الحمد للہ وحدہُ والصلاۃ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہ و بعد
بعض حکماء کا قول ہے: "غصہ عقل کو اُس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچاتا ہے جتنا کہ آگ سوکھی گھاس پھونس کے ڈھیر کو پہنچا سکتی ہے"
اور یہ بھی کہ: "غصہ ندامت کو جنم دیتا ہے، غصہ میں خود اور دوسروں کو پہنچائے گئے نقصان کے مقابلہ میں کہیں آسان بات یہ ہے کہ آدمی غصہ ترک کردے، جلد غصہ ہوجانا احمقوں کی عادات میں سے ایک عادت ہے"
ایک اور دانا کے مطابق: "جس کا غصہ زیادہ ہو اُس سے غلطیاں بھی زیادہ سرزد ہوتی ہیں اور جس کی غلطیاں زیادہ ہوجائیں اُس کی زندگی پچھتاووں اور دُکھ سے بھر جاتی ہے"
جبکہ ایک اور صاحبِ فہم نے کیا خوب کہا ہے کہ: "جس نے اپنے غصے کی اطاعت کی وہ اُسے آگ کے قریب لے جائے گا اور اسے معافی مانگنے کی ذلت پر مجبور کرے گا۔"
بعض حکماء کا قول ہے: "غصہ عقل کو اُس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچاتا ہے جتنا کہ آگ سوکھی گھاس پھونس کے ڈھیر کو پہنچا سکتی ہے"
اور یہ بھی کہ: "غصہ ندامت کو جنم دیتا ہے، غصہ میں خود اور دوسروں کو پہنچائے گئے نقصان کے مقابلہ میں کہیں آسان بات یہ ہے کہ آدمی غصہ ترک کردے، جلد غصہ ہوجانا احمقوں کی عادات میں سے ایک عادت ہے"
ایک اور دانا کے مطابق: "جس کا غصہ زیادہ ہو اُس سے غلطیاں بھی زیادہ سرزد ہوتی ہیں اور جس کی غلطیاں زیادہ ہوجائیں اُس کی زندگی پچھتاووں اور دُکھ سے بھر جاتی ہے"
جبکہ ایک اور صاحبِ فہم نے کیا خوب کہا ہے کہ: "جس نے اپنے غصے کی اطاعت کی وہ اُسے آگ کے قریب لے جائے گا اور اسے معافی مانگنے کی ذلت پر مجبور کرے گا۔"
فلم ار فی الاعداء حین اختبرتہم
عدوا لعقل المرء أعدی من الغضب
عدوا لعقل المرء أعدی من الغضب
(میں نے جب امتحان لیا تو آدمی کی عقل کا دشمن غصے سے بڑھ کر کسی چیز کو بھی نہ پایا)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے نصیحت کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "غصہ مت کیا کرو" اور بار بار یہی فرماتے رہے۔ (بخاری)۔
پس معلوم ہوا کہ غصہ تمام برائیوں کی کنجی ہے۔
غصہ بسا اوقات کفر کی کنجی بھی بن جاتا ہے جب آدمی غصے سے مغلوب ہوکر کفریہ کلمات کہہ ڈالتا ہے۔۔۔
غصہ قتل جیسے بڑے گناہ کا سبب بنتا ہے۔
غصے میں ہی آدمی اپنی شریکِ حیات کو طلاق دے کر زندگی سے نکال باہر کرتا ہے اور پھر سوائے پچھتاوے کے اُس کے پاس کچھ نہیں رہتا۔
غصہ میں ہی انسان بہت سے ظلم کرجاتا ہے جس کا اسے اُس وقت احساس نہیں ہوتا کہ عقل پر غصہ حاوی ہوچکا ہوتا ہے۔
غصہ آنے کے اسباب:
پہلا سبب: "انسان کا کوئی ایسی چیز دیکھنا جسے وہ نا پسند کرتا ہو۔ پس جب کوئی ایسا امر واقع ہو تو لازم ہے کہ وہ اپنے ہاتھ اور اپنی زبان کو قابو میں رکھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فرمایا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے ہاتھ سے کسی کو مارا نہیں، نہ کسی عورت (بیوی، لونڈی) کو نہ ہی کسی خادم کو" (مسلم)
دوسرا سبب: آدمی کا کوئی ایسی بات سننا جو اُسے ناگوار ہو۔ پس جب ایسا کچھ وہ سنے تو لازم ہے کہ اپنے ہاتھ اور زبان پر قابو پائے رکھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"طاقت ور وہ نہیں جو کسی دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقت ور وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو رکھے" (متفق علیہ)
تیسرا سبب: ایسی چیز کا علم میں آنا جو طبیعت پر گراں گزرتی ہو۔ پس جب ایسا ہو تو چاہیے کہ انسان اپنے ہاتھ اور اپنی زبان پر قابو رکھے۔
اور غصہ ایک ایسی صفت ہے جسے پوری طرح ختم تو نہیں کیا جاسکتا البتہ کچھ ایسی تدابیر ہیں جنہیں اگر اختیار کیا جائے تو غصے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ہم سب کو ان تدابیر سے واقفیت کی ضرورت ہے کیونکہ مندرجہ بالا اسباب میں سے کسی بھی سبب کی وجہ سے ہم میں سے کسی کو بھی کبھی بھی غصہ آسکتا ہے کہ یہ انسانی فطرت میں شامل ہے۔
غصہ کے علاج کیلئے قرآن و سنت میں بتائی گئی تدابیر
پہلا علاج: جب غصہ آئے تو خاموش ہوجائیں اور اُس وقت تک کچھ بھی نہ بولیں جب تک غصہ ٹھنڈا نہ ہوجائے۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہیے کہ وہ خاموش ہوجائے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی۔
(مسند احمد)
پس لازم ہے کہ نہ تو غصے کی حالت میں کسی کو نصیحت کرنے کی کوشش کی جائے، نہ کچھ سکھانے کی، نہ ہی ڈانٹنے کی یہاں تک کہ غصہ ٹھنڈا ہوجائے۔ اِس سے یہ فائدہ ہوگا کہ ذہن پر سے غصے کا غلبہ ختم ہونے کی وجہ سے آپ کے ہاتھوں کوئی نا انصافی یا زیادتی نہیں ہوگی نہ آپ کوئی ایسا قدم اٹھائیں گے جس پر بعد میں پچھتائیں۔
حضرت ابی بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "کوئی بھی فیصلہ کرنے والا دو فریقوں کے مابین کوئی حکم نافذ نہ کرے اِس حالت میں کہ وہ غصے میں ہو"
(متفق علیہ)
دوسرا علاج: انسان کو غصہ آئے تو اسے نہ صرف یہ کہ زبان پر قابو رکھنا چاہیے بلکہ اپنے افعال پر بھی قابو پائے رکھے اور مار پیٹ، توڑ پھوڑ سے خود کو روکے رکھے یہاں تک کہ غصہ ختم ہوجائے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم رقوب کسے کہتے ہو؟ ہم نے عرض کیا جس کے اولاد نہ ہوتی ہو، (یعنی زندہ نہ رہتی ہو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رقوب یہ نہیں ہے، بلکہ رقوب وہ ہے کہ جس نے پہلے سے اپنی اولاد میں سے کسی کو آگے نہ بھیجا ہو، پھر فرمایا: "تم زبردست پہلوان کسے کہتے ہو؟" ہم نے عرض کیا: "زبردست پہلوان وہ شخص ہے جسے لوگ پچھاڑ نہ سکیں" آپ نے فرمایا: "زبردست پہلوان یہ نہیں ہے بلکہ وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھ سکے۔" (مسلم)
تیسرا علاج: تعوذ (اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم) پڑھے یعنی اللہ سے شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگے۔ کیونکہ تعوذ غصے کی آگ کو بجھانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَإِمَّا يَـنْـزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
"اور اگر شیطان کی طرف سے تمہارے دل میں کسی طرح کا وسوسہ پیدا ہو تو اللہ سے پناہ مانگو، بے شک وہ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
(اعراف:200)
اور حضرت سلیمان ابن صرد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں میں باہم گالی گلوچ ہوئی، ان میں سے ایک کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور گردن کی رگیں پھول گئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر یہ شخص وہ کہہ دے، تو اس کی جو حالت ہورہی ہے، وہ جاتی رہے (وہ کلمہ یہ ہے) اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم"۔
(صحیح مسلم)
چوتھا علاج: جب غصہ آئے تو کسی انتہائی اقدام کا ارادہ نہ کرے اور جس حالت میں ہو اُس میں تبدیلی لائے، کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو لیٹ جائے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہوا ہو تو بیٹھ جائے، اگر اِس سے غصہ ختم ہوجائے تو (ٹھیک) ورنہ لیٹ جائے" (مسند احمد، سنن ابوداود)
اس میں ایک حکمت یہ ہے کہ کھڑا ہوا شخص اگر کسی برائی کا ارادہ کرے تو اسے اس میں آسانی رہے گی جبکہ بیٹھنے اور لیٹنے کی صورت میں اس کا امکان کم سے کم ہوجائے گا۔
پانچواں علاج: جس شخص کو غصہ آیا ہوا ہو، اسے چاہیے کہ وہ وضو کرلے۔
عطیہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان آگ سے بنایا گیا ہے، اور آگ پانی سے بجھتی ہے۔ پس جب تم میں سے کسی شخص کو غصہ آئے تو اسے چاہیے کہ وہ وضو کرلے" (ابو داود)
چھٹا علاج: غصے کی حالت میں اپنے زیردست لوگوں مثلاً بیوی اور ملازمین وغیرہ پر کسی بھی عتاب سے پہلے یہ یاد کرلیا جائے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مجھ پر اِس سے کہیں زیادہ قادر ہے جتنا میں ان لوگوں پر فی الوقت دسترس رکھتا ہوں۔
حضرت ابی مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں: "میں اپنے ایک غلام کو چھڑی سے مار رہا تھا کہ پیچھے سے آواز سنی، "جان لو ابو مسعود، جان لو ابو مسعود۔ مگر غصے کی شدت سے مجھے آواز ٹھیک سے سمجھ نہیں آرہی تھی۔ جب غصہ کچھ کم ہوا تو میں نے پیچھے کی جانب مڑ کر دیکھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ میرے ہاتھ سے چھڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت سے گر گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جان لو ابو مسعود! اللہ تم پر اُس سے کہیں زیادہ قُدرت رکھتا ہے جتنی تم اپنے اِس غلام پر رکھتے ہو" میں نے کہا: "اے اللہ کے رسول یہ اللہ کی رضا کیلئے آزاد ہے" تب آپ نے فرمایا: "اگر تم ایسا نہ کرتے تو (جہنم کی) آگ تمہیں جلا ڈالتی (یا فرمایا) تمہیں چھو لیتی" (صحیح مسلم، کتاب الایمان)
اس واقعہ کے بعد حضرت ابی مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا کہ "آج کے بعد میں کبھی کسی غلام پر ہاتھ نہیں اٹھاوں گا"
(صحیح مسلم)
ساتواں علاج: انتقام لینے اور سزا دینے پر قدرت ہونے کے باوجود معاف کردینے کے ثواب کو یاد کیجیے۔
اللہ تعالیٰ اپنی کتابِ عزیز میں فرماتے ہیں:
وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ترجمہ: ان کو چاہیے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تم کو بخش دے؟ اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔
(نور:22)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بندہ درگزر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی عزت میں اضافہ کرتا ہے"
(صحیح مسلم)
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غصہ ور شخص سے انسان اپنے گھر والوں، ماتحتوں اور ملنے جلنے والوں کیلئے ایک ناپسندیدہ شخصیت بن جاتا ہے کیونکہ جب اُسے غصہ آتا ہے تو وہ اپنے برابر والوں سے زیادتی کرجاتا ہے، زیر دستوں کو ظلم و عتاب کا نشانہ بناتا ہے اور اپنے سے اعلیٰ رتبہ والوں اور بزرگوں کا خیال نہیں رکھتا بلکہ گستاخی کرجاتا ہے، بلا سوچے سمجھے بولتا ہے۔ یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ جس میں موجود ہوں اُسے ایک نا پسندیدہ شخصیت بنا دینے کیلئے کافی ہیں۔
ان صوابا فمن اللہ و ان خطاء فمن نفسی والشیطان۔ واللہ اعلم و صلی اللہ وسلم و بارک علیٰ نبینا محمد و علیٰ آلہ و صحبہ اجمعین
(ترجمہ و استفادہ از رسالہ "لا تغضب" مؤلف محمد احمد عماری)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں