اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَمْ مَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
(التوبة:109)
بھلا کیا وہ شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے خوف اور اس کی خوشنودی پر اٹھائی ہو یا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک ڈھانگ کے کسی گرتے ہوئے کنارے پر رکھی ہو، پھر وہ اُسے لے کر جہنم کی آگ میں جا گرے؟ اور اللہ ایسے ظالم لوگوں تک ہدایت نہیں پہنچاتا۔
ایک اسلامی گھر وہ گھر ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی جاتی ہے، اور اس کے در و دیوار اعمالِ صالحہ سے بنتے ہیں، اُس کا باغیچہ اللہ کے اوامر کی بجا آوری سے تشکیل پاتا ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَاراً وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدَادٌ ﴾
التحريم: من الآية6)
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ اس پر سخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرر ہیں۔
گھر کی سربراہی ایک بہت بڑی ذمہ داری اور سربراہ کیلئے ایک امانت ہے جس میں خیانت نہ ہونے دینا اور اس کی بجا آوری میں احسن طریقے سے کوشاں رہنا اس سے مطلوب امر ہے اور اس کے بارے میں اس سے آخرت میں پوچھا بھی جائے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"تم میں سے ہر کوئی حکمران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا"
(متفق علیہ)
رمضان المبارک میں یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایک اچھا سربراہ وہ نہیں جو خود تو بہت زیادہ عبادت گزار ہو مگر اسے یہ علم نہ ہو کہ اس کے اہلخانہ فرض نماز بھی ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ وہ انہیں نیکیوں کی تلقین کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ ان کے معمولات میں شامل ہوجاتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ اسے صرف اپنے گھر والوں کی مراقبت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ اپنے ان معمولات میں اس قدر پختہ ہوجاتے ہیں کہ اسے حرزِ جاں بنا لیتے ہیں۔ بلکہ گھر والوں کو نیکیوں کی تعلیم دینا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صفت میں فرماتے ہیں:
وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيّاً
(مريم:55)
اور وہ (حضرت اسماعیل علیہ السلام) اپنے گھر والوں کو بھی نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا کرتے تھے، اور اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے۔
ایک مسلمان گھرانے کو سب سے زیادہ ایک رہنما باپ اور مومنہ ماں کی حاجت ہوتی ہے جو گھر کی تربیت کریں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا
(النساء: من الآية58)
(مسلمانو!) یقیناً اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ۔
اور بڑی امانتوں میں سے ایک گھر (کی سربراہی) کی امانت اور اس کی اصلاح کرنا ہے۔
اسلامی گھر رمضان میں ذکر و تلاوت میں مشغول رہتا اور خشوع و تقویٰ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر رکھتا ہے۔
اسلامی گھرانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنی زندگی کے تمام معاملات پر لاگو کرتا ہے اور کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا اور سونا جاگنا سنت کے تابع بنا کر رکھتا ہے۔
اسلامی گھرانہ حجاب کا پابند ہوتا ہے اور اسے عورت کیلئے شرف و عزت کا ذریعہ اور طریقہ سمجھتا ہے اور اللہ سے اس پر اجر کا امیدوار ہوتا ہے۔
آجکل کے گھروں میں بہت سی ایسی چیزیں داخل ہوگئی ہیں جو اسلامی شریعت کے مخالف ہیں مثلاً گانے بجانے اوردیگر لہو و لعب کے آلات۔ جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہلخانہ میں بگاڑ پیدا ہوگیا۔ اور ذکر الٰہی اور عبادات ان گھروں سے یا تو کلی طور پر نکل گئیں یا پھر بہت معمولی حد میں باقی رہیں، جن کا اثر ایسی منفی چیزوں کی موجودگی میں نفوس پر نہ ہونے کے برابر رہ پاتا ہے۔
اسلامی گھرانہ صبح بیدار ہوتا ہے تو اللہ کے ذکر پر اور سونے سے پہلے بھی اُسی کو یاد کرکے سوتا ہے۔ اس گھرانے کی صفت یہ ہوتی ہے کہ یہ لہو و لعب سے گریزاں رہتا ہے۔ باری تعالیٰ مومنوں کی صفات میں فرماتے ہیں:
﴿ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ﴾ (المؤمنون:3)
اور جو لغو چیزوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔
بيوت الصالحين لها دوي
بذكر الله رب العالمينا
لها نور من التوفيق عال
كأن شعاعه من طور سينا
غرض اسلامی گھرانہ اپنے رب کے ساتھ ایسی تجارت کرتا ہے جس میں کوئی خسارہ نہیں۔ باری تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرّاً وَعَلانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ * لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ
(فاطر:29 - 30)
جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اور جنہوں نے نماز کی پابندی کررکھی ہے، اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے، اس میں سے وہ (نیک کاموں میں) خفیہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں، وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی نقصان نہیں اٹھائے گی۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کے گھروں کو بھی اسلامی تعلیمات کی شعاعوں سے پوری طرح منور کردیں، اس طرح کہ اس میں طاغوتی اعمال کیلئے کسی قسم کا کوئی تاریک ذرہ باقی نہ رہ جائے۔ آمین۔
(اخذ و ترجمہ از "ثلاثون درساً للصائمین، مصنف: دکتور عائض القرنی۔ بعض اضافوں کے ساتھ)
__________________
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں