دسواں درس: رمضان المبارک ۔۔۔ سخاوت اور صدقات کا سبق دینے والا مہینہ


بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: 
اور (یاد رکھو کہ) جو بھلائی کا عمل بھی تم خود اپنے فائدے کیلئے آگے بھیج دوگے اُس کو اللہ کے پاس پاؤ گے۔ (البقرۃ: آیت ۱۱۰ کا درمیانی حصہ) ۔ 

اور فرمایا: 
"جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اگائے اور ہر بال میں سو (۱۰۰) دانے ہوں۔ اور اللہ جس کیلئے چاہتا ہے (ثواب میں) کئی گنا اضافہ کردیتا ہے۔ اللہ بہت وسعت والا (اور) بڑے علم والا ہے۔ (البقرۃ: 261)

یعنی اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے سات سو گنا تک ثواب ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ جس کا ثواب چاہیں تو اس سے بھی زیادہ بڑھا سکتے ہیں۔ اور اللہ کے راستے میں خرچ سے مراد ہر وہ خرچ ہے جو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کیا جائے۔ اس میں زکوٰۃ، صدقات، خیرات سب داخل ہیں۔ (آسان ترجمہ قرآن)

پچھلے درس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت مبارکہ ذکر کی جاچکی ہے کہ: 
جب جبریل علیہ السلام سے آپ کی ملاقات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ سخاوت کرتے۔ (متفق علیہ) آپ عام طور پر بھی لوگوں سے زیادہ سخی تھے لیکن رمضان المبارک میں تو صدقات و احسان، تلاوت قرآن کریم، نماز، ذکر اور اعتکاف میں از حد اضافہ ہوجاتا

رمضان المبارک ہمیں بھوکوں کو کھانا کھلانے اور مساکین کی مدد کرنے، فقیر کی حاجت براری کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ صدقہ کرنے والوں، سخیوں اور اہلِ خیر کیلئے ایک سنہری موقع ہے جو سال میں صرف ایک بار آتا ہے۔ 


الله أعطاك فابذل من عطيته 
فالمال عارية والعمررحال
المال كالماء إن تحبس سواقيه
يأسن وإن يجر منه يعذب منه سلسال
(اللہ نے تمہیں دیا ہے (اُس کے دیے میں کیوں بُخل کرتے ہو) پس جس کا دیا ہوا ہے اس میں سے خوب خرچ کرو۔ کیونکہ یہ تمہارے پاس عاریتاً ہے (کچھ ہی عرصے بعد فنا ہونے والا ہے یا پھر وارثوں کے پاس پہنچنے والا) اور عمر بھی ختم ہونے والی ہے۔ مال و دولت تو پانی کی طرح ہے اگر تم اس کے بہنے کے راستے بند کردوگے تو اس کا ذائقہ خراب ہوجائے گا اور اگر بہتا رہے گا تو بہترین مٹھاس رکھنے والا ہوگا)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ فرمایا: 
"بے شک اللہ کے دو فرشتے ہیں، ہر صبح یہ منادی کرتے ہیں۔ ایک کہتا ہے: "اے اللہ خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ عطا کر" اور دوسرا کہتا ہے: "اے اللہ روک کر رکھنے والے (کے مال کو) تلف کر"
(صحیح مسلم)


جب بھی بندہ اللہ کے راستے میں کچھ خرچ کرتا ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ ضرور اسے اس سے بہتر اور زیادہ سے نوازتے ہیں اور اس کے جسم کو عافیت بخشتے، ذہن کو سکون دیتے اور رزق میں وسعت فرماتے ہیں۔ 

اور یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ فرمایا: 
"صدقہ خطاؤں کو اسی طرح بجھاتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے"
(احمد ، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)


اور گناہوں کی دل میں ایک حرارت ہوتی ہے جس کے اثر سے آدمی بے چین رہتا ہے۔ اس آگ کو صدقہ ہی بجھاتا ہے۔ پس صدقہ دل کو ٹھنڈک پہنچانے والا، روح کو سکون پہنچانے والا ہے۔ 

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 
"ہر آدمی قیامت کے دن اپنے صدقے کے سائے میں ہوگا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے"
(ابن حبان و حاکم)


حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے مال سے نواز رکھا تھا۔ چنانچہ وہ اللہ کی راہ میں خوب کُھل کر خرچ فرماتے تھے۔ تبوک جانے والے لشکر کو انہوں نے ہی سامان فراہم کیا اور "بئر رومہ" نامی کنواں خریدا اور اسے مسلمانوں کیلئے وقف کردیا۔ ایسے وقت میں جب انہیں پانی کی سخت ضرورت تھی۔ 

حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی مالدار تھے۔ پس کثرت سے صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے سات سو سامان سے لدے ہوئے اونٹ مدینہ کے فقراء میں تقسیم کیے۔ 

لوگوں میں ایسے بھی ہیں جنہیں روٹی کا ایک ٹکڑا، یا ایک دانہ کھجور اور شربت یا لسی کا ایک گھونٹ تک افطار کرنے کو میسر نہیں۔ 

اپنے پاس پڑوس کا جائزہ لیجیے۔ ہوسکتا ہے آپ کے آس پاس کوئی ایسا سفید پوش رہتا ہو جو اپنا بھرم قائم رکھنے کیلئے لوگوں کے آگے دستِ سوال دراز نہ کرتا ہو، مگر اندرون خانہ اس کے حالات بہت زیادہ دگرگوں ہوں۔ نہایت اچھے طریقے سے، اُسے جتائے بغیر اور اس پر احسان کا بوجھ لادے بغیر اُس کی ضرورت رفع کردیجیے۔ اور اس کا بدلہ اُس دن کیلئے چھوڑ دیجیے، جب آپ کو خود کسی کی جانب سے لطف و کرم کی بہت زیادہ ضرورت ہوگی۔ 

روزہ دار کو کھلانے، پلانے کا ثواب بہت ہی عظیم الشان ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: 
"جس نے روزہ دار کو افطار کرایا اس کیلئے روزہ دار کے برابر اجر ہے، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر سے کچھ کمی ہو"
(ترمذی)


صلحاء کی صفتِ سخاوت اس ماہ میں اپنے جوبن پر پہنچ جاتی ہے، پس وہ اللہ کے راستے میں بانٹتے ہیں اور اپنے رب سے عظیم اجر کی امید رکھتے ہیں۔ ہمارے اسلاف میں بہت سے ایسے گزرے ہیں جو فقراء و مساکین کی کفالت اپنے ذمہ لیتے تھے، مساجد میں افطار کے وقت طعام سجا دیا جاتا اور غربا و مساکین خوب اچھی طرح کھا پی لیتے تھے۔ 

اور عجیب بات تو یہ ہے کہ جو کچھ ہم کھا، پی رہے ہیں، اپنے آپ پر اور اپنے لباس پر خرچ کررہے ہیں وہ تو ضائع ہورہا ہے اور جو ہم فقراء و مساکین پر خرچ کرتے ہیں وہی اللہ کے ہاں ہمارے لیے باقی رہتا ہے اور اس پر آیات و احادیث کثرت سے وارد ہیں۔ کتنی نا سمجھی کی بات ہوگی اگر ہم باقی رہنے والے مال سے غفلت برت کر ضائع ہونے والے ہی کو سب کچھ سمجھ لیں۔ 

اے روزہ دار! تم اللہ کے راستے میں خرچ کرکے درحقیقت اپنے فقر و حاجت کے وقت کیلئے ذخیرہ جمع کررہے ہو۔ یہ تمہارے لیے جنت کے راستوں کی ہمواری کا ذریعہ ہے۔ 

اور اے روزہ دار! اللہ کی قسم مال کی حفاظت صدقہ سے زیادہ کچھ نہیں کرتا، نہ ہی زکوٰۃ سے زیادہ کوئی چیز مال کو پاکیزہ کرسکتی ہے۔ بہت سے مال و دولت والے، محلات اور سونے چاندی کے خزانوں والے زمین کے نیچے دفن کردیے گئے، اور یہ سب دنیاوی متاع ان کیلئے حسرت و ندامت کا باعث بن گئی کیونکہ انہوں نے اسے صرف خود پر خرچ کیا اور اللہ کے راستے میں دینے سے ہمیشہ دور رہے۔ اور بے شک عقلمند وہ شخص ہے جو دوسروں کے انجام سے عبرت لے نہ کہ خود پر بیتنے کا انتظار کرے۔ 

(ترجمہ از "ثلاثون درسا للصائمین" از دکتور عائض القرنی، بعض مقامات پر کچھ اضافوں کے ساتھ)

تبصرے