گیارہواں درس: رمضان المبارک ۔۔۔ قیام اللیل کا مہینہ


"اے چادر میں لپٹنے والے! رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر باقی رات میں (عبادت کیلئے) کھڑے ہوجایا کرو" (سورۃ مزمل آیات ۱،۲) ۔

یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اپنے محبوب بندے اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تاکید تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کو پوری طرح بجالایا، چنانچہ آپ قیام فرماتے، اسے خوب طول دیتے۔

رمضان المبارک کی دن کی عبادت روزہ رکھنا ہے اور اس کی راتوں کی عبادت قیام کرنا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

"جس نے رمضان میں قیام کیا ایمان اور احتساب کے ساتھ، اس کے وہ گناہ جو وہ کرچکا ہے، معاف کردیئے جائیں گے"
(اسے بخاری سمیت چھ محدثین نے روایت کیا ہے)


قلت لليل هل بجوفك سر
عامر بالحديث والأسرار
قال لم الق في حياتي حديثا
كحديث الأحباب في الأسحار

میں نے رات سے پوچھا کہ تمہارے بطن میں کوئی راز کی بات بھی ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسی باتیں نہیں سنیں جیسی سحر کے وقت میں احباب کرتے ہیں


روزہ داروں کی رات بہت مختصر ہوتی ہے، کیونکہ وہ بہت لذت بھری ہوتی ہے۔ اور اس کے برعکس فجار کی رات بہت لمبی ہوتی ہے کیونکہ کسی قسم کی لذت سے عاری ہوتی ہے۔

فقصارهن من الهموم طويلة
وطوالهن مع السرور قصار

(پس رات کی صفت یہ ہے کہ) ان میں سے بہت چھوٹی بھی کافی لمبی گزرتی ہے اگر رنج و غم کا عالم ہو، اور لمبی راتیں بھی خوشی و فرحت کے ساتھ بہت چھوٹی ہوجاتی ہیں۔


اللہ تعالیٰ نے اپنے صالح بندوں کی صفت یہ بیان فرمائی ہے:
كَانُوا قَلِيلاً مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ
"وہ رات کے وقت بہت کم سوتے تھے" (سورۃ الذاریات: ۱۸)


اور سحر کے وقت میں ان کی یہ صفت بیان فرمائی:
وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ
"اور سحری کے اوقات میں وہ استغفار کرتے تھے" (سورۃ الذاریات: ۱۸) ۔


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین چاہے وہ مہاجرین تھے یا انصار، رات کے وقت ان کے رونے کی آوازیں سنی جاسکتی تھیں۔ اور دن کے وقت وہ شیروں کی سی بہادری دکھاتے تھے۔ شاعر کہتا ہے:

في الليل رهبان وعند لقائهم
لعدوهم من أشجع الشجعان
رات کو اپنے بستروں سے دور عبادت میں مشغول رہنے والے اور جب دشمن سے ان کا سامنا ہوتا ہے تو یہی بہادر ترین لوگ ہوتے ہیں۔


صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے گھر تو رات میں تلاوت قرآن اور دین کی تربیت کے مراکز بن جایا کرتے تھے اور ایک ہمارے آجکل کے گھر ہیں، جہاں سے رقص و موسیقی اور دیگر لہو و لعب پر مشتمل آوازیں آتی رہتی ہیں۔

جب ہم نے قیام ترک کیا تو ہمارے دل سخت ہوگئے، (خوفِ الٰہی کے) آنسو بہنا بند ہوگئے اور ہمارے ایمان کمزور ہوگئے۔

كن كالصحابة في زهد وفي ورع
القوم هم ما لهم في الناس أشباه
عباد الليل إذا جن الظلام بهم
كم عابد دمعه في الخد أجراه

"زہد و ورع میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرح ہوجاؤ، وہ ایسی قوم تھی جن کی کوئی مثال انسانوں میں نہیں ملتی۔ (ان کی صفت یہ تھی کہ) راتوں میں عبادت کیا کرتے تھے۔ کتنے ہی ان کے عبادت گزار تھے جن کے گالوں پر آنسوؤں کی لکیریں بن جایا کرتی تھیں"


اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک موقع پر فرمایا:
"اے عبد اللہ فلان کی طرح نہ ہوجانا، وہ راتوں کو قیام کرتا تھا پھر اس نے اسے ترک کردیا"
(متفق علیہ)


اور رات کے قیام پر جس چیز کو یاد کرنا مددگار ثابت ہوسکتا ہے، وہ قیامت کی ہولناکی ہے۔ یاد کیجیے جب سب لوگ اپنے رب کے آگے پیش کیے جائیں گے۔ جب دلوں کے راز باہر آجائیں گے اور قبریں کھول دی جائیں گی۔

(اخذ و ترجمہ از: "ثلاثون درسا للصائمین، از دکتور عائض القرنی)
__________________

تبصرے