قربانی سے متعلق چند اہم مسائل

السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
عید الاضحیٰ کے موقع پر فورم پر ایک محترم بہن نے قربانی سے متعلق کچھ معلومات فراہم کرنے کا کہا تھا۔ اُس وقت مصروفیت کا عذر آڑے آگیا تھا۔ اب یہ مختصر سی معلومات پیشِ خدمت ہیں۔ 

قربانی کا لغوی معنی:
فقہاء کے ہاں "اضحیۃ" (قربانی) کے مختلف معانی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں: 
1: کوئی مخصوص حیوان قرب حاصل کرنے کی نیت سے ایک خاص وقت میں قربان کرنا۔(1)



2: أضحیۃ مخصوص حیوان کا نام ہے جس کی عمر بھی متعین ہوتی ہے اور اسے قرب حاصل کرنے کی نیت سے خاص دنوں میں شروط اور اسباب کی موجودگی میں ذبح کیا جاتا ہے۔ (2)

3: یہ اُن حیوانوں کو کہا جاتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے یومِ عید سے آخرِ ایامِ تشریق تک ذبح کیا جاتا ہے۔ (3) 

قربانی کا حُکم
قربانی کرنا صاحبِ استطاعت مسلمان بالغ مرد و عورت پر واجب ہے۔ (4) 

دلیل نمبر 1: مِخنف بن سلیم رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ

"یا اَیُّہَا الناس اِنَّ عَلٰی کُلِّ اَہلِ بَیتٍ فِی کُلِّ عَامٍ اُضحِیَّۃً"

(اے لوگو گھر کے ہر فرد پر ہر سال ایک قُربانی فرض ہے) (5)


دلیل نمبر 2: ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 

"مَن وَجَدَ سَعَۃً فلم یُضَحِّ فَلاَ یَقرَبَنَّ مُصَلاَّنَا"
(جس کے پاس قُربانی کرنے کی گُنجائش ہو اور وہ قُربانی نہ کرے تو وہ ہمارے مُصلے کے پاس بھی نہ آئے) (
۶)

قربانی کا وقت:
1: بقرعید کی دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ تک کی شام (آفتاب غروب ہونے سے پہلے) تک قربانی کا وقت ہے، ان دنوں میں جب چاہے قربانی کرسکتا ہے، لیکن پہلا دن افضل ہے، پھر گیارہویں تاریخ، پھر بارہویں تاریخ۔

۲: شہر میں نمازِ عید سے پہلے قربانی کرنا دُرست نہیں، اگر کسی نے عید سے پہلے جانور ذبح کرلیا تو یہ گوشت کا جانور ہوا، قربانی نہیں ہوگی۔ البتہ دیہات میں جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی، عید کے دن صبحِ صادق طلوع ہوجانے کے بعد قربانی کرنا دُرست ہے. (۷)


حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"آج (عید الاضحٰٰی) کے دن سب سے پہلا کام جو ہم کریں گے وہ یہ ہے کہ نماز پڑھیں پھر واپس آ کر قربانی کریں۔ سو جس نے یہ کرلیا اس نے ہمارا طریقہ پالیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا سو وہ گوشت ہے جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لئے جلدی تیار کرلیا۔ اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں" (8)


قربانی سے متعلق ایک انتہائی اہم مسئلے کی وضاحت
دینی مسائل سے لا علمی اور اس بات سے بے خبری کی بناء پر کہ شرعی معاملات میں اپنی جانب سے کچھ کہنا کس قدر خطرناک ہے، ہمارے بعض احباب کا یہ خیال اور رائے ہے کہ قربانی کیلئے کوئی جانور خریدنے سے بہتر یہ ہے کہ ہم یہ پیسے سیلاب، زلزلہ یا اور کسی آفت کے متاثرین یا پھر عام فقراء و مساکین کو نقد دے دیں تاکہ اس سے وہ اپنی ضروریات پوری کرسکیں، گوشت کھانے اور کھلانے سے کہیں بہتر اپنے ایسے دینی بھائیوں کی مدد کرنا ہے۔ بظاہر یہ باتیں بڑی خوبصورت ہیں، اور کیوں نہ ہوں؟ ابلیس صرف بدی کی راہ سے نہیں آتا بلکہ قرآن مجید میں باری تعالیٰ نے اس کا یہ ارادہ بیان فرمایا ہے کہ: 

قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16) ثُمَّ لَآَتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (17)

ترجمہ: شیطان نے کہا مجھے تو تُو نے ملعون کیا ہی ہے، میں بھی تیرے سیدھے رستے پر (ان کو گمراہ کرنے کیلئے) بیٹھوں گا۔ پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے، دائیں سے اور بائیں سے (غرض ہر طرف سے) آؤں گا (اور ان کی راہ ماروں گا) اور تُو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔


"عن ایمانہم" (اُن کی داہنی طرف سے) کی تفسیر میں امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ فرمایا: "یعنی اُن کی نیکیوں کی طرف سے" (9)

پس یہاں بھی وہ ہمیں ایک واجب فعل ترک کرنے پر آمادہ کرنے کیلئے یہ راہ سجھا رہا ہے کہ ان پیسوں کا اچھا مصرف اپنے ضرورت مند بھائیوں کی مدد کرنا ہے۔ 

ایسی رائے رکھنے والوں کو چند جوابات: 
پہلا جواب: قربانی چھوڑ کر اُن پیسوں سے غریبوں کی مدد کرنا اس لیے جائز نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 

"جس کے پاس قُربانی کرنے کی گُنجائش ہو اور وہ قُربانی نہ کرے تو وہ ہمارے مُصلے کے پاس بھی نہ آئے" (حوالے کیلئے نمبر 4 دیکھیں)

دوسرا جواب: ہمیں اس کی کوئی مثال خیر القرون یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ اور پھر تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانوں میں نہیں ملتی کہ انہوں نے قربانی چھوڑ کر اُتنے پیسے خیرات کردیئے ہوں۔ 

تیسرا جواب: جو شخص قربانی کی استطاعت رکھتا ہے، وہ یقیناً ایک جانور خرید لینے کے بعد مفلس نہیں ہوجائے گا کہ اس کے علاوہ کچھ خرچ ہی نہ کرسکے۔ لہٰذا قربانی بھی کرے اور وقتاً فوقتاً حسبِ استطاعت مساکین کی مالی امداد بھی صدقات سے کردیا کرے۔ 

چوتھا جواب: آئندہ یہ شیطانی خیال ذہن میں آئے تو شیطان کی چال کو اُسی پر اُلٹتے ہوئے وہ جو پیسے شیطانی راہوں مثلاً نیو ائیر نائٹ منانے، یا سالگراہیں سیلیبریٹ کرنے، یا اس کے علاوہ بعض مباح کاموں میں خرچ کرتا ہے، اُن سے کٹوتی کرکے نیک کاموں میں یہ پیسے خرچ کردے۔

پانچواں جواب: قربانی کرنا جمہور ائمہ و فقہاء میں سے بعض کے نزدیک واجب اور بعض کے نزدیک سنتِ مؤکدہ ہے اور اس کے ترک کا کوئی بھی قائل نہیں۔ اور پیسے بانٹ دینے سے یہ واجب یا سنت ادا نہیں ہوگی بلکہ ایسا کرنے والے واجب یا کم از کم سنت کے ترک کے گناہ اور حدیثِ مبارکہ میں (جو اوپر بیان کی جاچکی ہے) وارد وعید کے مستحق قرار پائیں گے۔ 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے نفس اور شیطان کی بندگی کرنے سے بچائیں اور صرف اپنا سچا بندہ بنائیں اور اسلام میں پورا پورا داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔ 
واللہ اعلم

حوالہ جات:
(1) الدر المختار
(2) أنیس الفقہاء
(3) مغنی المحتاج
(4) آپ کے مسائل اور ان کا حل
(5) سنن ابن ماجہ ٢٧٨٨ / اول کتاب الضحایا / باب١ ، صحیح سنن ابی داؤد ٢٤٨٧ ، صحیح سنن ابن ماجہ ٢٥٣٣
(6) المستدرک الحاکم / حدیث ٧٥٦٥، ٧٥٦٦ /کتاب الاضاحی، مُسند احمد / حدیث ٨٢٥٦، حدیث حسن ، تخریج احادیث مشکلۃ الفقر /ص ٦٧/حدیث ١٠٢، حدیث حسن ،صحیح الترغیب و الترھیب /حدیث١٠٨٧
(7) آپ کے مسائل اور ان کا حل
(8) متفق علیہ
(9) تفسیر ابنِ کثیر

(دو احادیث کا ترجمہ اور حوالہ جات بشکریہ محترم بھائی عادل سہیل)

تبصرے