دروسِ رمضان: پہلا درس: اُن سب کیلئے جنہوں نے رمضان المبارک کا مہینہ پالیا


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الحمد للہ ۔۔ تمام تعریفیں اُس ذاتِ پاک کیلئے ہیں جو روز و شب کا ترتیب کنندہ ، مہینوں اور سالوں کو تنظیم کرنے والا ہے۔ اور اللہ کی جانب سے بے شمار صلوٰۃ و سلام ہوں اُس کے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ۔ اما بعد ۔

رمضان المبارک کے آغاز کے اس بابرکت موقع پر یہاں ہم اختصار کے ساتھ چند باتوں پر غور و فکر کی دعوت دیں گے:

پہلی بات: اس بات پر غور کیجیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں کیوں پیدا فرمایا ہے؟ ہماری تخلیق کا بنیادی سبب کیا ہے؟ جواب قرآن کریم میں ہے:


(اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں" (الذاریات 56"

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اور اس سے وضاحت ہوجاتی ہے کہ انہیں (جن و انس کو) عبادت کیلئے پیدا کیا گیا ہے۔ پس ان پر ان کے خالق کا یہ حق ہے کہ وہ اُس امر کی رعایت کریں جس کیلئے انہیں پیدا کیا گیا ہے۔ اور دُنیا سے اعراض کریں۔ کیونکہ یہ ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں بلکہ عارضی ٹھکانہ ہے۔ اور یہ وہ سواری ہے جسے فقط ایک مقام عبور کرنے کیلئے استعمال کیا جانا چاہیے نہ کہ ہماری منزل۔"

محترمین!
غور کیجیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کس قدر نعمتیں ہم پر شب و روز نچھاور ہورہی ہیں (اور اگر اللہ کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو) (سورۃ ابراہیم آیت ۳۴) اور ان میں سب سے بڑی نعمت "اسلام" کی نعمت ہے۔ غور کیجیے کہ روئے زمین پر کتنی بڑی تعداد میں ایسے لوگ بستے ہیں جو شہادتِ لا الہ الا اللہ سے محروم ہیں۔ اور یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجیے کہ اُس نے ہدایت اور نیک اعمال کی توفیق کی نعمت بھی دی ہے۔ اسلام کے کتنے ہی نام لیوا ایسے ہیں جن کے اعمال ان کے دعوؤں کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر صحت، فراخیٔ رزق اور امن و امان کی نعمتیں، ان سب کی شکرگزاری ہم پر لازم ہے اور شکر گزاری کا سب سے بڑا ذریعہ و طریقہ اطاعت الٰہی اور اس کی معصیب سے اجتناب ہے۔ اللہ کی نافرمانی اور اس کے احکام سے روگردانی کرتے ہوئے ہم زبان سے چاہے کتنا بھی اس کا شکر ادا کرلیں، اس سے ہم پر واجب الادا حقِ اطاعت ادا نہ ہوگا۔ اور شکر گزاری کا سب سے بڑا انعام نعمتوں کی بقا اور فراوانی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر ضرور اضافہ کروں گا) (سورۃ ابراہیم: ۷) 

دوسری بات: اللہ کی ہم پر نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت یہ ہے کہ اُس نے ہماری عمر دراز کی، یہاں تک کہ ہم نے ایک بار پھر یہ مبارک مہینہ اپنی زندگی میں پا لیا۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو پچھلے رمضان میں ہمارے آس پاس رہتے تھے اور زندہ تھے۔ مگر انہیں یہ رمضان دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ بقیدِ حیات رہنا اگر اطاعتِ الٰہی کی توفیق کے ساتھ ہو تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتوں میں سے ہے۔ بلکہ مومن کا تو سرمایہ ہی اس کی عمر ہے، اسی سرمائے کو خرچ کرتا ہوا وہ آخرت کیلئے توشہ جمع کرنے میں لگا رہتا ہے جبتک کہ یہ ختم نہیں ہوجاتا۔ پس اپنے اوقات کو منظم کیجیے اور اطاعتِ الٰہی میں اس سرمائے کو لگائیے تاکہ یہ ضائع ہونے سے محفوظ رہ سکے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

"پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جان لو (ان سے فائدہ اٹھاؤ) اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تونگری کو فقر سے پہلے"
(مستدرک حاکم)


اور کوشش کیجیے کہ آپ کا شمار بہترین لوگوں میں سے ہو جن کی خبر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔ حضرت ابی بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: "اے اللہ کے رسول کون سے لوگ بہترین ہیں؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کی عمر زیادہ ہو اور اعمال اچھے ہوں" پھر اس شخص نے پوچھا: "تو سب سے برے لوگ کون سے ہیں؟" فرمایا: "جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا"
(ترمذی)


تیسری بات: ہم پر لازم ہے کہ جو بھی عمل کریں، اخلاصِ نیت سے اسے شروع کریں۔ اور وہ خالص اللہ تعالیٰ کیلئے ہو۔ خبردار رہیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایسے اعمال قبول نہیں فرماتے جس میں اس کے ساتھ کسی اور کو شریک کیا جاتا ہے۔ اور شریک ٹھہرانا کسی اور کو پوجنے یا اسے الٰہ ماننے پر ہی منحصر نہیں بلکہ ریا (دکھاوے کے طور پر نیک عمل کرنا کہ لوگ اسے نیک سمجھیں اور ستائش کریں) کو بھی شرکِ اصغر فرمایا گیا ہے۔ محمود بن لبید سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"بے شک مجھے سب سے زیادہ جس چیز کا تم پر خوف ہے وہ شرکِ اصغر ہے" لوگوں نے دریافت کیا: "شرکِ اصغر کیا ہے اے اللہ کے رسول؟" آپ نے فرمایا: "ریاء"
(مسند احمد)


اور ابو سعید خُدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ہماری طرف آنکلے اور ہم مسیحِ دجال کا تذکرہ کررہے تھے، آپ نے فرمایا: "میں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جس کا مجھے تم پر دجال سے بھی زیادہ خوف ہے؟" ہم نے کہا ہاں اللہ کے رسول (ضرور بتائیے) فرمایا: "شرکِ خفی، (وہ یہ کہ) ایک شخص کھڑا ہو نماز پڑھے پس اُسے خوب مزین کرے (ارکان کو لمبا کرکے ادا کرے) جب وہ دیکھے کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے" او کما قال
(صحیح الترغیب والترھیب للالبانی)


ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے کہا: "اللہ کے سوا کسی کیلئے عمل مت کرو اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ تمہیں ان کے حوالے کردے گا جن کیلئے تم عمل کرتے ہو"

اور یاد رکھیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ صرف متقین کا عمل قبول فرماتے ہیں

"بے شک اللہ متقین سے (ان کے اعمال) قبول فرماتا ہے" (المائدہ:۲۷) 

اور ان میں سے بھی مت ہونا جنہوں نے جنت میں داخل ہونے سے انکار کردیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
''میری ساری امت جنت میں جائے گی سوائے اس کے جو انکار کردے۔'' پوچھا گیا: "اے اللہ کے رسول! کون انکار کرے گا؟" آپ نے فرمایا: ''جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے یقیناً (جنت میں جانے سے) انکار کردیا۔''
(صحیح بخاری)


چوتھی بات: ذکرِ الٰہی کو حرزِ جان بنا لیجیے اور چلتے پھرتے، دن رات کے تمام اوقات کو اس بابرکت عمل سے منور کرلیجیے۔

ذکرِ الٰہی کے بارے میں وارد آیات و احادیث: 

تم میرا ذکر کرو، میں بھی تمہیں یاد کرونگا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو۔ (البقرہ۔152)

اور بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان سب کے لئے اللہ نے مغفرت اور بڑا اجر تیار رکھا ہے۔(الاحزاب۔35)


اے شخص اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ، اور بلند آواز کے بغیر، صبح و شام اور اہل غفلت میں سے نہ ہو جانا۔(الاعراف۔205)


اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن کی نماز
کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو،یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم سمجھو تو۔
پھر جب نماز ہو چکے تو زمین پر پھیل جاوٴ اوراللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم فلاح پالو۔(جمعہ-10۔9)


اور صبح شام اپنے پروردگار کا نام لیتے رہو اور رات کو بڑی دیر تک اسکے آگے سجدے کرو اور اسکی تسبیح بیان کرتے رہو۔(دھر۔26۔25)


بیشک اس نے فلاح پالی جو پاک ہو گیا۔اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پڑھتا رہا۔(الاعلے’۔15۔14)


تم جب فارغ ہو تو عبادت میں محنت کیا کرو اور اپنے رب کی طرف دل لگاوٴ۔(الم نشرح۔8۔7)


ان گھروں میں جن کے بلند کرنے، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے حکم دیا ہے،وہاں صبح و شام اللہ تعالی کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکواۃ دینے سے غافل نہیں کرتی اس دن سے ڈر جاتے ہیں جس دن دل اور آنکھیں خوف سے الٹ پلٹ ہو جائینگی۔(النور 37-36)


اور نماز قائم کرو اور زکواۃ دو اور رکوع کرنے والوں کیساتھ رکوع کرو۔(البقرہ۔43)

1بیشک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا عبادت کے لائق اور کوئ نہیں پس تو میری ہی عبادت کر اور میری یاد کیلئے نماز قائم رکھ۔(طہ’۔4)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور جو اپنے رب کو یاد نہیں کرتا زندہ اور مردہ کی سی ہے۔(بخاری مع الفتح۔11/20

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
-
اللہ تعالی فرماتے ہیں، میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جب وہ مجھے یاد کرے تو میں اسکے ساتھ ہوں،اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں،اور اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرے تو میں اسے ایسی جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اس سے بہتر ہے،اور اگر وہ ایک بالشت میرے قریب آئے تو میں ایک ہاتھ اسکے قریب آتا ہون،اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب آئے تو میں دونوں ہاتھ پھیلا نے کے برابر اسکے قریب آتا ہوںاور اگر وہ چل کر میرے قریب آئے تو میں دوڑ کر اسکے پاس آتا ہوں۔(بخاری۔171/8، مسلم 2061/4)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

جو شخص کسی ایسی جگہ بیٹھا جس میں اسنے اللہ کو یاد نہیں کیا تو وہ اللہ کی طرف سے اس پر نقصان کا باعث ہوگی اور جو شخص کسی جگه لیٹا اور اسنے اللہ کو یاد نہیں کیا تو وہ اس پر اللہ کی طرف سے نقصان کا باعث ہوگی۔(ابو داود 264/4۔ صحیح الجامع۔342/5)


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی دن میں سو مرتبہ یہ کلمہ کہے۔

لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد،و ھو علی کل
شی قدیر۔
(اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اکیلا ہے وہ اسکا کوئی شریک
نہیں اسی کے لئے ملک اور اسی کیلئے حمد ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
تو یہ کلمہ اسکے لئے دس گردنوں کے آزاد کرنے کے برابر ہوگا۔اور اسکے لئے سو نیکیاں لکھی جائینگی اور اس سے سو برائیاں مٹائی جائیں گی۔ اور یہ کلمہ اسکے لئے شام ہونے تک سارا دن بچاوٴ کا ذریعہ بنا رہے گا اور کوئی اسکے عمل سے افضل عمل لیکر (الله کے ) پاس نہیں آئیگا سوائے اس شخص کے جس نے اس سے زیادہ یہ عمل کیا ہو۔ (بخاری 4/95، مسلم 4/2071)


اور جو شخص سبحان اللہ و بحمدہ( پاک ہے اللہ اور اپنی تعریف کے ساتھ ) ایک دن میں سو مرتبہ کہے اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں خواہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔(بخاری 7/168۔ مسلم 4 2071)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو کلمے زبان پر ہلکے ہیں میزان میں بھاری ہیں اور رحمٰن کو محبوب ہیں۔

سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔( پاک ہے اللہ اور اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے اللہ عظمت والا۔( بخاری 7/168، مسلم 4/2072)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں یہ کلمے کہوں تو مجھے اس چیز سے زیادہ محبوب ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔( یعنی یہ کلمات کہنا تمام دنیا سےزیادہ محبوب ہے)۔
سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا الہ الا اللہ، و اللہ اکبر۔( مسلم 4/2072)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص یہ کلمہ کہے اسکے لئے جنت میں ایک کھجور کا درخت لگا دیا جاتا ہے۔

سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا الہ الا اللہ، و اللہ اکبر۔( ترمذی 5/511، حاکم 1/501)

اللہ تعالی کا سب سے محبوب کلام چار کلمات ہیں۔
سبحان اللہ، والحمد للہ،ولا الہ الا اللہ، و اللہ اکبر۔ان میں سے جس سے ابتدا کرلو تمہیں کوئی نقصان نہیں۔( مسلم 3/1685)

جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بہتر دعا الحمد للہ ہے اور سب سے بہتر ذکر لا الہ الا اللہ ہے۔( ترمذی 5/462، ابن ماجہ 2/1249، حاکم 1/503)


(ذکر کے بارے میں آیات و احادیث ماہا جواد بہن کے تھریڈ "اللہ کا ذکر" سے لی گئیں)

باقی مضمون میں کتاب: "اربعون درسا لمن ادرک رمضان" سے اخذ و ترجمہ کیا گیا۔

تبصرے