دروس رمضان: دوسرا درس: اعمال کو ضائع کردینے والی باتوں سے بچیے



اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
"بعض روزے دار ایسے ہیں کہ انہیں روزے سے سوائے بھوک کے کچھ نہیں ملتا اور بعض راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کرنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں سوائے جاگنے کے کچھ نہیں ملتا"
(ابن ماجہ و نسائی)


اور
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”بنی آدم کا ہر عمل اس کیلئے ہے سوائے روزے کے، کہ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا"۔ اور روزہ (گناہوں سے) سپر (ڈھال) ہے۔ پھر جب کسی کا روزہ ہو تو اس دن گالیاں نہ بکے اور آواز بلند نہ کرے پھر اگر کوئی اسے گالی دے یا لڑنے کو آئے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے کہ بیشک روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے اور روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک تو وہ اپنے افطار کے وقت خوش ہوتا ہے اور دوسرا وہ اس وقت خوش ہو گا جب وہ اپنے روزے کے سبب اپنے پروردگار سے ملے گا۔"
(صحیح مسلم)



پہلی حدیث مبارکہ میں ایسے روزہ داروں کا بیان ہے جنہیں روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور دوسری حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا ہے کہ جس کا روزہ ہو وہ لڑائی جھگڑے اور بدزبانی سے پرہیز کرے تاکہ اُس کی یہ ڈھال (روزہ) سلامت رہے۔ وہ لوگ جنہیں اپنے روزے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، علمائے کرام کے مطابق ایسے لوگ ہیں جو روزہ تو رکھتے ہیں لیکن افطار حرام مال سے کرتے ہیں، روزہ تو رکھتے ہیں لیکن نمازوں کی پابندی پھر بھی نہیں کرتے اور یہ ظاہر ہے کہ روزے کی فرضیت کا درجہ نماز کے بعد ہے لہٰذا بغیر نماز پڑھے روزے رکھتے جانا کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتا۔ اسی طرح اگر کوئی روزہ رکھے ہوئے ہے مگر اس کے بھائی کی عصمت اُس کی زبان سے محفوظ نہیں ہے، غیبت میں مبتلا ہے، تو اس صورت میں بھی روزہ اُسے فائدہ نہیں پہنچاتا۔ الغرض روزہ فقط اس کا نام نہیں کہ کھانا پینا چھوڑ دیا جائے بلکہ جس طرح ظاھری طور پر ماکولات و مشروبات سے گریز کیا جاتا ہے، اسی طرح اس سے باطنی طہارت و اصلاح بھی مقصود ہے۔ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جو شخص (روزہ رکھ کر بھی) جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی حاجت نہیں"
(اسے ایک جماعت نے روایت کیا ہے سوائے امام مسلم و نسائی کے)


پھر اس بات پر بھی ضرور غور کیجیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تو اس ماہِ مبارک میں ہم سے بعض وہ چیزیں عارضی طور پر ترک کراتا ہے جو مباح ہیں (مثلا کھانا پینا، جماع الزوجین) پھر بھلا وہ روزہ کیسے کامل ہوسکتا ہے جس میں اُن چیزوں کا ارتکاب کیا جائے جو ہر وقت حرام ہیں مثلا جھوٹ بولنا، غیبت و چغلی، تجارت میں دھوکہ دہی و ملاوٹ سے کام لینا، گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑا کرنا، حسد وکینہ کے جذبات مسلمان بھائیوں کیلئے دل میں رکھنا، قطع رحمی کرنا اور مسلمان بھائی سے تین روز سے زیادہ بات چیت ترک رکھنا۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں روزے کے حقیقی مطالب و مقاصد کا فہم اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

تبصرے