمانوں سے برتری نہیں رکھتے بلکہ ان کے برابر ہی ہیں، چنانچہ ان کا ذبیحہ اُس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک وہ اُن تمام شرائط کی پابندی نہ کریں جو شریعتِ اسلامی میں مقرر کی گئی ہیں۔ پس اگر یہ علم ہو کہ اہل کتاب اس طرح ذبح کرتے ہیں کہ جانور مُردار کے حکم میں آجاتا ہے یا ایسا کرنے والا مسلمان ہو تب بھی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے پیشِ نظر یہ جانور کھانا حرام ہے: 

"تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں" (المائدۃ: 3)

پس ہر وہ ذبیحہ چاہے وہ مسلمان کا ہو یا کسی کتابی کا، اگر وہ گلا گھٹنے، چوٹ لگنے، گر کر مرنے، یا سینگ لگ کر مرنے کے زمرے میں آتا ہے تو یہ اُسے حرام بنادیتا ہے اور مندرجہ بالا آیت کی روشنی میں اُسے مردار قرار دیا جاتا ہے اور اس کا حکم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس عمومی قول کو بھی خاص کرتا ہے کہ: (اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے) اور اسی طرح وہ دلائل بھی اسے خاص کرتے ہیں جو کسی مسلمان کے ذبیحے کے حلال یا حرام ہونے کا تعین کرتے ہیں اگر اس نے یہ ذبیحہ ایسے طریقے سے کیا ہو جو اسے مُردار کے حکم میں داخل کرتا ہو۔ 

4: انسان کی تمام تر غذاؤں کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: 

پہلی قسم: جانوروں کے علاوہ تمام پاکیزہ چیزیں مثلاً نباتات، پھل اور مائع چیزیں، پس اس پر اتفاق ہے کہ وہ جائز ہیں خواہ کسی مسلم سے لی گئی ہوں یا غیر مسلم سے جب تک وہ نجس یا مضر نہ ہوں۔

دوسری قسم: حیوانات، اور ان کی دو انواع ہیں: بری اور بحری:

بری حیوانات: وہ ہیں جو سوائے خشکی کے اور کہیں نہیں رہتے اور ان میں سے جن کا کھانا جائز ہے ان کی دو اقسام ہیں: پہلی قسم گھریلو جانور مثلاً "بہیمۃ الانعام" جن میں اونٹ، گائے، بکری، مرغی شامل ہیں۔ 

دوسری قسم: جنگلی حیوانات مثلاً خرگوش اور حلال پرندے وغیرہ۔

بحری حیوانات: وہ ہیں جو پانی کے علاوہ اور کہیں نہیں رہتے جیسے مچھلیاں۔

مگر ان دونوں انواع کے حیوانات میں فرق یہ ہے کہ خشکی کے حیوانات کو جب تک پاک (جائز طریقے سے ذبح) نہ کرلیا جائے وہ حرام ہیں۔ جبکہ بحری حیوانات حلال ہیں بغیر کسی ذبیحے کے۔ کیونکہ شارع علیہ السلام نے ان میں یہ فرق واضح فرمایا ہے۔ جس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن کریم میں خشکی کے حیوانات سے متعلق فرماتے ہیں: 

"تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو" (المائدۃ: 3) 

جبکہ بحری حیوانات کے متعلق فرمانِ باری تعالیٰ ہے: 

"تمہارے لیے دریا (کی چیزوں) کا شکار اور ان کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے" (المائدۃ: 96)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے بارے میں فرمایا:

"اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مُردار بھی جائز ہے"
اسے مالک و شافعی اور اصحاب سنن اربعہ نے روایت کیا ہے اور ابنِ خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ پس یہ نصوص بری اور بحری حیوانات میں ان کے ذبیحے اور عدم ذبیحے سے متعلق تفریق کرتی ہیں۔ 

5: لغت میں ذکاۃ کا مطلب کسی چیز کا پورا ہونا ہے اور اسی لیے سمجھداری میں کامل ہونے کو ذکاء کہا جاتا ہے۔ یوں کہتے ہیں: "فلان ذکی ہے" اگر وہ عقل میں کامل ہو، اور شرعاً ذکاۃ حلال جانوروں کے ذبح کرنے یا نحر کرنے کو کہتے ہیں اور علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ حلال جانوروں کو، سوائے مچھلی اور ٹڈی کے، کھانا اُس وقت تک جائز نہیں جب تک انہیں ذبح نہ کرلیا جائے یا ان کے ساتھ کچھ ایسا نہ ہو جو ذبح کرنے کے معنی میں آتا ہو۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ مذکورہ جانور سے مضر خون کا اخراج ہو اور وہ پاکیزہ ہوجائے اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے جس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے۔ 

"جس کا خون بہایا جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے تو اسے کھا لو" (متفق علیہ) 

شرعی ذبیحے کیلئے کاٹنے کے مقام کا تعین کیا گیا ہے اور اس کی چند شرائط ہیں: 

جہاں تک اس کے مقام کا تعلق ہے تو یہ جانور کی پوزیشن کے مطابق مختلف ہوسکتا ہے۔ پس ہوسکتا ہے کہ جانور قابو میں ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ قابو میں نہ ہو۔ جو قابو میں ہو اس کے بارے میں اجماع ہے کہ ذبح کرنے کا مقام اس کا حلق ہے۔ اور اس کے علاوہ اسے کہیں اور ذبح کرنا جائز نہیں جیسا کہ بیشتر فقہائے کرام رحمہم اللہ نے کہا ہے۔ اس مقام (حلق) کو ذبح کے ساتھ خاص اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ رگوں کے جمع ہونے کی جگہ ہے، پس جب اس جگہ سے ذبح کیا جائے تو تیزی کے ساتھ خون نکلتا ہے اور جانور جلد دم توڑ دیتا ہے۔ چنانچہ یہ گوشت کو زیادہ پاکیزہ کرنے والا ہوتا ہے اور مذبوح جانور پر بھی کم سے کم مشقت کا باعث ہوتا ہے۔ جس جانور کو حلق سے کاٹا جاتا ہے، اسے ذبح کرنا کہتے ہیں اور یہ اونٹ کے علاوہ دیگر تمام جانوروں میں ہوتا ہے۔ جبکہ نحر کے ذریعے پاکیزہ کرنے کو نحر ہی کہا جاتا ہے اور یہ اونٹ کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔
اور اگر جانور ایسا ہو جو کہ قابو میں نہ ہو کیونکہ وہ جنگلی یا وحشی جانور ہو، یا انسیت کے بعد وحشی ہوگیا ہو، یا وہ کنویں یا اسی طرح کسی اور جگہ پر گر گیا ہو، تو اسے زخم کے ذریعے پاک کیا جائے گا چاہے وہ اس کے بدن کے کسی بھی حصے میں لگایا جائے، اور یہ کسی تیز دھار چیز سے ہو، تیر یا اسی طرح کی کوئی اور چیز۔ 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لیے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو اور جس (طریق) سے اللہ نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے (اس طریق سے) تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھا لیا کرو اور (شکاری جانوروں کو چھوڑتے وقت) اللہ کا نام لے لیا کرو" (المائدۃ: 4) 

پس ان دلائل سے یہ ثابت ہوا کہ جو بھی شکار یا اُس کے حکم میں آنے والا جانور ہو اور قابو سے باہر ہو تو اس کی پاکی اُس کے جسم کے کسی بھی حصے میں زخم لگا کر کی جاسکتی ہے اگر اُس کا دم اسی زخم کی وجہ سے نکلے قبل اِس کے کہ اُس تک پہنچا جاسکے اور اس سلسلے میں اُن تمام شروط اور حالات کا خیال رکھنا ضروری ہوگا جسے فقہائے کرام اپنی کتب میں شکار کے باب میں ذکر کرچکے ہیں۔ البتہ وہ جو شروع ہی سے قابو میں ہوں یا ایسا شکار جسے پکڑ لیا جانا ممکن ہوگیا ہو اور اس میں مستقل زندگی موجود ہو تو اسے بغیر متعین مقام اور شروط کے ذبح کیے کسی اور طریقے سے پاک کرنا حلال نہیں، ان میں سے بعض ذبح کرنے والے کے ساتھ مشروط ہیں، بعض کا تعلق آلۂ ذبح سے ہے اور بعض ذبح کے طریقِ کار سے متعلق ہیں۔ 

6: فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ذبح کیلئے چار شرائط ہیں: 
أ: پہلی شرط: ذبح کرنے والے کا اہل ہونا، اور اُس میں دو باتوں کا پایا جانا ضروری ہے: 

پہلی بات: یہ کہ وہ عاقل ہو، کیونکہ ذبح کیلئے عبادت کی غرض سے نیت ضروری ہے۔ اور جس میں عقل نہ ہو جیسے مجنون یا اس کے علاوہ تو ان کی نیت کا اعتبار نہیں۔ پس ان کی جانب سے ذبح کرنا ایسا ہی ہوگا جیسے چھری خود بخود جانور کے حلق پر چل پڑی ہو اور اسے ذبح کردیا ہو۔ 

دوسری بات: ذبح کرنے والا کسی آسمانی دین کا پیرو ہو، چاہے وہ مسلمان ہو یا اہلِ کتاب میں سے ہو، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو" (المائدۃ: 3) 

یعنی جسے مسلمانوں نے پاک کیا ہو کیونکہ خطاب اُن سے ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے" (المائدۃ:5)
اور اہل کتاب یہود اور نصاریٰ ہیں اور ان کے طعام سے مراد قطعی طور پر ذبیحہ ہی ہے کیونکہ ذبیحے کے علاوہ جو بھی ہے وہ ان کے علاوہ باقی سب سے بھی حلال ہے۔ 

ب: ذبیحے کے صحیح ہونے کی دوسری شرط کا تعلق آلۂ ذبح سے ہے۔ مذکورہ آلے میں دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے: 

پہلی چیز: یہ آلہ تیز دھار ہو اور زخم اس کی دھار سے لگے نہ کہ اس کے وزن سے، جیسے چھری، تلوار یا تیز دھار پتھر وغیرہ۔ 
اور اگر چوٹ آلۂ ذبح کے وزن کی وجہ سے آئے تو یہ ذبیحہ درست نہیں کیونکہ یہ چوٹ کے حکم میں آجاتا ہے اور چوٹ کھانے سے مرنے والے جانور کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ اور حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: (حدیث اوپر بیان ہوچکی)۔ 
اور وقیذ وہ جانور ہے جو بھاری چیز کے ذریعے ہلاک ہوا ہو۔

ج: تیسری شرط: غذا کی نالی، حلقوم اور دو شریانوں کو 
کاٹنا، اور اس میں راجح قول یہ ہے کہ ان چار میں سے بلا کسی تعین کے کوئی سی بھی تین کٹ جائیں تو ذبیحہ درست ہے۔ "مریئ" اُس نالی کو کہتے ہیں جس سے کھانے پینے کی اشیاء گزر کر معدے میں جاتی ہیں، حلقوم کے ذریعے سانس کی آمد و رفت جاری رہتی ہے جبکہ "وجدین" اُن دو شریانوں کو کہتے ہیں جو گردن کی دو اطراف میں ہوتی ہیں اور ان کے ذریعے خون کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ 
د: چوتھی شرط: یہ کہ ذبیحے پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو۔ 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"تو جس چیز پر (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیا جائے اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو اسے کھا لیا کرو" (الانعام: 118)
اور فرمایا:

"اور جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ کہ اس کا کھانا گناہ ہے" (الانعام:121)

پس ان مبارک آیات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اُن ذبیحوں میں سے کھائیں جن پر اُس کا نام لیا گیا ہو جبکہ اُن ذبیحوں کے کھانے سے منع فرمایا گیا ہے جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور اسے فسق کہا گیا ہے۔ اسی طرح سنت مطہرہ میں بھی اس بات کا حکم آیا ہے کہ وہ ذبیحہ کھایا جائے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

"جس کا خون بہایا جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے تو اسے کھا لو" (متفق علیہ) 
پس اس میں ذبیحے کی درستگی کی شرط کے طور پر اُس پر اللہ کا نام لینا بتلایا گیا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور میں سے کھانے کی اجازت کو دو چیزوں کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ ایک یہ کہ جانور کا خون بہے اور دوسرا یہ کہ اُس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ پس جو امر دو چیزوں کے ساتھ معلق ہو، اُس میں ایک شرط کا پایا جانا کافی نہیں۔ 

7: اگر گوشت سے متعلق بات تاریکی میں رہے اور یہ معلوم نہ ہو کہ ذبح کرنے والا اہل تھا یا نہیں اور یہ کہ کیا ذبیحے کے وقت اس کی شرعی شرائط کا خیال رکھا گیا ہے یا نہیں؟ ایسا اگر اسلامی ممالک میں ہو تو وہ داخلی گوشت جو وہاں کے بازاروں میں فروخت ہوتا ہے، اُس کا کھانا حلال ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ حُسنِ ظن رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ وہ غالب طور پر ذبیحہ کرتے ہوئے شرعی طریقے کی مخالفت نہیں کرتے۔ اِس گوشت کا کھانا اُس صورت میں بھی جائز ہے جبکہ ہمیں اس بات کا علم بھی نہ ہو کہ ذبح کرنے والا کون ہے؟ اور یہ کہ کیا اُس نے ذبیحے پر اللہ کا نام لیا بھی ہے یا نہیں؟ اس لیے کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ: 

"ایک قوم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ:

"ہمارے پاس ایک قوم گوشت لے کر آئی ہے، ہمیں علم نہیں کہ انہوں نے اس پر اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں" تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اُس پر اللہ کا نام لو اور اُسے کھا لو" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ "وہ اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے تھے"۔ 

پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس گوشت کا کھانا حلال فرمادیا جس کے متعلق شک موجود تھا کہ آیا اُس پر اللہ کا نام لیا گیا تھا یا نہیں، جبکہ شک کرنے کی وجہ بھی موجود تھی کہ وہ لوگ بالکل نو مسلم تھے تو ہوسکتا تھا کہ انہیں ذبیحے کیلئے تسمیہ کا شرط ہونا معلوم نہ رہا ہو۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس گوشت کو حلال فرمانا باوجود اس کے کہ حلت کی شرط (تسمیہ) کے وقوع میں شک موجود تھا اور شک کی وجہ بھی موجود تھی (کہ وہ لوگ نو مسلم تھے)، مسلمانوں کے ساتھ بالعموم حسن ظن کی بناء پر تھا۔

8: اور اگر گوشت سے متعلق بات تاریکی میں رہے اور یہ معلوم نہ ہو کہ ذبح کرنے والا اہل تھا یا نہیں اور یہ کہ کیا ذبیحے کے وقت اس کی شرعی شرائط کا خیال رکھا گیا ہے یا نہیں؟ اور ایسا غیر مسلم ممالک میں ہوا ہو، یا پھر مسلم ممالک میں ہی ہو مگر یہ گوشت غیر مسلم ممالک سے درآمد کردہ ہو، تو اس کا کھانا اور استعمال کرنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک یہ بات پوری طرح اور یقین کے ساتھ واضح نہ ہوجائے کہ ذبح کرنے والا مسلمان یا اُن اہلِ کتاب میں سے تھا جو اپنے دین پر پوری طرح قائم ہیں، اور ذبیحہ بالکل اُن شرائط کے مطابق کیا گیا جو شریعت میں اس کیلئے رکھی گئی ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ غیر اہلِ کتاب کی جانب سے ذبح کیا جانے والا جانور مُردار کے حکم میں آجاتا ہے۔ 


اہلِ کتاب کے ذبیحے کا موجودہ دور میں حکم

جہاں تک اہلِ کتاب کا تعلق ہے اور باوجود اس کے، کہ ان کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال ہے، مگر آج ان میں سے اکثر اپنے دین سے منحرف ہوچکے ہیں اور اُس طریقے کے مطابق ذبیحہ نہیں کرتے جو انہیں ان کے دین میں بتایا گیا ہے۔ اور یہ بات علمائے کرام، دین اسلام کی دعوت دینے والوں اور طلباء کے مشاہدے سے ثابت ہے۔ ہم ان کے بیانات میں سے کچھ کا تذکرہ آئندہ سطور میں کرتے ہیں ان شاء اللہ۔

9: علمائے کرام اور دین کی دعوت دینے والوں کا درآمد کیے جانے والے گوشت سے متعلق بیان:
مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں:

أ:
"جہاں تک اُس طریقے کی بات ہے جو مرغیوں کے ذبح کیے جانے میں اختیار کیا جاتا ہے اور جسے میں نے کینیڈا، جنوبی افریقہ، ری یونین کے جزیرے میں دیکھا ہے، تو یہ ایک بہت بڑی مشین ہے جس میں ذبح سے لے کر پیک کیے جانے تک کے تمام مراحل شامل ہوتے ہیں۔ ایک طرف سے اس مشین میں زندہ مرغی داخل ہوتی ہے اور دوسری جانب سے اس کا صاف کردہ پیکٹوں میں بند گوشت برآمد ہوتا ہے۔ درمیان کے تمام مرحلے جن میں ذبیحہ، پروں کا ہٹایا جانا، انتڑیوں وغیرہ کا نکالا جانا اور گوشت کی صفائی و ٹکڑے کیے جانے، اسے پیکٹوں میں بند کیے جانے کا عمل اسی الیکٹرانک مشین کے اندر انجام پاتا ہے۔ اس طریقے میں شرعی نقطۂ نظر 
سے چار باتوں کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے: 

اول: مرغیوں کو ٹھنڈے پانی سے گزارے جانے کا مرحلہ جس میں برقی رو بھی دوڑ رہی ہوتی ہے۔
دوم: ایک گول شکل والی چھری کے ذریعے حلقوم کا کاٹا جانا۔
سوم: مرغیوں کو گرم پانی سے گزارنا۔
چہارم: مذکورہ میکانیکی طریقِ کار میں تسمیہ کا فریضہ کیسے ادا کیا جاتا ہے؟
ہم نے جس طریقِ کار کا ذکر کیا ہے اس میں شرعی نقطۂ نظر سے یہ قباحتیں ثابت ہوتی ہیں: 

1: بعض مذبح خانوں میں مرغی کو ذبح کیے جانے سے قبل ٹھنڈے پانی میں غوطہ دیا جاتا ہے جس میں برقی رو دوڑ رہی ہوتی ہے جس سے یہ خدشہ باقی رہتا ہے کہ ذبیحے سے قبل ہی یہ برقی رو مرغی کی موت کا باعث بن جائے۔ 

2: گول چھری اگرچہ اکثر و بیشتر صورتحال میں رگیں کاٹنے کیلئے کافی ہوتی ہے، مگر بعض اوقات مرغی کی گردن پوری طرح اُس کی زد میں نہیں آتی۔ چنانچہ اس کا حلقوم نہیں کٹتا یا پھر ایک بہت معمولی حصہ ہی کٹتا ہے۔۔۔

3: مذکورہ گول چھری کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں کہ ہر مرغی پر تسمیہ پڑھا جائے، یا پھر یہ مشین چلاتے ہوئے بسم اللہ پڑھی جائے، یا پھر وہ شخص جو اس چھری کے پاس کھڑا ہوتا ہے، شرعی شرائط و ضوابط پر پورا نہیں اترتا۔
4: وہ گرم پانی جس سے مرغی کو گزارا جاتا ہے، خدشہ ہے کہ وہی مرغی کی موت کا باعث بنے۔۔۔۔" انتہی۔۔

شیخ محمد علی الحرکان کا بیان: 

ب: رابطۃ العالم الاسلامی کے سیکریٹری جنرل جناب شیخ محمد علی الحرکان نے علمی ریسرچ و افتاء کے سعودی ادارے کے سربراہ کو خط میں درآمد کنندہ گوشت کے بارے میں یوں لکھا: 

جناب صدر ادارہ برائے ریسرچ و افتاء (والدعوۃ والارشاد) ۔ ریاض ۔۔ محترم!

السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
مجھے آپ کی خدمت میں اپنی نیک تمنائیں اور خواہشات پیش کرتے ہوئے بہت خوشی ہورہی ہے۔ اسی طرح میں آپ کو بعض اُن رپورٹس سے بھی آگاہ کرنا چاہتا ہوں جن میں سے کچھ رسمی اور کچھ غیر رسمی طور پر ہم تک پہنچی ہیں اور جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض آسٹریلوی کمپنیاں جو اسلامی ممالک کو گوشت برآمد کرتی ہیں، خاص طور پر"الحلال الصادق" نامی کمپنی جس کا مالک "حلال صادق" نامی قادیانی ہے، جانوروں (گائے بکریوں اور پرندوں وغیرہ) کو ذبح کرتے ہوئے اسلامی قواعد و ضوابط کی پاسداری نہیں کرتیں۔ اس بات کا علم ہونے کے بعد ہم نے آسٹریلیا میں موجود اسلامی تنظیموں کے اتحاد سے رابطہ کیا جس کا ایڈریس نیچے موجود ہے اور ان سے یہ تعاون حاصل کیا کہ وہ تمام مذبح خانوں کی نگرانی کا کام انجام دیں گے اور جن کمپنیوں سے متعلق انہیں اطمینان ہوگا انہیں اپنی جانب سے سرٹیفکیٹ دیں گے جس پر ان کی مہر بھی لگی ہوگی۔ 
چنانچہ ہماری آپ سے یہ استدعا ہے کہ اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کو آگاہ کردیں کہ وہ ہم سے پورا تعاون کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ مذکورہ ملک کی کسی کمپنی سے گوشت درآمد نہ کریں الا یہ کہ وہ مذکورہ اتحاد سے تصدیق شدہ ہو اور ان کا سرٹیفکیٹ اس کے ہمراہ ہو۔ اور ایسا اس بات کی ضمانت کے طور پر کیا جائے کہ ذبیحہ شرعی طریقے سے کیا گیا ہے اور اس کے طریقۂ کار میں اسلامی تعلیمات کے خلاف کوئی بات نہیں ہے۔ میری اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اُن اعمال کی توفیق عطا فرمائیں جنہیں وہ پسند فرماتا اور اُن سے راضی ہوتا ہے۔ اللہ آپ کی حفاظت فرمائیں۔ 

سیکریٹری جنرل
محمد علی الحرکان

دکتور محمود الطباع کا بیان:


ریاض سے شائع ہونے والے رسالے "الدعوۃ" نے ڈاکٹر محمود الطباع جن کا تعلق ابہا سے ہے، کا ایک مضمون اپنے شمارہ نمبر 673 میں اکیس ذوالقعدہ 1398 ہــ کو شائع کیا جس کا عنوان یہ تھا کہ "تاکہ ہم حرام نہ کھائیں"۔ مذکورہ مضمون کچھ یوں تھا: 

السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ و بعد ۔۔ 
میں نے "الدعوۃ" (رسالہ) کے شمارہ نمبر 667 میں جو نو شوال 1398ہــ کو شائع ہوا، ایک مضمون پڑھا جسے عبد الرحمان المحمد الاسماعیل نے لکھا تھا، اللہ انہیں جزائے خیر عطا فرمائیں۔ اس مضمون کا عنوان تھا کہ "تاکہ ہم حرام نہ کھائیں" اور میں ان باتوں کی وضاحت کرنا چاہوں گا: "میں ڈاکٹر محمود الطباع جانوروں کا ڈاکٹر ہوں اور میں نے اپنی اسٹڈی مغربی جرمنی میں مکمل کی ہے۔ تعلیم کے ابتدائی مراحل میں ہی میں نے اور میرے ساتھی دیگر مسلمان بھائیوں نے اس مشکل کو اپنے سامنے پایا کہ یہاں کے مذبوح جانوروں کا گوشت کھانا درست ہے یا نہیں؟ اور ہم نے چاہا کہ ذبح کے طریقِ کار سے متعلق اپنا اطمینان کرلیں۔ میں اپنے چند مسلمان بھائیوں کے ہمراہ "ہانوفر" شہر میں واقع مذبح خانے چلا گیا۔ وہاں ہم نے قصائیوں کو دیکھا کہ انہوں نے گائیں لا کر ایک خاص قسم کے پسٹل سے ان کے سروں پر فائر کیا۔ پھر تقریباً پون گھنٹہ انہوں نے آرام کرنے اور خورد و نوش میں گزار دیا اور اس کے بعد اٹھ کر گایوں کو ان کی پچھلی ٹانگوں پر اونچائی پر بندھے ہوئے متحرک ہکوں سے لٹکا دیا۔ پھر ان کے سروں کو کاٹا، ان کی کھال اتاری اور گایوں کو درمیان سے دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ پھر اس کی آلائشات اور اندرونی اعضاء کے نکالے جانے کے بعد اسے پانی سے دھویا۔ اس پانی کا رنگ خون کی طرح سُرخ تھا۔ اس سے قبل جب ان کارندوں نے آرام کے وقفے کے بعد گایوں کے سر کاٹنا شروع کیے تھے تو ہم نے دیکھ لیا تھا کہ گائیں اس سے پہلے ہی مُردہ تھیں اور ان کا کھانا ہمارے دین میں جائز نہ رہا تھا۔ ہم نے یہ بات مسلمان طالب علموں کو بتا دی تھی اور وہ سب بھی جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی اکثریت خنزیر کا گوشت کھانے سے بھی باک نہیں کرتی تھی تو مُردار کی ان کے نزدیک کیا اہمیت رہی ہوگی۔" 
ڈاکٹر محمود الطباع/ ابہا ۔ مدیریۃ العامۃ لشئون البلدیۃ والقرویۃ

خلاصہ: ڈاکٹر صاحب نے جرمنی میں قصائیوں کو دیکھا کہ وہ پسٹل سے گائیوں کے سروں پر فائر کرتے تھے، پھر آرام کرتے تھے پھر ان کے سروں کو کاٹتے تھے اور یہ اس وقت ہوتا تھا جب ان میں زندگی کی معمولی سی حرارت بھی باقی نہ رہتی تھی۔ انہوں نے اس بات کا مشاہدے کے ذریعے یقین کرلیا کہ گایوں کو اُس وقت تک ذبح نہیں کیا گیا تھا جب تک وہ مر نہ چکی ہوتی تھیں۔

ڈنمارک میں مسلم نوجوانوں کی تنظیم کا بیان:
رسالہ "المجتمع الکویتیہ" کے شمارہ نمبر 414 جو بروز منگل بتاریخ 1 ذی القعدہ 1398ء میں ڈنمارک میں مسلم نوجوانوں کی تنظیم کی جانب سے ایک مقالہ شائع ہوا جس کا عنوان "ڈنمارک میں مرغیوں کے ذبیحے کی شرعی حیثیت" تھا۔ یہ مقالہ کچھ یوں تھا:

"اُن متعدد استفسارات کے پیش نظر جو ہمارے عرب ممالک میں مقیم بھائیوں کی جانب سے ہم سے کیے جاتے تھے، اور وہ ڈنمارک میں ہونے والے دیگر جانوروں کے ذبیحے سمیت مرغیوں کے ذبح کیے جانے کی کیفیت اور طریق کار جاننے سے متعلق ہوتے تھے، ہم نے تحقیق کی اور نتیجے کے طور پر ہم جن حقائق سے آگاہ ہوئے وہ کچھ یوں تھے: ہم نے سرکاری ذرائع سے اس بات سے آگاہی حاصل کی کہ ڈنمارک میں قادیانی لابی 1967ء میں اپنے قیام کے بعد سے ہی مسلمانوں اور اسلام کی نمائندگی کررہا ہے۔ پس مسلم ممالک کو بھیجے جانے والے گوشت اور مرغیوں کے ذبیحے کی صحت کی تصدیق یہی قادیانی کرتے ہیں اور اس کے بالمقابل برآمد کنندہ کمپنیوں سے معاوضہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے یہ بات بھی جان لی کہ یہاں موجود اسلامی ممالک کے سفارت خانے پوری دنیا میں موجود دیگر مسلم سفارتخانوں کی طرح اسلام کی قریب و دور سے کسی قسم کی نمائندگی نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح ہم نے اس بات سے بھی آگاہی حاصل کی کہ ماضیٔ قریب میں گوشت کی برآمد کرنے والی بعض کمپنیاں اپنی جانب سے گوشت کو حلال کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ مذبح خانوں میں قرآن کریم کی تلاوت پر مبنی آڈیو کیسٹس چلاتے ہیں اور یہ تصور کرتے ہیں کہ اس طرح اس گوشت کا کھانا ہمارے لیے حلال ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ان میں سے بعض ہماری آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ایک یا اس سے زائد مسلمانوں کو اپنے ہاں ملازمت پر بھی رکھتی ہیں اور انہیں ایسے کاموں پر مامور کرتی ہیں جن کا ذبح کے عمل سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ آج ۔۔۔ ہماری تنظیم نے ڈنمارک میں موجود ایسی کمپنیوں کو جو مرغیاں برآمد کرتی ہیں، خطوط بھیجے ہیں اور ایسی کمپنیوں کی تعداد 35 ہے جو مرغیوں اور اس کے علاوہ دیگر پرندوں کا گوشت برآمد کرتی ہیں۔۔۔۔
جب ہمیں ان کی جانب سے جوابات ملے تو اندازہ ہوا کہ ان میں سے بعض مذبح خانوں سے مسلمان ممالک کو بالکل بھی گوشت برآمد نہیں کیا جاتا۔۔ اس قسم کے مذبح خانوں کے مالکان نے ہمیں مذبح خانوں کا جائزہ لینے سے نہیں روکا۔ مگر وہ کمپنیاں جو اسلامی ممالک کو مرغی کا گوشت برآمد کرتی ہیں، انہوں نے ہمیں اپنے مذبح خانے دکھانے سے یکسر انکار کردیا اور ہماری بالکل پذیرائی نہیں کی۔ 
جب ہم نے فون پر "مدیر لجنۃ التصدیر الدنمارکیۃ" سے بات کی تو ان امور کا انکشاف ہوا:

اول: ڈنمارک کے مذبح خانوں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ اسلامی ذبیحہ کی کیا شرائط ہوتی ہیں؟

دوم: مرغیوں کو اُن کا سر مکمل طور پر کاٹ کر ذبح کیا جاتا ہے اور اس سے پہلے انہیں ویٹرنری قانون کی لازمی شرط کے تحت نشہ آور شے دی جاتی ہے اور اس طریقۂ کار کے بغیر کسی جانور کو ذبح کرنے کیلئے خاص اجازت کی ضرورت پڑتی ہے۔ 
سوم: ڈنمارک کی کمپنیوں کیلئے سب سے زیادہ اہمیت اس وقت اُن مسلم ممالک کے سفارت خانوں کی جانب سے تصدیق کا حصول ہے جہاں وہ گوشت برآمد کرتے ہیں کیونکہ یہی سفارت خانے اسلامی نقطۂ نظر سے ان ذبیحوں کے جائزہ لیے جانے کی تصدیق کرتے ہیں۔
ہم نے "مدیر لجنۃ" سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ یہی نکات ہمیں تحریری شکل میں ارسال کردیں تو انہوں نے ہم سے اس کا وعدہ کیا اور پھر جواب دینے میں بہت تاخیر کی۔ اس کے بعد جب ہمیں ان کی جانب سے تحریری پیغام ملا تو اس پر ڈپلومیسی کا غلبہ تھا اور جن نکات پر فون میں بات ہوئی تھی وہ اس میں ناپید تھے۔

جو کچھ بیان ہوا اس سے یہ بات واضح ہے کہ اس تمام شرمناک معاملے میں پہلے نمبر پر جواب طلبی ڈنمارک کی کمپنیاں نہیں ہیں بلکہ عرب درآمد کنندگان اور ان کی پشت پر ان کے جرم کی تصدیق کرنے والے سفارت خانے ہیں۔ 
بنا بر ایں ہم ڈنمارک میں مسلم نوجوانوں کی تنظیم تمام مسلمانوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں، ڈنمارک کی کمپنیوں کا گوشت اسلامی طریقے سے کیے گئے ذبیحوں کا نہیں ہے اور نہ ہی یہ دیگر غیر مسلم ممالک کو بھیجے جانے والے گوشت سے مختلف ہے اور فرق صرف اتنا ہے کہ مسلم ممالک کو بھیجا جانے والا گوشت ایسے لفافوں میں ہوتا ہے جن پر عربی عبارات ہوتی ہیں تاکہ تاجر اور مسلمان خریدار کو دھوکے میں رکھا جاسکے۔ ذبیحہ نشہ آور شے دیئے جانے کے بعد سر کے کاٹنے کے ذریعے انجام پاتا ہے۔۔۔۔۔۔ 
ڈنمارک میں مسلم نوجوانوں کی تنظیم

خلاصہ: أ: جو لوگ مسلم ممالک کو برآمد ہونے والے گوشت اور مرغیوں کی اسلامی طریقے سے ذبح کیے جانے کی تصدیق کرتے ہیں، قادیانی ہیں۔ پھر ایک اسلامی تنظیم کی جانب سے ان تصدیق ناموں کی مخالفت ہوئی جو قادیانی جاری کرتے ہیں اور انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ کمپنیوں کے ذاتی اغراض و مقاصد، عرب درآمد کنندگان اور ان کی پشتبانی کرنے والے عرب سفارتخانوں کی حقیقت بھی عیاں کی۔

ب: جو لوگ اسلامی سفارتخانوں میں کام کرتے ہیں، ان کی ایک معمولی سی تعداد کے علاوہ باقی سب اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ ڈپلومیسی کا طریقۂ کار اپنائے ہوئے ہیں۔

ج: ڈنمارک کے نصرانی اور جو بھی ان کے حکم میں ہیں، اہل کتاب کے حکم سے نکل چکے ہیں اور اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ انہیں اہلِ کتاب کہا جائے۔ بلکہ وہ شیوعیین اور بت پرست کہلائے جانے کے زیادہ قابل ہیں۔

د: دیگر جانوروں اور مرغیوں کے اُن مذبح خانوں کے کرتا دھرتا افراد کا مسلم نوجوانوں کے گروپ کو ذبح کے عمل کا مشاہدہ نہ کرنے دینا جو اسلامی ممالک کو گوشت برآمد کرتے ہیں، اس لیے تھا کہ اُن کا خیال تھا کہ یہ مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کے نمائندہ وہ سفارت خانے ہیں جو اس گوشت کی برآمد کے وقت تصدیق نامے جاری کرتے ہیں۔

ھ : ڈنمارک کے مذبح خانوں کو کسی مستند اسلامی ذریعے سے کسی قسم کی معلومات نہیں ہیں کہ اسلامی ذبیحے کی کیا شرائط ہیں؟
و: "عرب درآمد کنندگان" وہ لوگ ہیں جو ان سے "اسلامی ذبیحہ" کے اسٹیکر کا مطالبہ کرتے ہیں اور وہی یہ تیار کرکے انہیں دیتے ہیں۔ ڈنمارک کی کمپنیوں کو یہ عبارت لگانے میں کوئی باک نہیں ہے کیونکہ یہ اُن کے اپنے مفاد میں ہے۔

ز: ذبیحہ سر کے الگ کیے جانے کے ذریعے اور نشہ آور شے کھلائے جانے کے بعد ہوتا ہے اور مسلم و غیر مسلم ممالک کو بھیجے جانے والے ذبیحوں میں کسی بھی قسم کا فرق روا نہیں رکھا جاتا سوائے اس کے، کہ مسلم ممالک کو برآمد کیے جانے والے گوشت کی پیکنگ پر عربی عبارات ہوتی ہیں۔

ح: ڈنمارک کی کمپنیوں کیلئے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ مسلم ممالک کے سفارت خانوں کی جانب سے تصدیق حاصل کرسکیں۔
ط: اس تمام قضیے کا حل یہ ہے کہ اسلامی مذبح خانے بنائے جائیں جو اسلامی ممالک کو گوشت برآمد کریں۔ اور اس سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ علمی، عملی اور مادی تعاون کیا جائے۔

10: مختلف داعیان اسلام کی جانب سے سعودی عرب کے علمی ریسرچ اور افتاء (والدعوۃ والارشاد) کے محکمے کو موصول ہونے والی رپورٹس:

داعیٔٔ اسلام جناب محمد بن صالح محایری کی جانب سے برازیل سے مسلم ممالک کو برآمد کیے جانے والے ذبیحوں کے بارے میں سعودی عرب کو بھیجی جانے والی رپورٹ کا متن::

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ محمد و علیٰ آلِہِ و اصحابہ اجمعین
محترم رئیسِ عام اور والد صاحب، علامہ شیخ عبد العزیز بن باز حفظہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ ۔۔ اما بعد
آپ کی جانب سے بتاریخ 21/06/1398 ہجری کو موصول ہونے والے پیغام نمبر 413442 میں اس بات کا حکم تھا کہ میں برازیل میں پرندوں اور مویشیوں کے ذبیحے کے طریقۂ کار کو دیکھوں، اس حکم کی تعمیل میں آپ کے سامنے یہ معلومات پیش کرتا ہوں: 14 رجب 1398 ہجری سے 30 رجب 1398 ہجری تک میں نے برازیل کے اندر اس معاملے کی تحقیق کرتے ہوئے سات شہروں کا سفر کیا جہاں مذبح خانے تھے۔ ان شہروں کے ناموں کی تفصیل یہ ہے: 

"کورٹیبا" یہ شہر لوندرینا سے ساڑھے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ 

"بونٹا کروسا" جو دو سو دس کلومیٹر کی مسافت پر ہے، 

"کامبو کرانڈی" جو ساڑھے سات سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، 

"کویوبا" جو ساڑھے بارہ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، 

"گھویانا" جو ایک سو دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، 

"بروزینٹی"، یہ شہر ڈھائی سو کلومیٹر دوری پر واقع ہے، 

"سان جوزف" جو تین سو پچھتر کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ 

اس کے باوجود کہ میں نے اپنے اس سفر میں تمام اُن کمپنیوں کا وزٹ کیا جہاں سے پرندوں یا مویشیوں کا گوشت برآمد کیا جاتا ہے تاہم ان سطور میں، میں فقط اُن کمپنیوں کا ذکر کروں گا جو سعودی عرب کو گوشت برآمد کرتے ہیں۔

"برنسیسا" پولٹری کمپنی، یہ کمپنی "بونٹا کروسا" شہر اور برازیلی ولایت "بارانا" میں واقع ہے: یہ کمپنی اپنے خاص فارمز میں مرغیوں کی پرورش کرتی اور انہیں ذبح کرکے ہر ماہ تقریباً 150 ٹن گوشت کی پیکنگ کرکے انہیں چند عرب ممالک جن میں مسقط، عمان، کویت اور سعودی عرب شامل ہیں، بھجواتی ہے اور ایسا "بٹروبراز" نامی برازیلین کمپنی کے توسط سے ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں پیکنگ کیلئے ایسی نایلون کی تھیلیاں اور کارٹن استعمال کیے جاتے ہیں جن پر عربی میں یہ عبارت ہوتی ہے کہ "اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا" ۔۔ اور جب بعض مسلم ممالک میں وزارتِ تجارت نے درآمد کنندگان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اوراق کے ساتھ ایسا کوئی سرٹیفکیٹ بھی پیش کریں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ درآمد کیے جانے والے اس گوشت کے سلسلے میں اسلامی ذبیحے کے اصولوں کا خیال رکھا گیا ہے، تو مذکورہ کمپنی نے قریبی شہر کورٹیبا میں موجود اسلامی تنظیم کے سربراہ سے اس سلسلے میں رابطہ کیا اور اُس کے حسین العمیری نامی شخص سے یہ اتفاق رائے کیا کہ وہ ہر مرتبہ اس گوشت کے برآمد کیے جانے کے موقع پر ایک تصدیق نامہ دیں گے کہ ذبیحہ اسلامی اصولوں کے عین مطابق کیا گیا ہے۔ اس کے بدلے میں برآمد ہونے والے گوشت کی مجموعی مالیت کا ایک فیصد انہیں دیا جائے گا۔۔۔۔

اس رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے: 
"برنسیسا" کمپنی میں مرغیوں کے ذبیحے کا طریقۂ کار:
1: مرغیوں کو پاؤں سے باندھ کر سر کے بل ایک مشینی آلے سے لٹکا دیا جاتا ہے جو انہیں لے کر ایک شخص کی سمت جاتا ہے جس کے ہاتھ میں چھرا ہوتا ہے اور وہ بڑی تیزی سے ان کی گردنیں کاٹتا ہے۔ مذکورہ مشینی آلہ ان مرغیوں کو گرم پانی تک لے جاتا ہے جہاں انہیں غوطہ دیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے ان کے بدن سے پروں کو علیحدہ کیا جاتا ہے۔
2: ممکن ہے کہ مرغی کی صرف ایک ہی رگ کٹی ہو، اور عین ممکن ہے کہ مرغی کو گرم پانی میں اُس کے مر جانے سے پہلے ہی غوطہ دے دیا جاتا ہو کیونکہ ذبح کرنے والے اور مرغی کو لے کر حرکت کرنے والی مشین بہت تیز رفتار ہوتی ہے۔

3: مجھے ذبح کرنے والے پر شک ہے کہ آیا وہ مسلمان تھا، اہلِ کتاب میں سے تھا یا پھر بت پرست یا ملحد تھا۔

4: پیکنگ پر یہ تصدیق لکھی جاتی ہے کہ "اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا" جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو تصدیق کنندہ اور نہ ہی اس کے کسی مقرر کردہ نمائندے نے اپنی آنکھوں سے ذبیحے کا مشاہدہ کیا ہوتا ہے۔ اس کے بدلے میں انہیں معاوضہ ملتا ہے اور یہ تصدیق بہ امرِ مجبوری حاصل کی جاتی ہے کیونکہ اکثر ممالک کی وزارتِ تجارت نے درآمد کنندگان پر یہ شرط عائد کی ہوتی ہے کہ وہ تحریری تصدیق نامہ لائیں کہ یہ ذبیحہ اسلامی ہے۔

5: میں نے اس کمپنی کے سربراہ سے مطالبہ کیا کہ ذبح کے طریقۂ کار میں تبدیلی کی جائے یہاں تک کہ یہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہوجائے، تو اس نے اس پر آمادگی ظاہر کی البتہ یہ شرط عائد کی کہ ہم انہیں مطلوبہ مقدار پہلے سے متعین کرکے بتا دیں۔

"سادیا اویسٹا" نامی کمپنی میں ذبیحے کا طریقۂ کار:
1: ان کا طریقہ بھی مذکورہ بالا کمپنی کے طریقے کی طرح ہی تھا کہ وہ مرغیوں کو اُلٹا لٹکاتے تھے اور بالکل اسی طریقے سے ان میں زندگی کا خاتمہ ہونے سے قبل ہی انہیں گرم پانی سے بھی گزارا جاتا تھا اور ان کی پیکنگ پر بھی یہی لکھا جاتا تھا کہ "اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا" اور اس پر دو اسلامی تنظیموں کی جانب سے تصدیق بھی حاصل کی جاتی تھی جس کی انہیں باقاعدہ اجرت دی جاتی تھی، واحد فرق البتہ یہ تھا کہ پہلے ان کی کھال الگ کرکے پھر رگیں کاٹی جاتی تھیں اور یہ امر یہاں بھی مشکوک تھا کہ ذبح کرنے والا اہلِ کتاب میں سے ہے یا پھر بت پرست ہے۔
2: جہاں تک گایوں کا تعلق ہے، تو انہیں پہلے برقی رو کے ذریعے بے ہوش کیا جاتا تھا۔ پھر انہیں اس حالت میں کاٹ دیا جاتا تھا کہ ان سے خون خارج نہیں ہوتا تھا۔ جب ڈاکٹروں نے ان پر یہ واضح کیا کہ خون کے رہ جانے سے کتنے نقصانات ہیں تو پھر انہوں نے یہ طریقہ کار نکالا کہ پہلے گائے کے سر پر ہتھوڑے سے ایسی ضرب لگائی جاتی تھی جو جان لیوا نہ ہو، پھر جب وہ گر جاتی تو اس کے پاؤں سے باندھ کر اسے اونچائی پر لٹکا دیا جاتا۔ گردن کی کھال کو چیرا جاتا اور پھر ایک اور چھری سے رگیں کاٹ دی جاتیں جس سے خون بڑی تیزی سے نکلتا یہاں تک کہ گائے کا دم نکل جاتا۔ البتہ جہاں تک ذبح کرنے والے اور یہ طریقہ کار دیکھنے والے کا تعلق ہے، تو یہاں بھی وہی حال تھا جو مرغیوں کے ذبیحے کے احوال میں لکھا جاچکا ہے۔
ارجنٹائنی کمپنی کا بھیڑ بکریوں کے ذبیحے کا طریقۂ کار

1: ایک مشین کے ذریعے بھیڑ بکریوں کو اونچائی پر لٹکایا جاتا پھر ایک شخص اسلامی طریقۂ کار کے مطابق رگیں اور حلقوم کو چھری سے کاٹتا۔

2: ارجنٹائنی مسلم مرکز کی جانب سے تصدیق نامہ لکھا جاتا۔

3: مجھے ذبح کرنے والے کے بارے میں کچھ علم نہیں۔
محمد الأبیض جو ڈنمارک میں رہتے ہیں اور ایک ایسی فیکٹری میں کام کرتے ہیں جہاں گوشت کو ڈبوں میں پیک کیا جاتا ہے، کہتے ہیں کہ یہ لوگ بھیڑ بکریوں کو برقی رو کے ذریعے بے ہوش کرتے ہیں اور یہ گوشت جس بھی حال میں ہو، اس کے پیکٹوں پر یہی لکھتے ہیں کہ "اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا"۔
میری یہ تجویز ہے کہ ایسے افراد کو بھیجا جائے جو شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوں یا پھر ایسے لوگ جو ان کی نگرانی کرسکیں۔ کیونکہ یہودی ایسا کرتے ہیں اور ہم بحیثیت مسلمان ایسا کرنے میں ان سے اولیٰ ہیں۔
ثانیا: شیخ عبد اللہ بن علی الضغیۃ کا بیان جو قصیم میں لندن اور فرانس سے درآمد شدہ گوشت سے متعلق محکمے کے سربراہ ہیں۔ لکھتے ہیں: "جہاں تک درآمد ہونے والی مرغیوں اور ان کے ذبیحے کا تعلق ہے، تو لندن میں، میں نے اس کا طریقۂ کار جاننے کی کوشش کی اور ایک کمپنی کے سربراہ سے رابطہ کیا اور ان کا طریقۂ کار دیکھنے کی خواہش یہ کہتے ہوئے ظاہر کی کہ میں سعودی عرب میں اس کام کیلئے فیکٹری لگانا چاہتا ہوں۔ اُس نے مجھے ایک کیٹلاگ دیا جس میں ان کی قائم کردہ فیکٹری کی تصاویر تھیں۔ جب اُس نے مجھے طریقہ کار کی تفاصیل بتانا شروع کیں تو میں نے اس سے پوچھا: "مرغیوں کو ان کے سر کاٹے بغیر ہی اُس مشین کی جانب بھیج دیا گیا ہے جہاں ان کی پیکنگ ہوتی ہے" اس نے کہا کہ: "سر کیوں کاٹے جائیں؟" میں نے جواب دیا: "شرق اوسط میں جہاں ہم رہتے ہیں، پرندوں کے سر نہیں کھائے جاتے۔" میں آپ کی خدمت میں مذکورہ فیکٹری کی تصاویر بھی ارسال کررہا ہوں جس میں یہ واضح ہے کہ پہلے گاڑی فیکٹری کے دروازے کے پاس رکتی ہے جیسا کہ آپ منسلک خاکے میں دیکھ سکتے ہیں۔ پھر مرغیوں کو اتار کر انہیں سر کے بل لٹکایا جاتا ہے۔ پھر یہ ایک مشین کے قریب لے جائی جاتی ہیں جس کا کچھ حصہ کھلتا ہے اور ان کے سر اُس میں داخل ہوجاتے ہیں۔ وہاں ہوا کے انتہائی زبردست دباؤ اور دھماکے کے ذریعے ان کے سروں پر وار ہوتا ہے جس سے وہ کچھ سننے، دیکھنے کے قابل نہیں رہتیں اور موت کا انتظار کرتی ہیں جو کچھ ہی دیر میں انہیں آ دبوچتی ہے۔ پھر انہیں ایک اور مشین تک پہنچایا جاتا ہے جہاں ان سے ٹپکنے والے خون یا دیگر سیال مادوں کو صاف کیا جاتا ہے اور اس کے بعد انہیں ایسی مشین سے گزارا جاتا ہے جو سخت گرم بھاپ یا پانی کے ذریعے چلتی ہیں۔ اگر مرغی زندہ ہوتی ہے تو وہاں جا کر ان کا دم نکل جاتا ہے اس کے بعد انہیں ایسی مشینوں تک پہنچایا جاتا ہے جہاں ان کے پر نوچنے اور صفائی کے بعد نایلون کے تھیلوں میں بند کیا جاتا ہے جن پر عربی میں لکھا ہوتا ہے کہ "اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا" اور یہ ایک چھوٹی سی فیکٹری ہے جو ایک گھنٹے میں دو ہزار مرغیاں پیک کرتی ہے۔۔۔

رپورٹ کا خلاصہ اور شیخ عبد اللہ الضغیۃ کا بیان

1: کیا یہودیوں اور نصرانیوں میں سے کوئی اس وقت اپنے عقائد پر مداومت کرنے والا باقی ہے یا ایسا بچا ہے کہ وہ ملحد نہ ہوا ہو یا شیوعیت میں نہ جا پڑا ہو؟ 

2: ذبح سے متعلقہ امور سر انجام دینے والے ملازمین کی اکثریت دہریوں اور بت پرستوں کی ہے۔ 

3: کیا ہم اس درآمد شدہ گوشت کو صرف اس بناء پر کھا لیں کہ ان کی پیکنگ پر لکھا ہوتا ہے کہ "اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا" یا اس حدیث مبارکہ کو نظر میں رکھیں جس میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ: "اُس چیز کو چھوڑ کر جو تمہیں شک میں ڈالنے والی ہے، وہ اختیار کرو جس میں شک نہ ہو۔" اسے ترمذی اور دیگر نے روایت کیا ہے۔ اور کیا وہ حدیث بھی پیش نظر نہیں رہنی چاہیے جس میں مشتبہات سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے؟

4: انہوں نے آٹو میٹک مذبح خانے کو چھپاتے ہوئے صرف وہ جگہ دکھائی جہاں مسلمانوں کی ایک اقلیت وہاں رہنے والے مسلمانوں کیلئے درست طریقے سے ذبیحے کا اہتمام کرتی ہے۔ اگر آٹومیٹک مذبح خانے میں اسلامی اصولوں کا خیال رکھا جاتا تو اسے چھپانے کی ضرورت محسوس نہ کی جاتی اور اس کا معائنہ بھی کرا دیا جاتا۔

5: مرغی فیکٹری سے اس حال میں برآمد ہوتی ہے کہ اس کے پر نوچ لیے گئے ہوتے ہیں، وہ مردہ ہوتی ہے جبکہ اُس کا سر کٹا ہوا نہیں ہوتا نہ ہی اس کی گردن پر ذبح کی کوئی علامت ہوتی ہے۔ اس بات کا اقرار مذبح خانے میں کام کرنے والے ایک انگریز نے کیا۔ اور ان کا یہ ماننا ہے کہ ذبح کا اسلامی طریقۂ کار وحشیانہ ہے جبکہ خون کا گوشت کے اندر رہنا اسے بھاری بنانے میں مدد دیتا ہے اور زیادہ منافع بخش ہے۔

7: تجویز ہے کہ ایسے افراد کو بھیجا جائے جو ذبح کرنے والوں اور "ادہان" کی نگرانی کریں۔
دیگر رپورٹس بھی ہیں جنہیں طوالت کے خوف سے چھوڑا جارہا ہے۔

11: مندرجہ بالا علماء کے بیانات اور داعیانِ اسلام کے مشاہدوں اور رسائل میں چھپنے والی تحریروں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غیر مسلم ممالک سے مسلم ممالک کو برآمد کیے جانے والے مرغیوں اور دیگر پرندوں اور جانوروں مثلاً گائے وغیرہ کا گوشت، اور ڈبوں میں محفوظ کیا جانے والا گوشت مثلاً (پولی بیف) اور بیل کا شوربہ جسے (کیف اکسو) کے نام سے جانا جاتا ہے، اور "فراخ" کا شوربہ جس میں نوڈلز بھی ہوتے ہیں۔ اور اسی طرح "صفیح" پیکٹوں میں بند گوشت اور اس طرح کا دیگر تمام گوشت جو یورپ، آسٹریلیا، امریکا اور دیگر غیر مسلم ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے، اُس کا کھانا مسلمانوں کیلئے حلال نہیں ہے اور اس کا استعمال دعوتوں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں کرنا ناجائز ہے۔ یہاں تک کہ اس بات کا پورے یقین کے ساتھ علم نہ ہوجائے کہ ذبح کرنے والا مسلمان یا اہلِ کتاب کا ایسا فرد ہے جو اپنے دین پر پوری طرح قائم ہے اور ذبیحہ اسلامی شرائط کے عین مطابق ہے۔ اور لگتا ہے کہ یہ تیقن حاصل کرنا ایک امرِ محال ہے جس کی چند ایک وجوہات یہ ہیں:
اولا: ذبح کرنے والے کے دین سے ناواقفیت، اور اس سے واقف ہونے کیلئے کوئی راہ نہیں ہے کیونکہ وہ ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں بت پرست، دہریے اور دیگر مشرکین موجود ہیں۔ پس یقین یا غالب گمان کا حصول نہیں ہوسکتا کہ ذبح کرنے والا اہل کتاب میں سے ہے۔ بلکہ غالب گمان یہ ہے کہ ذبح کرنے والا ان کے علاوہ میں سے ہو کیونکہ نصاریٰ میں سے اکثر نے اپنے دین کو گردنوں سے اتار پھینکا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ذبیحے کے معاملے میں بھی وہ اپنے دین کے اصولوں سے دور چلے گئے ہیں۔ وہ تمام ادیان کا مذاق اڑاتے ہیں اگرچہ ان کے نام نصاریٰ کے ناموں کی طرح ہی ہیں۔ اور انہیں مختلف سطحوں پر نصاریٰ ہی کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ مگر یہ انہیں اہلِ کتاب باور کرانے کیلئے کافی نہیں ہے جب تک وہ اپنے باطل عقیدے سے اُس عقیدے کی طرف نہ لوٹ جائیں جس پر وحی کے نزول کے وقت تھے۔ پس ان کا ذبیحہ حلال نہیں اور نہ ہی اُس تحریر کا کوئی اعتبار ہے جو اس گوشت پر لکھی ہوتی ہے کہ "اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا" کیونکہ یہ تجارت کو وسعت دینے کا ایک حیلہ ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ جیسا کہ مختلف داعیان نے اپنی رپورٹس میں اس کا ذکر کیا۔ 

ثانیا: اسلامی ممالک کو گوشت برآمد کرنے والی کمپنیاں ذبیحے میں اسلامی طریقۂ کار کا خیال نہیں رکھتیں بلکہ جانوروں کو برقی رو، خاص قسم کے پسٹل سے ان کے سروں پر فائر کرکے یا پھر ایسے ہی دیگر غیر اسلامی طریقوں سے ہلاک کیا جاتا ہے۔ پھر انہیں اُس وقت تک ذبح نہیں کیا جاتا جب تک وہ "میتۃ" (مُردار) کے حکم میں نہیں آجاتیں۔ اور بعض رپورٹس میں آیا ہے کہ مرغی اس حالت میں آٹومیٹک مشینوں سے برآمد ہوتی ہے کہ اُس کے پر نوچ لیے گئے ہوتے ہیں، وہ مر چکی ہوتی ہے مگر اُس کا سر اُس کے ساتھ جڑا ہوا اور بالکل سالم ہوتا ہے اور گردن پر ذبح کیے جانے کا کوئی نشان موجود نہیں ہوتا۔ مصیبت تو یہ ہے کہ دراصل یہ کمپنیاں اسلامی ذبیحے کے طریقۂ کار سے واقف ہی نہیں ہیں نہ یہ جانتی ہیں کہ ذبح کا مقام گردن اور لبۃ ہوتا ہے۔ اور ذبح کیلئے اس کے علاوہ کسی اور مقام کا انتخاب بالاجماع ناجائز ہے۔

ثالثا: ذبیحے پر اللہ تعالیٰ کا نام لینا ایک لازم امر ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسے ذبیحے کے کھانے سے منع فرمایا ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور اسے "فسق" کہا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: 

"اور جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ کہ اس کا کھانا گناہ ہے"(الانعام:121)
یہ آیت ایسے ذبیحے کے کھانے کو حرام کرتی ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ محمد تقی عثمانی کہتے ہیں: "یہ بات یقینی طور پر ثابت ہے کہ نصاریٰ ذبح کے وقت اللہ کا نام نہیں لیتے، اور راجح اور سب اہلِ علم کے ہاں قابل قبول قول یہی ہے کہ اہلِ کتاب کے ذبیحوں کی حلت کیلئے بھی تسمیہ شرط ہے"۔ 

(بحوث فی قضایا فقہیۃ معاصرۃ/ج-2/ص-55)
ایک اور مقام پر فقہائے کرام کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "یہ فقہی عبارات اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ جمہور ائمہ لازم قرار دیتے ہیں کہ جانور کو ذبح کرتے وقت خاص طور پر جانور کے تعین کے ساتھ اس پر اللہ کا نام لیا جائے ، اور یہ ذبح کے وقت ہو اور یہ ذبیحے سے دور نہ ہو۔ اور یہ شروط آٹومیٹک مشین کے استعمال میں مفقود ہیں۔ کیونکہ اگر اس مشین کو آن کرنے والا اسے آن کرتے وقت بسم اللہ پڑھ لے تو یہ تعین کے ساتھ ہر پرندے یا جانور کے ساتھ خاص نہیں ہوسکا جبکہ اس کے تسمیہ اور مرغیوں کو ذبح کرنے والے آلات کے مابین فاصل وقت بھی بہت بڑا ہے جو بڑھ کر پورے دن تک بھی پھیل سکتا ہے۔ پس یہ بات ظاہر ہے کہ یہ تسمیہ تمام جانوروں کی مجموعی حلت کیلئے کافی نہیں ہے۔ یہ اُس بات کے قریب ہے جسے ابن قدامہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ: "اگر کسی نے بکریوں کا ریوڑ دیکھا اور بسم اللہ پڑھی، پھر ان میں سے ایک بکری پکڑ کر بغیر بسم اللہ پڑھے اسے ذبح کیا تو وہ حرام ہے۔" 

(بحوث فی قضایا فقہیۃ معاصرۃ/ ج-2/ص-45)
رابعاً: یہ گوشت ایسے ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے جن کی یہ عادت بن چکی ہے یا پھر اکثر و بیشتر ان کا طریقۂ کار یہی ہوتا ہے کہ جانور کو گلا گھونٹ کر یا اُس کے سر پر وار کرکے، یا برقی جھٹکے دے کر پھر اسے ذبح کرتے ہیں اور ذبیحے کے وقت تسمیہ پڑھنے کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ اور یہ کہ ان میں سے اکثریت اپنے دین سے نکل چکی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات کم از کم یہ شبہہ ضرور پیدا کرتی ہے کہ جن جانوروں کا گوشت درآمد کیا جارہا ہے، اُن کا ذبیحہ کرنے والے ایسے لوگ تھے جن کا ذبیحہ حلال ہو؟ اور یہ کہ کیا یہ ذبیحہ شرعی اصولوں کے مطابق کیا گیا ہے یا نہیں؟
اور جب معاملہ احتیاط اور اباحت کے مابین ہو تو احتیاط کو ترجیح دی جائے گی۔ اور جب بات حلال اور حرام کی ہو تو حرمت کو ترجیح دی جائے گی چاہے یہ ذبیحوں کے معاملے میں ہو یا کسی اور معاملے میں۔ جیسا کہ ایک سے زائد اہلِ علم نے ایسا کہا ہے۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جو صحیحین اور ان کے علاوہ کتب حدیث میں مروی ہے کہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:

"اگر تم نے اپنا سدھایا ہوا کتا (شکار پر) بھیجا اور بسم اللہ پڑھی ہو تو (شکار کو) کھا لو۔ اگر تم نے اس کے ساتھ کوئی اور کتا بھی دیکھا تو پھر مت کھاؤ"

پس یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر سدھائے ہوئے کتے کے ساتھ ایک ایسا کتا جو کہ غیر تربیت یافتہ ہو، پایا گیا تو دوسری جانب کا زیادہ خیال رکھتے ہوئے یہ شکار نہیں کھایا جائے گا۔ اس شکار میں مباح چیز یعنی سدھائے ہوئے کتے کا بھیجا جانا اور حرام چیز یعنی غیر تربیت یافتہ کتے کی موجودگی دونوں جمع ہوگئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھانے سے منع فرمادیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
"اگر تم نے اسے اپنے تیر سے زخمی کردیا اور وہ پانی میں جا گرا تو اسے مت کھاؤ" (متفق علیہ)۔ 

اور جامع ترمذی کی ایک روایت کے مطابق فرمایا: 

"اگر تم نے یہ بات جان لی کہ تمہارے تیر نے اسے مارا ہے اور تم اس میں درندے کا کوئی اثر نہ دیکھو تو اسے کھالو" 
اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن صحیح قرار دیا ہے جو عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ جو کچھ بیان کیا گیا اُس کے پیش نظر غیر مسلم ممالک سے درآمد کیے جانے والے گوشت کا کھانا حرام ہے اور جو احادیث بیان کی گئیں، اُن سے جن شرعی قواعد کا علم حاصل ہوا وہ اس کی حرمت کی دلیل ہیں جیسا کہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ایسے شکار سے منع کردیا گیا جس میں سدھائے ہوئے کتے کے ساتھ غیر تربیت یافتہ کتا شامل ہوجائے۔ اور وہ حدیث بھی اس گوشت کی حرمت کی دلیل ہے جس میں شکار ہونے والا جانور تیر کھانے کے بعد پانی میں جاگرے تو یہ احتمال کہ اُسے پانی نے ہلاک کیا ہو، اس جانور کی حرمت کا باعث بن گیا۔ 
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کہ: 

"ایک قوم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ: "ہمارے پاس ایک قوم گوشت لے کر آئی ہے، ہمیں علم نہیں کہ انہوں نے اس پر اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں" تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اُس پر اللہ کا نام لو اور اُسے کھا لو"،
اُن لوگوں کیلئے دلیل نہیں جنہوں نے اِس سے یہ گوشت کھانے کا جواز نکالا ہے کیونکہ یہ حدیث مسلمانوں کی ایک قوم کے بارے میں ہے۔ مگر یہ کہ وہ نو مسلم تھے۔ بخلاف اس درآمد کنندہ گوشت کے، کہ ان جانوروں کو ذبح کرنے والے مسلمان نہیں اور نہ اہلِ کتاب میں سے ہیں بلکہ ان کی حالت مجہول ہے۔
خامساً: اور مسلمان کو چاہیے کہ وہ احتیاط کا راستہ اختیار کرے اور اس چیز سے اجتناب کرے جس کے حلال ہونے میں شبہ واقع ہو اور ایسا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول مبارک کو پیش نظر رکھتے ہوئے کرے کہ: "جو تمہیں شک میں ڈالے اُسے چھوڑ کر وہ اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالتا ہو۔" (ترمذی، نسائی، احمد) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول مبارک کے پیش نظر بھی ایسا کرنا چاہیے کہ آپ نے فرمایا ہے: ""یقینا حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے لیکن حلال و حرام کے درمیان ایسی چیزیں ہیں جو دونوں سے ملتی ہیں، یعنی ان میں شبہہ ہے۔ اور ان کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ تو جو شبہات سے بچا، وہ اپنے دین اور آبرو کو سلامت لے گیا اور جو شبہات میں پڑا، وہ آخر حرام میں بھی پڑا اس چرواہے کی طرح جو حِما (یعنی روکی ہوئی زمین) چراگاہ کے آس پاس چراتا ہے۔ قریب ہے کہ اسکے جانور حِما کو بھی چر جائیں گے۔ " (متفق علیہ) اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے: "و من اجترأ علی ما یشک فیہ من الاثم اوشک ان یواقع ما استبان"، اور جو کچھ اس گوشت کی پیکنگ پر لکھا ہوتا ہے (اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا) اور اس کی تصدیق ایسوں کی جانب سے کی گئی جنہوں نے نہ خود اس ذبیحے کو ہوتے ہوئے دیکھا نہ ان کے کسی نائب نے دیکھا، اور اس کے بدلے وہ اجرت لیتے ہیں، تو یہ اسے حلال نہیں کرتی۔ کیونکہ تصدیق کرنے والے یہ لوگ یا تو قادیانیوں میں سے ہوسکتے ہیں، یا پھر دین کے معاملات میں سستی کرنے والے ایسے افراد کی جانب سے یہ تصدیق کی جاتی ہے جنہیں سب سے زیادہ فکر اپنے پیٹ کی ہوتی ہے جیسا کہ مندرجہ بالا رپورٹس میں ذکر کیا گیا۔
12: نصیحتیں
أ: حلال جانوروں کی پرورش میں کثرت کی جائے، اور جس قدر ان کی ضرورت ہو انہیں زندہ حالت میں ہی درآمد کیا جائے۔ اور ان کی اسلامی ممالک ہی میں پرورش اور ذبیحوں کیلئے مناسب جگہ تیار کی جائے۔ اور ان کی سپلائی کے طریقوں کو آسان کیا جائے۔ اور ایسا ہی معاملہ پنیر، گوشت کو ڈبوں میں بند کرنے، تیلوں اور دیسی گھی وغیرہ کی فیکٹریوں کے ساتھ بھی کیا جائے۔ 
ب: جن ممالک سے گوشت کو اسلامی ممالک میں درآمد کیا جانا مقصود ہو، وہاں مسلمانوں کی جانب سے مذبح خانوں کا قیام یقینی بنایا جائے اور جانوروں کے شرعی طریقے سے ذبیحے کا خیال رکھا جائے۔
ج: مسلمان ملازمین کا مذکورہ کمپنیوں میں بھرتی کیا جانا جو شرعی ذبیحے کی شرائط سے واقف ہوں اور اس بات کا خیال رکھ سکیں کہ وہاں ذبیحہ بالکل شرعی طریقے کے مطابق کیا جارہا ہے جس قدر کہ اسلامی ممالک کو درآمد کی ضرورت ہو۔
د: اسلامی حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ غیر مسلم ممالک سے گوشت کی درآمد کے متعلق سخت قوانین نافذ کرے اور ان کی اسلامی ممالک میں درآمد پر اُس وقت تک پابندی لگائیں جب تک معتبر اسلامی ذرائع سے اس کی تصدیق نہ ہوجائے کہ یہ ذبیحے حلال ہیں اور شرعی قواعد کے عین مطابق کیے گئے ہیں۔
ھ : مسلمان تاجروں پر لازم ہے کہ وہ گوشت کی درآمد کے معاملے میں پوری احتیاط سے کام لیں اور صرف اس تحریر سے دھوکہ نہ کھائیں جو اس گوشت کی پیکنگ پر ہوتی ہے کہ (اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا) کیونکہ یہ عبارت وہ لوگ لکھتے ہیں جن کیلئے تھوڑی سی مادی منفعت کی چکاچوند میں اور کچھ دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ پس تاجر محتاط ہوجائیں کہ وہ حرام نہ کھالیں اور نہ ہم حرام کھائیں۔
و: کہا گیا ہے کہ یہود اس بات کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں کہ ذبیحہ ان کے عقیدے کے مطابق ہو۔ پس اس مقصد کیلئے انہوں نے اپنے خاص مذبح خانے قائم کیے ہیں جہاں ان کے ملازمین ان کیلئے اُسی طرح ذبیحہ کرتے ہیں جیسا وہ چاہتے ہیں۔ پس مسلمان ان سے زیادہ استحقاق رکھتے ہیں اور اولیت بھی۔ اس بناء پر کہ وہ مغرب سے درآمد شدہ گوشت اور دیگر مصنوعات کے کہیں زیادہ استعمال کرنے والے ہیں۔ اور اس بناء پر بھی کہ اہلِ مغرب کو اُس گوشت اور دیگر مصنوعات کی کھپت کی بھی ضرورت ہے جو ان کے پاس موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق دینے والے ہیں۔ و صلی اللہ علیٰ سیدنا و نبینا محمد و آلِہِ و اصحابہ وسلم۔

(یہ تحریر 8 جون ۲۰۱۰ میں اسلامی سیکشن میں پوسٹ کی جاچکی ہے)

تبصرے