نماز کی اہمیت اور "صلوٰۃ" کا مفہوم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ وحدہُ والصلاۃُ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہُ و بعد۔۔

]"صلوٰۃ" (نماز) کا مفہوم:
لغوی معنی:
"صلوٰۃ" (نماز) کے لغوی معنی "دعا" کے ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَ]صَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ ]صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
ترجمہ: "(اے پیغمبر!) ان لوگوں کے اموال میں سے صدقہ وصول کرلو جس کے ذریعے تم انہیں پاک کردو گے اور ان کیلئے باعثِ برکت بنو گے، اور اُن کیلئے ]دعا کرو۔ یقینا! تمہاری ]دعا ان کیلئے سراپا تسکین ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔"
(سورۃ التوبہ:103)


جبکہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"اذا دعى أحدكم فليجب فاِن كان صائماً ]فليصلِ و اِن كان مفطراً فليطعم"
ترجمہ: "جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو وہ اسے قبول کرلے پھر اگر وہ روزے سے ہو تو ]دعا کردے اور اگر روزے سے نہ ہو تو (طعام) کھالے"
(صحیح مسلم، کتاب النکاح)

اور اللہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی بہترین ذکر کے ہیں جبکہ ملائکہ کی طرف سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا ہی کے لیے جائیں گے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
ترجمہ: "بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اُن پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو"
(سورۃ الاحزاب:56)


اس کی تفسیر میں ابوالعالیہ فرماتے ہیں: "اللہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرشتوں کے درمیان تعریف کے ہیں، جبکہ ملائکہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا کے ہیں"۔
(رواہ البخاری معلقاً)

جبکہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: "صلوٰۃ پڑھتے ہیں، (یعنی) برکت (کی دعا) دیتے ہیں"
(رواہ البخاری معلقاً)

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے صلوٰۃ کے معنی رحمت کے ہیں جبکہ ملائکہ کی جانب سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں۔ البتہ راجح قول اول ہی ہے۔
(تفسیر ابنِ کثیر)

پس "صلوٰۃ" اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ثناء کے معنی میں ہے جبکہ مخلوقین یعنی ملائکہ، انس اور جنات کی جانب سے یہ قیام، رکوع، سجود اور دعاء کے معنی میں ہے۔ پرندوں اور دیگر حیوانوں کی "صلوٰۃ" کے معنی "تسبیح" کے ہیں۔
(لسان العرب، باب الیاء فصل الصاد)

شرعی معنی:
شریعتِ مطہرہ میں "صلوٰۃ" (نماز) کے معنی: "اللہ کی عبادت کرنا، بعض مخصوص اور معلوم افعال اور اقوال کے ذریعے۔ جس کی ابتدا تکبیر سے ہوتی ہے جبکہ اختتام سلام پھیرنے پر ہوتا ہے۔ اور اسے "صلوٰۃ" (بمعنی دعا) کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں دعا بھی شامل ہے"
(المغنی لابن قدامہ، الشرح الکبیر، الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف، التعریفات للجرجانی)

شیخ الاسلام حافظ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"صلوٰۃ" دعا ہی کا ایک نام تھا پھر یہ (نماز کی) دعا سے مناسبت کی وجہ سے شرعی نماز کا بھی نام ہوگیا۔ اور یہ دونوں باتیں آپس میں قریب ہیں۔ پس جب بھی شریعت میں "صلوٰۃ" (نماز) کہا جائے تو اس سے نماز کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا جاتا۔ (یعنی شریعت میں لفظ "صلوٰۃ" اس مخصوص عبادت نماز ہی کیلئے خاص ہوگیا)
(شرح العمدۃ)

نماز دعا کی اِن ہر دو اقسام پر مشتمل ہے:
دعائے مسئلہ: اس کے معنی ہیں ایسی چیز مانگنا جو سائل کیلئے مفید ہو مثلاً (دنیوی و اخروی) نفع طلب کرنا اور شرور و ضرر کے دور ہونے کی دعا مانگنا، بذریعۂ مقال اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنی حاجت برآری طلب کرنا۔
دعائے عبادت: اس کے معنی اعمال صالحہ یعنی قیام، قعود، رکوع اور سجود کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب طلب کرنے کے ہیں۔ پس جس نے یہ سب عبادات انجام دیں گویا اس نے بہ زبانِ حال اپنے رب سے اپنی مغفرت کی دعا کی۔
(شروط الدعاء و موانع الاجابۃ، فتح المجید، القول المفید علی کتاب التوحید)

]شریعت میں نماز کا حکم:
قرآن مجید، احادیثِ نبویہ اور اجماعِ امت سے نماز ہر مسلمان، عاقل و بالغ مرد اور عورت پر فرض ہے۔ کلامِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا
ترجمہ: بے شک نماز مسلمانوں کے ذمے ایک ایسا فریضہ ہے جو وقت کا پابند ہے" (سورۃ النساء:103)

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
ترجمہ: "تمام نمازوں کا پورا پورا خیال رکھو، اور (خاص طور پر) بیچ کی نماز کا۔ اور اللہ کے سامنے با ادب فرماں بردار بن کر کھڑے ہوا کرو"۔ (سورۃ البقرۃ: 238)
بیچ کی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے (آسان ترجمۂ قرآن)

ایک اور مقام پر فرمانِ الہٰی ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ
ترجمہ: اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یکسو ہوکر صرف اُسی کیلئے خالص رکھیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور یہی سیدھی سچی امت کا دین ہے۔" (سورۃ البینہ:5)

اور ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کا اقرار کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا"۔
(متفق علیہ، رواہ البخاری فی کتاب الایمان و المسلم فی صحیحہ فی کتاب الایمان ایضاً)

علاوہ ازیں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اہلِ یمن کی جانب روانہ کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا: "ان کو دعوت دے کہ وہ اس بات کا اقرار کریں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اگر وہ تیری یہ بات مان لیں تو ان کو بتادے کہ اللہ نے تم پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں"۔
(بخاری، کتاب الزکاۃ)

ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوپر لکھ دی ہیں (فرض کردی ہیں)" ۔۔
(عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کا ابتدائی حصہ جسے امام ابوداود نے اپنی سنن میں کتاب الصلاۃ میں روایت کیا ہے)

نماز کے وجوب پر امت کے اجماع سے متعلق ابنِ قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "امت مسلمہ کا پانچ نمازوں کے دن اور رات میں وجوب پر اجماع ہے"
(المغنی)

البتہ خواتین پر حیض اور نفاس کے دوران نماز فرض نہیں ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "کیا ایسا نہیں ہے کہ عورت جب حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟"
(صحیح البخاری، کتاب الحیض)



]نماز کی اہمیت:
1: نماز دین کا ستون ہے:
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "اصل دین اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور اس کی عظمت و بلندی (کا نشان) اللہ کے راستہ میں جہاد ہے"۔ (صحیح مسلم)
اور ستون کے گرنے پر اس پر استوار عمارت کا گرنا بھی لازمی ہے۔

2: سب سے پہلے نماز کی پرسش:
روزِ محشر تمام اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کی بابت استفسار کیا جائے گا۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "سب سے پہلے بندے سے جس چیز کا حساب لیا جائے گا، وہ نماز ہے۔ پس اگر یہ (حساب) ٹھیک ہوگیا تو اس کا سارا عمل ٹھیک ہوجائے گا اور اگر یہ خراب ہوگیا تو اس کا سارا عمل خراب ہوجائے گا۔
(اخرجہ الطبرانی فی الاوسط)

اور ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "قیامت کے دن لوگوں کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔ (پھر آپ نے) فرمایا "اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرمائیں گے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں (اس کے باوجود پوچھیں گے تاکہ اتمامِ حجت ہوجائے) کہ میرے بندے کی نماز دیکھو اس نے پوری کی ہے یا کم رکھی ہے؟ اگر نماز پوری ہوگی تو اس کیلئے پوری نماز لکھ دی جائے گی۔ اور اگر کم ہوگی تو (اللہ تعالیٰ) فرمائیں گے "دیکھو آیا میرے بندے کے پاس نفل نمازوں میں سے کچھ ہے؟" پھر اگر نفل میں سے کچھ ہوا تو فرمائیں گے کہ "میرے بندے کے فرائض کو اس کے نوافل میں سے پورا کردو۔" پھر باقی اعمال بھی اسی طرح لیے جائیں گے۔"
(سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ)

3: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو آخری وصیت نماز:
حضرت امِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ فرمایا: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت (یہ تھی) "نماز، نماز اور تمہارے زیرِ دست (لونڈی غلام)" ۔۔۔
(مسند امام احمد)

4: نماز قائم کرنے والوں اور اس کے قیام کا حکم دینے والوں کی تعریف:
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا ](54) وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا ](55)
ترجمہ: "اور اس کتاب میں اسماعیل کا بھی تذکرہ کرو۔ بیشک وہ وعدے کے سچے تھے، اور رسول اور نبی تھے۔ اور وہ اپنے گھر والوں کو بھی نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا کرتے تھے اور اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے۔" (سورۃ المریم: 54،55)

5: ارکانِ اسلام میں شہادتین کے بعد سب سے پہلا اور اہم رکن:
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کا اقرار کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا"۔
(متفق علیہ)

(شہادتین کے معنی اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کی گواہی دینا)


6: نماز کی اہمیت کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کی فرضیت بواسطۂ حضرت جبریل علیہ السلام بذریعہ وحی نہیں فرمائی۔ بلکہ لیلۃ الاسراء (شبِ معراج) میں سات آسمانوں سے اوپر امتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام پر نماز فرض کی گئی۔

7:آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں۔ فرمانِ الٰہی ہے:
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
ترجمہ: "اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو، اور خود بھی اُس پر ثابت قدم رہو۔ ہم تم سے رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم دیں گے۔ اور بہتر انجام تقویٰ ہی کا ہے۔ (سورۃ طہٰ : 132)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنی اولاد کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں، نماز کا حکم کرو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز کیلئے سرزنش کرو اور ان کے سونے کے بستر الگ کردو"
(رواہ الترمذی و حسنہ)


نماز کی دیگر عبادات کے مقابلے میں خاصیتیں:

1: نماز کو ایمان کا نام دیا جانا:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ
ترجمہ: "اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو ضائع کردے۔ درحقیقت اللہ لوگوں پر بہت شفقت کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (البقرۃ:143)

اس آیت میں ایمان سے مراد وہ نمازیں ہیں جو بیت المقدس کی جانب رُخ کرکے ادا کی گئیں۔ اور یہاں نماز کو "ایمان" کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ یہ ایک مسلمان کے قول اور عمل دونوں کی تصدیق کرتی ہے۔


2: دیگر عبادات کے مقابلے میں خصوصیت سے اس کا ذکر:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ
ترجمہ: "(اے پیغمبر) جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی گئی ہے، اس کی تلاوت کرو، اور نماز قائم کرو۔" (العنکبوت:45)

کتاب کی تلاوت بمعنی "اس کی اتباع اور اس میں جو اوامر و نواہی ہیں ان پر عمل درآمد کرنا" کے ہے۔ اس میں نماز بھی شامل ہوجاتی ہے مگر اس کے بعد نماز کا دیگر شرعی امور سے علیحدہ طور پر، بطورِ خاص بھی ذکر کیا گیا۔

ایک اور مقام پر فرمایا:
وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ
ترجمہ: "اور ہم نے وحی کے ذریعے انہیں نیکیاں کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید کی تھی (الانبیاء:73 کا کچھ حصہ)

ایک مرتبہ تو "فعل الخیرات" میں نماز بھی داخل ہوگئی کیونکہ یہ بھی ایک عظیم فعلِ خیر ہے مگر اس کی اہمیت کے پیشِ نظر دوبارہ الگ سے بھی اس کا ذکر کیا گیا۔

3: قرآن مجید میں بیشتر عبادات کے ہمراہ اولیت کے ساتھ نماز کا تذکرہ:

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآَتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ
ترجمہ: "اور نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ ادا کرو، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔" (البقرۃ:43)

اور فرمایا:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
ترجمہ: "کہہ دو کہ: "بے شک میری نماز، میری عبادت اور میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے"۔ (الانعام:162)

ایک اور مقام پر فرمایا:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
ترجمہ: "لہٰذا تم اپنے پروردگار (کی خوشنودی) کیلئے نماز پڑھو، اور قربانی کرو" (الکوثر:2)

ان آیات میں زکوٰۃ اور قربانی کے ساتھ نماز کا ذکر ہے اور ان عبادات کے ذکر پر مقدم بھی ہے۔ ان کے علاوہ بھی دیگر کثیر آیات میں نماز کے ہمراہ دیگر عبادات کا ذکر موجود ہے۔

4: نماز ہر حال میں فرض ہے:
نماز کی دیگر عبادات کے مقابلے میں ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہر حال میں فرض ہے (حالتِ حیض و نفاس کے استثناء کا ذکر اوپر ہوچکا) چاہے انسان مریض ہو، سفر میں ہو، حالتِ خوف میں ہو یا اس کے علاوہ کسی حال میں۔ یہ ضرور ہے کہ خصوصی حالات میں اس کی ادائیگی میں سہولت کی خاطر کبھی رکعات میں تخفیف کی گئی ہے اور کبھی بیٹھ کر، لیٹ کر اشارے سے پڑھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔

6: جمیع اعضائے انسانی کی عبادت:
نماز دیگر عبادات سے یوں بھی ممتاز ہے کہ اس میں انسان کے تمام اعضاء استعمال ہوتے ہیں حتیٰ کہ نماز کی ادائیگی کے وقت کسی سوچ کا دل میں لانا بھی ممنوع ہے۔ زبان ذکر میں مشغول ہوتی ہے اور ہاتھ پاؤں قیام، رکوع، سجود و تشہد میں۔

]تارکِ نماز قرآن و حدیث کی روشنی میں:

1: يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ ](42)خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ ](43)
ترجمہ: "جس دن ساق کھول دی جائے گی، اور ان کو سجدے کیلئے بلایا جائے گا تو یہ سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی، ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی۔ اس وقت بھی انہیں سجدے کیلئے بلایا جاتا تھا جب یہ لوگ صحیح سالم تھے، (اس وقت قدرت کے باوجود یہ انکار کرتے تھے)" (سورۃ القلم:42،43)

ان آیات سے علمائے کرام نے دلیل لی ہے کہ تارکِ نماز بھی اس وقت میں کفار اور منافقین کی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو سجدہ نہیں کرسکے گا جیسا کہ مسلمان اس موقع پر کریں گے۔ اگرچہ وہ مسلمانوں میں سے ہو۔ کیونکہ انہیں بھی سجدے (نماز) کا حکم دیا گیا تھا جیسا کہ دیگر مسلمانوں کو دیا گیا تھا۔

 نماز نہ پڑھنا دوزخ جانے کا ایک بہت بڑا سبب:
كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ ](38) إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ ](39) فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ ](40) عَنِ الْمُجْرِمِينَ ](41) مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ](42) قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ](43)
ترجمہ: "ہر شخص اپنے کرتوت کی وجہ سے گروی رکھا ہوا ہے، سوائے دائیں ہاتھ والوں کے کہ وہ جنتوں میں ہوں گے۔ وہ پوچھ رہے ہوں گے۔ مجرموں کے بارے میں، کہ "تمہیں کس چیز نے دوزخ میں داخل کردیا؟" وہ کہیں گے کہ : "ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے،" (سورۃ المدثر:38 تا 43)

3: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز ہے۔ پس جس نے اسے چھوڑا اس نے کفر کیا"


(صحیح مسلم)




4: حضرت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے، چنانچہ جس نے بھی نماز ترک کی اس نے کفر کیا"

(ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ، حاکم و صححہ و وافقہ الذہبی)

ان دونوں احادیث میں تارکِ نماز کیلئے وعیدِ شدید ہے۔

5: نماز دین کا ستون ہے اور جس طرح ستون کے بغیر عمارت کا قیام ناممکن ہے اسی طرح نماز کے بغیر اسلام بھی ناقص ہے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "اصل دین اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور اس کی عظمت و بلندی (کا نشان) اللہ کے راستہ میں جہاد ہے"
(صحیح مسلم)

]نماز کی فضیلت:
1: نماز بے حیائی اور برے کاموں سے بچاتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ](45)
ترجمہ: "(اے پیغمبر) جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی گئی ہے، اس کی تلاوت کرو، اور نماز قائم کرو۔ بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے، اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سب کو جانتا ہے" (سورۃ العنکبوت: 45)

2: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا عمل افضل (اجر و ثواب میں زیادہ) ہے؟ آپ نے فرمایا: "نماز پڑھنا اپنے وقت پر" میں نے کہا پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: "ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا" میں نے پوچھا کہ پھر کون سا؟ فرمایا: "اللہ کی راہ میں جہاد کرنا"۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان)

3: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنے گھر میں طہارت کرے پھر اللہ کے کسی گھر میں جائے کہ اللہ کے فرضوں میں سے کسی فرض کو ادا کرے تو اس کے قدم ایسے ہوں گے کہ ایک (قدم رکھنے سے) اس کے گناہ معاف ہوں گے جبکہ دوسرے سے اس کے درجات بلند ہوں گے"۔
(صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضیع الصلاۃ)

4:فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو (یہ تینوں) درمیانی عرصہ کے گناہوں کو ختم کردیتے ہیں"۔
(صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ)

5: نیکیوں کا لکھا جانا، درجات کی بلندی اور گناہوں کا مٹایا جانا:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "تم سجدے بہت کیا کرو اس لیے کہ ہر سجدے پر اللہ تعالیٰ تیرا ایک درجہ بلند کرے گا اور ایک گناہ معاف کرے گا"۔
(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ)

6: جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرافقت کا باعث:
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہا کرتا اور آپ کے پاس وضو اور حاجت کا پانی لایا کرتا۔ ایک بار آپ نے فرمایا: "مانگ کیا مانگتا ہے؟" میں نے عرض کیا کہ جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا "کچھ اور" میں نے عرض کیا بس یہی۔ تو آپ نے فرمایا "اچھا تم کثرتِ سجود سے میری مدد کرو"۔
(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ)

7: جنت میں مہمانی:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص صبح کو یا شام کو مسجد میں گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے جنت میں ضیافت (مہمانی) تیار کی ہر صبح اور شام میں"۔
(صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضیع الصلاۃ)

8: دو نمازوں کے مابین کی گناہوں کا مٹایا جانا:
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے "جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر نماز پڑھے تو اس کے وہ گناہ بخش دیئے جائیں گے جو اس نماز سے لے کر دوسری نماز تک ہوں گے"۔
(صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ)

9: پہلے کے تمام گناہوں کا کفارہ:
عمرو بن سعید بن عاص روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا، انہوں نے وضو کا پانی منگوایا۔ پھر کہا "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا "جو کوئی مسلمان فرض نماز کا وقت پائے پھر اچھی طرح وضو کرے اور دل لگا کر نماز پڑھے، اور اچھی طرح رکوع اور سجدہ کرے تو یہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گی جب تک کبیرہ گناہ نہ کرے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوا کرے گا۔"
(صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ)

10: نمازی کیلئے ملائکہ کی دعا:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی کی جماعت سے نماز اس کے گھر اور بازار کی نماز سے بیس پر کئی درجے افضل ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی نے جب وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر مسجد کو آیا اور نماز کے علاوہ کسی (حاجت) نے نہیں اٹھایا اور نماز کے علاوہ اس کا اور کوئی ارادہ نہیں ہوا تو وہ کوئی قدم نہیں رکھتا مگر اس کے عوض اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور ایک گناہ گھٹا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے۔ پھر جب وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے تو جب تک وہ نماز کے انتظار میں رہتا ہے (اس کیلئے ویسا ہی اجر لکھا جاتا ہے گویا) وہ نماز ہی میں ہے اور فرشتے اس کیلئے دعائے خیر کرتے ہیں جب تک وہ اپنے مصلیٰ (نماز پڑھنے کی جگہ) پہ رہتا ہے۔ اور فرشتے کہتے ہیں کہ یا اللہ تو اس پر رحم کر یا اللہ تو اس کو بخش دے، یا اللہ تو اس کی توبہ قبول کر، جب تک کہ وہ ایذا نہیں دیتا یا جب تک وہ حدث نہیں کرتا (وضو نہیں توڑتا)"
(متفق علیہ)

11: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تم کو وہ باتیں نہ بتاؤں جن سے گناہ مٹ جائیں اور درجے بلند ہوں؟" لوگوں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول (بتائیے) ۔ آپ نے فرمایا: "وضو کا پورا کرنا سختی اور تکلیف میں (اچھی طرح وضو کرنا) اور مسجد کی طرف قدموں کا کثرت سے ہونا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہی رباط ہے۔"
(رباط کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک نفس کا عبادت کیلئے روکنا اور دوسرا وہ رباط جو جہاد میں ہوتا ہے)
(صحیح مسلم)

12: ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "پانچ نمازوں کی مثال اس میٹھی اور گہری نہر کی سی ہے جو تم میں سے کسی ایک کے دروازے (کے پاس سے گزر رہی ہو) وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ نہاتا ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ اس کے جسم پر کوئی میل باقی رہے گی؟" صحابۂ کرام رضی عنہم اجمعین نے کہا "نہیں" آپ نے فرمایا: "پانچ نمازیں بھی گناہوں کو ختم کردیتی ہیں جیسا کہ پانی میل کو ختم کردیتا ہے"
(صحیح مسلم)

13: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فرمانِ مبارک ہے: "جس مسلمان کے پاس کسی فرض نماز کا وقت آپہنچتا ہے، وہ اس کیلئے اچھے وضو، خشوع اور رکوع کا اہتمام کرتا ہے تو وہ نماز اس کے پہلے گناہوں کیلئے کفارہ بن جائے گی، جب تک کہ بڑا گناہ نہ کیا جائے اور یہ قانون ساری زندگی جاری رہتا ہے"
(صحیح مسلم)

14: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: "پانچ نمازیں اللہ نے بندوں پر لکھ دی ہیں، جو ان کی پابندی کرتا ہے اور بے قدری کرکے انہیں ضائع نہیں کرتا، اللہ کا اس کیلئے وعدہ ہے کہ وہ اسے بہشت میں داخل کرے گا اور جو پابندی نہیں کرتا، اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی وعدہ نہیں ہے، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو بخش دے"
(رواہ احمد وغیرہُ باِسناد حسن)

واللہ اعلم و صلی اللہ و سلم و بارک علی نبینا محمد و علیٰ آلِہ و صحبہِ اجمعین۔


](مضمون کی تیاری میں دکتور سعید بن علی بن وھف القحطانی کے ایک عربی رسالے سے استفادہ کیا گیا)


تبصرے