نواں درس: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روزے میں عاداتِ مبارکہ


الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ و بعد

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ رمضان شریف میں کثرت سے کئی اقسام کی عبادتیں کرتے۔ چنانچہ رمضان المبارک میں حضرت جبریل علیہ السلام آپ کو قرآن کریم یاد کراتے۔ جب جبریل علیہ السلام سے آپ کی ملاقات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ سخاوت کرتے۔ آپ عام طور پر بھی لوگوں سے زیادہ سخی تھے لیکن رمضان المبارک میں تو صدقات و احسان، تلاوت قرآن کریم، نماز، ذکر اور اعتکاف میں از حد اضافہ ہوجاتا اور دوسرے مہینوں کی نسبت رمضان المبارک کے مہینہ کو عبادت کیلئے مخصوص فرمالیتے۔ باوجود اس کے کہ غیر رمضان میں بھی آپ کی عبادات میں جدوجہد اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ بسا اوقات آپ صوم وصال (مسلسل روزہ) رکھتے تھے۔ تاہم آپ صلی اللہ عیلہ وسلم اپنے اصحاب کو صوم وصال سے منع فرماتے تھے۔ اور جب وہ عرض کرتے کہ آپ تو رکھتے ہیں اے اللہ کے رسول! تو فرماتے:

"میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میں اپنے رب کے پاس رات میں ہوتا ہوں اور وہ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے"
(زاد المعاد)


اللہ جل جلالہ کا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کھلانا پلانا حقیقی نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ لطائف و معارف، حکمت کے موتی اور انوار کے فیوض ہوتے تھے۔ اگر اس سے حقیقی طعام مراد ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ دار ہی نہ ہوتے۔

پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اپنے معبود کی عبادت سے ٹھنڈی ہوتی تھیں، اور اس کے ذکر سے آپ کے قلب کو اطمینان ملتا تھا، اور آپ کا اپنے رب سے جو قُرب تھا، اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا پینا بھُلا رکھا تھا جیسا کہ کسی شاعر نے اس بارے میں کہا ہے:

فزاد الروح ارواح المعانی
و لیس بأن طعمت و لا شربتا
فلیس یضیرک الافتار شیٔا
اذا ما انت ربک قد عرفتا


(پس روح نے معانی کی ارواح کو پالیا، نہ کہ آپ نے حقیقتاً کچھ کھایا یا پیا۔ چنانچہ کھانے پینے سے دوری آپ کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتی اس حال میں کہ آپ نے اپنے رب کو پہچان لیا ہے)

اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے ذکر کرنے والے اور سب سے بڑے عبادت گزار تھے۔ انہوں نے رمضان المبارک کو عبادت کا مہینہ بنایا، اور ذکر و تلاوت کا زمانہ مقرر کیا۔ آپ کی رات ایسی ہوتی تھی کہ اس میں اپنے رب سے مناجات کرتے تھے، الحاح و زاری سے دعا میں اُسی کی مدد اور نصرت و ہدایت طلب فرماتے تھے، طویل سورتوں کی قراءت کرتے تھے (نماز میں) اور رکوع و سجود کو بھی خوب طول دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالتِ مبارکہ ایسی تھی کہ گویا عبادت سے آپ کو سیری نہیں ہوتی۔ قیام اللیل کو آپ نے اپنی متاع اور حصولِ قوت کا ذریعہ بنا رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"اے چادر میں لپٹنے والے! رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر باقی رات میں (عبادت کیلئے) کھڑے ہوجایا کرو" (سورۃ مزمل آیات ۱،۲) ۔ 

اور آپ کا دن دعوت و جہاد و نصیحت و تربیت اور وعظ و فتویٰ میں گزرتا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ تھی کہ رمضان کے روزے اس وقت تک نہ رکھتے تھے جب تک چاند کو یقینی طور پر نہ دیکھ لیا جاتا اور یا پھر ایک گواہ کی گواہی نہ مل جاتی۔(ابو داود و دارقطنی) ۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کو سحری کرنے پر اُبھارتے تھے، پس آپ سے ثابت ہے کہ ارشاد فرمایا:

"سحری کھایا کرو اس لیے کہ سحری میں برکت ہے"
(متفق علیہ) ۔


یہ اس لیے کہ سحری کا وقت مبارک ہے، یہ رات کا آخری تہائی حصہ ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ آسمان دنیا پر اپنی شان کے مطابق نزول فرماتے ہیں، اور یہ استغفار کا وقت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:

"اور سحری کے اوقات میں وہ استغفار کرتے تھے"
(سورۃ الذاریات: ۱۸) ۔

"اور سحری کے اوقات میں استغفار کرتے رہتے ہیں"
(سورۃ آل عمران: ۱۷) ۔


پھر یہ بھی ہے کہ سحری انسان کو روزہ رکھنے اور عبادت کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اور یہ بھی کہ سحری اللہ کی نعمتوں کو اللہ کی عبادت میں خرچ کرنے کا طریقہ ہے۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ غروب آفتاب کے بعد افطار میں عجلت فرماتے تھے (متفق علیہ) پس آپ (بالترتیب) رُطب (تازہ کھجور) یا تمر (عام کھجور) یا پھر پانی سے افطار فرماتے تھے۔ (ابو داود، ترمذی، احمد و غیرھم) کیونکہ خالی معدہ کیلئے بہترین چیز مٹھاس ہے۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: "بے شک روزہ دار کیلئے اُس کے افطار کے وقت ایک دعا ہے جو رد نہیں ہوتی" (ابن ماجہ) ۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ مغرب سے قبل افطار فرماتے تھے۔
(احمد، ترمذی، ابو داود، ابن خزیمہ) ۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر فرمایا (رمضان میں) پس کبھی تو روزہ رکھا اور کبھی افطار کیا، اور صحابہ رضی اللہ عنہم ان دونوں میں سے جس کو چاہتے تھے اختیار فرماتے تھے۔ (متفق علیہ) ۔

(البتہ اس مسئلے میں تفصیل کیلئے اہلِ علم کی کتب کو دیکھنا چاہیے کہ سفر میں کس وقت روزہ رکھنا جائز اور کب اسے ترک کرنا لازم ہوجاتا ہے) ۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو اُس وقت یہ حُکم دیتے تھے کہ روزہ توڑ دو، جب وہ اپنے دشمن کے قریب ہوجاتے تھے تاکہ وہ اس کے مقابلے کیلئے قوت حاصل کرسکیں۔
(مسلم و ابو داود) ۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے ایسی حالت میں بھی صبح فرمائی کہ (اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی سے قربت کی بناء پر) آپ پر غسل لازم ہوتا تھا، پس آپ فجر (کے وقت کے دخول کے بعد) غسل فرماتے اور روزہ رکھتے۔ (موطاء امام مالک، بخاری، مسلم) ۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک عادت میں سے یہ بھی تھا کہ وہ اس شخص سے روزے کی قضاء ساقط فرماتے تھے جو بھول کر کچھ کھا یا پی لیتا۔ اور فرماتے کہ ایسا کرنے والے کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا۔ (ابوداود، ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم) ۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف ثابت ہے۔(متفق علیہ) ۔

اعتکاف کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو اپنے رب کی عبادت کیلئے گویا بالکل فارغ کرلیتے تھے۔ لوگوں سے میل جول نہ ہونے کے برابر رہ جاتا، ذکر و عبادت اور دعا، غور و فکر، آیاتِ بینات کا مطالعہ، زمین و آسمان میں اللہ جل جلالہ کی قدرتوں پر تدبر کرنا، عبادت ہی آپ کا اوڑھنا بچھونا بن جاتی تھی۔

خلاصہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی مخلوقات میں سب سے زیادہ اُس کی معرفت رکھنے والے، سب سے زیادہ اُس سے ڈرنے والے، سب سے زیادہ اُس کا قرب پانے والے، اور توکل کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے۔ اللہ کی بے شمار رحمتیں اور سلامتی ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، جب تک گردشِ روز و شب کو دوام ہے۔

(اخذ و ترجمہ از: "ثلاثون درساً للصائمین" مصنف: دکتور عائض القرنی)
__________________

تبصرے