بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
شیخ سفر الحوالی نے ایک کتاب بعنوان: "یوم الغضب" تحریر کی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے زوالِ اسرائیل سے متعلق انبیاء علیہم السلام کی شہادتوں کو خود توراتی صحیفوں کی عبارات سے بطور گواہی پیش کیا ہے اور اہلِ کتاب کو سوچنے کی دعوت دی ہے۔ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور میں نے اس کے مطالعے کے دوران بالخصوص تورات اور صحیفوں میں بیان کردہ مکہ مکرمہ اور خانۂ کعبہ کی خصوصیات انتہائی حد تک درست پائیں۔ یہ خصوصیات آپ کے مطالعے کیلئے بھی پیشِ خدمت ہیں:
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
شیخ سفر الحوالی نے ایک کتاب بعنوان: "یوم الغضب" تحریر کی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے زوالِ اسرائیل سے متعلق انبیاء علیہم السلام کی شہادتوں کو خود توراتی صحیفوں کی عبارات سے بطور گواہی پیش کیا ہے اور اہلِ کتاب کو سوچنے کی دعوت دی ہے۔ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور میں نے اس کے مطالعے کے دوران بالخصوص تورات اور صحیفوں میں بیان کردہ مکہ مکرمہ اور خانۂ کعبہ کی خصوصیات انتہائی حد تک درست پائیں۔ یہ خصوصیات آپ کے مطالعے کیلئے بھی پیشِ خدمت ہیں:
"اگر یہ اہل کتاب ان سب باتوں کے بعد بھی بحث و حجت پر ہی اصرار کریں اور روشن نشاندہیوں کو آنکھیں کھول کر دیکھنے پر کسی طرح آمادہ ہی نہ ہوں ۔۔۔۔ تو یہ مکہ مکرمہ اور نئے قبلہ کے بارے میں مذکور ان عبارتوں کو آخر کیسے جھٹلائیں گے جو خود ان کی مقدس کتاب میں وارد ہوئی ہیں!؟ چنانچہ ہم انہی کے مقدس صحیفوں کی کچھ عبارتوں کا ذکر کریں گے تاکہ امریکی اور یہودی آگاہ ہوں اور وہ بھی جو ان کے پیچھے چلنے والے ہیں کہ ان لوگوں کا بلند و بانگ دعوؤں اور حسین آرزوؤں سے بڑھ کر ایمان سے کوئی رشتہ ہے اور نہ انبیاء (علیہم السلام) کی میراث سے ۔۔۔ اور یہ کہ ان کا ارضِ میعاد اور ہیکل کے پیچھے بھاگتے چلے جانا سوائے اس کے اور کسی کام نہ آئے گا کہ یہ سیدھے راستے سے اور سے اور دور ہوتے چلے جائیں اور ان پیچیدہ راہوں
میں اور سے اور بھٹکیں جن سے باہر نکلنے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں۔
لیجیے ۔۔۔ ! بیت اللہ اور اللہ کے محترم کردہ شہر (مکہ مکرمہ) کی ان صفات کا کچھ تذکرہ جو انہی کی مقدس کتاب سے لیا گیا ہے۔ اس کا بیشتر حصہ ہم حرف بحرف ذکر کریں گے اور کچھ حصہ اختصار کے پیشِ نظر بالمعنی:
(1) یہ نیا یروشلم ہوگا۔ مشیح والا یروشلم (مشیح شین کے ساتھ جس کا مطلب ہے نجات دہندہ، یعنی اس دور کا یروشلم جس میں نجات دہندہ کے آنے کا وعدہ ہے)
(2) یہ بیابانِ فاران یا کوہِ فاران میں ہے۔ جہاں اسماعیل (علیہ السلام) اور اس کی ماں نے وقت گزارا اور جہاں خدا نے ان کیلئے زمین سے چشمہ جاری کیا۔
(3) وہ شہر جس کی جانب ابراہیم (علیہ السلام) شوق و رغبت سے رُخ کیا کرتا تھا۔
(4) جس کے باشندے بنو قیدار ہیں۔ (قیدار اسماعیل علیہ السلام کے بیٹے)
(5) یہ صادق اور امین کا شہر ہے جو سب مخلوق کا سردار ہے۔
(6) اس میں کوئی ہیکل (Temple) نہیں۔
(7) ہیکلِ سلیمانی اپنی تمام شان و شوکت کے باوجود اس نئے خانۂ خدا کے سامنے کچھ بھی نہیں۔
(8) یہ نیا گھر مکعب شکل کا ہے۔
(9) اس مکعب شکل گھر میں ایک بیش قیمت پتھر ہے۔
(10) یہ گھر کسی دلہن کی طرح گجروں اور زیوروں سے سجایا جاتا ہے۔
(11) اس کا ہر بدخواہ اس سے ہیبت کھائے گا اور خوف سے اس کے قریب نہ آنے پائے گا۔
(12) اس مکعب شکل گھر کے پاس سے پانی کا ایک چشمہ بہتا ہے جس میں شفا ہے اور جو چاہے اسے بلا قیمت لے۔
(13) اس کے دروازے صبح شام کھلے رہتے ہیں اور کسی پر بند نہیں ہوتے۔
(14) اس کے پاس ہر ایک کے گھٹنے خم ہوتے ہیں۔
(15) اس کے پاس مقدس شارع ہے اور اس سے آگے کسی پلید کا گزرنا، روا نہیں۔
(16) اس میں کسی پلید چیز کا داخلہ نہیں۔ (مشرکین کو نجس کہہ کر قرآن مجید میں انہیں یہاں کے قرب سے روکا گیا۔ احمد)
(17) اس کے فرزند فرزندانِ بیت المقدس سے زیادہ ہیں۔
(18) یہاں رہنے والوں اور آ آ کر دعائیں کرنے والوں سے یہ شہر تنگ پڑ جائے گا۔
(19) بادشاہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور اس کی گرد چاٹتے ہیں۔
(20) ٹیلے اور پہاڑ فنا ہوجائیں گے مگر اس پر خدا کا احسان اور سلامتی ختم نہ ہوگی۔
(21) سمندر کے خزانے یہاں پہنچتے ہیں اور قوموں کی دولت یہاں آتی ہے۔
(22) لوگ یہاں دور دراز سے آ آکر اکٹھے ہوتے ہیں۔
(23) اس کی زمین مشرق و مغرب، سباء، مدین، فاران اور قیدار سے آنے والے اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کیلئے تنگ پڑتی ہے اور مأرب (یمن) کے مرد اس گھر کی خدمت کرتے ہیں۔
(24) اس میں ایک با برکت پہاڑ ہے، قومیں وہاں چل کر آتی ہیں کہ وہاں خدا کی عبادت کریں۔
(25) ہر ایک وہاں مساوی طور پر آزاد ہے کہ خدا کا تقرب پائے۔
(فتح مکہ کے بعد تمام قریشیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مناسک حج ادا کیے۔ قریش کا خیال تھا کہ حج کے مناسک ادا کرتے ہوئے قبیلہ قریش نے اپنے لیے جو امتیازی خصوصیات رکھ چھوڑی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آج ان کی توثیق فرما دیں گے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے تمام امتیازات مٹا کر اُن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔۔۔ از مترجم)
(26) خدا کا نام اس کے لوگوں کی پیشانی پر لکھا گیا ہے!! (سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود)
(27) اس کے گرد بندے قضائے حاجت فطری سے احتراز کرتے ہیں۔
(28) مرد کا سر ننگا ہوتا ہے اور عورت سر ڈھانپتی ہے۔ وہ کولہوں سے رانوں تک (ناف سے گھٹنوں تک) ڈھانپتے ہیں۔ وہ اپنے سروں کو منڈواتے ہیں۔
(حوالہ جات کیلئے دیکھئے شروحات کتاب مقدس۔ خصوصاً ٹی بی بیٹس کی مکاشفات (ریویلیشن) کی شرح میں فصل نیا یروشلم۔ علاوہ ازیں دیکھئے کتاب "میثاق النبیین" از عبد السلام طویلۃ اور امام ابن القیم رحمہ اللہ کی کتاب "ہدایت الحیاری" اور کتاب "المسیح الدجال" از سعید ایوب۔ مزید برآں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی شہرۂ آفاق تصنیف: "الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح")
سورج کی طرح روشن علامات ہیں مگر بائبل کے مفسرین کو یہ نظر نہیں آتیں۔ چنانچہ وہ اس کی تفسیر میں عجیب و غریب قسم کے خبط مارتے ہیں۔
کبھی کہتے ہیں یہ شہر (نیا یروشلم) کہیں آسمان میں ہے اور تورات میں یہ صفات آئی ہیں۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ یہ یروشلم کی ایک رمزیہ تصویر ہے۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ یہ مکمل نجات دہندہ کا یروشلم ہے جو خوش بختی کی ہزاری میں پایا جائے گا۔
آگے مصنفِ کتاب لکھتے ہیں۔۔۔۔
تورات کی مکہ کے بارے میں یہ پیشن گوئیاں اتنی واضح ہیں کہ مغرب کے کسی پڑھے لکھے کو آج کوئی شک ہے تو وہ ذرا اپنا ٹی وی آن کرکے حرم میں تراویح اور حج کے مناظر کی براہ راست فضائی نشریات کا ایک نظر مشاہدہ کرلے اور پھر خود یہ فیصلہ کرلے کہ تورات میں بیان کردہ قبلہ نو کی ان نشانیوں اور ان مناظر میں، جو وہ اپنی آنکھوں سے براہ راست اور زندہ (لائیو) دیکھ رہا ہے، کتنی گہری مماثلت ہے۔ تب مغرب کے پڑھے لکھے کو یہ اندازہ بھی ہوجائے گا کہ اس کی اپنی ملت کے علماء کو قرآن نے یوں کیوں خطاب کیا:
ترجمہ: "اے اہلِ کتاب! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو؟ کیوں جانتے بوجھتے ہوئے حق کو چھپاتے ہو؟" (آل عمران:71)
(شیخ سفر الحوالی کی کتاب: "روزِ غضب" کے اردو ترجمے سے اقتباس)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں