ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے مجھے پکارو، میں تمہاری پکار کو سنتا ہوں۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے تکبر اختیار کرتے ہیں، عنقریب وہ ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔
(المومن: 60)
ایک اور مقام پر ارشاد باری ہے:
اور جب میرے بندے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے میرے بارے میں پوچھیں (تو انہیں بتادیں کہ) میں قریب ہوں اور پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارے۔ پس انہیں چاہیے کہ وہ میرے احکام کی پیروی کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
(البقرۃ: 186)
(البقرۃ: 186)
اور باری تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اے لوگو! تم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو اور اللہ غنی اور حمد و ثناء والا ہے"
(فاطر: 15)
(فاطر: 15)
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"الدعاء مُخُ العِبادۃ" "دعا عبادت کا مغز ہے"
(ترمذی)
(ترمذی)
جبکہ ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:
"الدعاء ھو العبادۃ" "دعا خود ایک عبادت ہے"
(مسند احمد)
(مسند احمد)
دعا مومن کیلئے اپنے رب سے رابطے کا ایک ایسا مؤثر اور فوری ذریعہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے رب سے جب چاہے، تعلق قائم کرسکتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا اپنے بندوں سے معاملہ انتہائی احسان اور لطف کا ہے۔ اُس کا بندہ اُس سے جتنا زیادہ طلب کرے، اُتنا ہی اللہ اُس سے راضی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس انسانوں سے مانگا جائے تو انہیں ناگوار گزرتا ہے اور وہ کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چلیں پہلی بار خندہ پیشانی سے آپ کی مانگ پوری کر بھی دیں تو دوبارہ، سہہ بارہ مانگنے پر بتدریج رویے میں تبدیلی آپ صاف محسوس کرسکیں گے چاہے کتنا ہی قریبی تعلق کیوں نہ ہو۔ دینِ حنیف نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی کہ بندوں کے آگے تذلل و عاجزی اختیار کرنے کے بجائے صرف حقیقی مالک سے مانگو، جو ان سب کو بھی دینے والا ہے جس سے تم اُس کے سوا امیدیں وابستہ کرتے ہو۔ کبھی صاحبِ مال سے تو کبھی صاحبِ جاہ و منصب سے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ان اصحاب مال و مناصب کے حال کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ چاہیں تو ایک لمحہ میں تبدیل فرمادیں اور تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ پس رمضان المبارک ہمارے لیے ایک موقع ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنے مُنعمِ حقیقی کے ساتھ تعلق قائم و بحال کرسکتے ہیں۔
ایک بہت بڑی کوتاہی جو ہم سب میں اِلا ماشاء اللہ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، یہ کہ ہم صرف مصیبت کے وقت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پُکارتے اور اُس کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ آسانیوں اور نعمتوں میں اُسے بھلائے رہتے ہیں اور یہ بہت بڑی محرومی کی بات ہے۔ ایک عالِم اس کے بارے میں مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں: "مثال کے طور پر آپ مسجد گئے، پڑوسی کو دیکھا، دعا مانگ رہا ہے: "اے اللہ میرے بیٹے کو صحت دے" آپ نے دل میں کہا آمین، بیچارے کا بیٹا بیمار ہے اس کیلئے صحت کی دعا کررہا ہے۔ دوسری طرف رُخ پھیرا تو ایک اور نمازی دعا مانگ رہا ہے: "اے اللہ میری معاشی مشکلات کو دور فرمادے" آپ نے دل میں کہا: آمین، بیچارہ مالی مشکلات سے دوچار ہے، اللہ آسان فرمائے۔ پھر اپنے بارے میں سوچنا شروع کرتے ہوئے آپ نے جائزہ لیا، "میں کیا مانگوں؟ کاروبار بہت اچھا جارہا ہے، بیوی بچے ٹھیک ٹھاک ہیں، مجھے بھی کوئی بیماری نہیں، کوئی پریشانی نہیں سب بہت اچھا ہے۔ تو کیا مانگوں؟" آیئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں وہ ہمیں کیسی دعائیں تعلیم فرماتے ہیں۔ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ یہ دعا مانگی:
"اللھم انی اعوذبک من زوال نعمتک، و تحول عافیتک، و فجاءۃ نقمتک، و جمیع سخطک"
کہ اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں تیری نعمتوں کے جو مجھ پر ہیں، زائل ہونے سے، اور تیری عافیت کے پِھر جانے سے، اور تیری جانب سے اچانک کسی عقوبت کے نازل ہونے سے اور تیرے تمام تر غصے اور ناراضگی سے"
کہ اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں تیری نعمتوں کے جو مجھ پر ہیں، زائل ہونے سے، اور تیری عافیت کے پِھر جانے سے، اور تیری جانب سے اچانک کسی عقوبت کے نازل ہونے سے اور تیرے تمام تر غصے اور ناراضگی سے"
آپ نے ملاحظہ کیا؟ صرف نعمتوں کا وجود ہی کافی نہیں ان کا دوام بھی ہم سب کیلئے ضروری ہے اور اس کیلئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے مانگتے رہنا اور اس کا شکر ادا کرتے رہنا ہم پر لازم ہے
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"جس کو خواہش ہو کہ اللہ تعالیٰ شدائد و تکالیف میں اُس کی دعا قبول کریں تو اسے چاہیے کہ راحت کے وقت میں کثرت سے دعا کرے"
(ترمذی و حاکم،حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی تائید کی ہے)
(ترمذی و حاکم،حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی تائید کی ہے)
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:
"اللہ کو راحت میں پہچانو، وہ تمہیں شدت (مصائب) میں پہچانے (تمہاری دعا سنے) گا"
(صحیح الجامع)
(صحیح الجامع)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں دعا کی توفیق عطا فرمائیں اور ہماری دعائیں قبول فرمائیں۔ آمین۔
(آئندہ دو سے تین دروس بھی دعا سے متعلق ہوں گے ان شاء اللہ تاکہ مزید کچھ پہلوؤں کا احاطہ کیا جاسکے)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں