بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ
اور جو کوئی اللہ پر ایمان لاتا ہے، وہ اُس کے دِل کو ہدایت بخشتا ہے۔
(التغابن:11)
اور دل کی ہدایت تمام ہدایتوں کی بنیاد، ہر توفیق کا نقطۂ آغاز اور ہر عمل کی اساس ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"بے شک جسم میں ایک (گوشت کا) ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہوجائے تو تمام جسم صحیح ہوجاتا ہے اور اگر وہ فاسد ہوجائے تو تمام جسم فاسد ہوجاتا ہے اور بے شک وہ دل ہے"
(بخاری و مسلم)
پس دل کی اصلاح ہی دنیوی و اخروی سعادت کی بنیاد ہے اور اس میں بگاڑ یقینی ہلاکت کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک مقام پر نصیحت و عبرت حاصل کرنے کیلئے دل کے (درست) ہونے کی ضرورت کو بیان فرماتے ہیں:
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ
یقیناً اس میں اُس شخص کیلئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے۔
(ق:37)
اور ہر انسان کا دل ہوتا ہے مگر ان دلوں کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ دل جو ایمان کے نور سے منور ہوتا ہے، یقین سے پُر ہوتا ہے اور تقویٰ پر کاربند ہوتا ہے۔ یہی دل زندہ کہلانے کا مستحق ہے۔ دل کی دوسری قسم وہ ہے جو ہر قسم کے فساد سے تو پُر ہوتا ہے البتہ ایمان سے خالی ہوتا ہے۔ ایسے دل کو باوجود یہ کہ اس میں روح موجود ہو، مردہ کہنا درست ہوگا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان لوگوں (منافقین) کے دلوں کے بارے میں، جو اپنے رب کے ذکر سے دور اور غفلت میں رہتے ہیں، فرماتے ہیں:
فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً
ان کے دلوں میں مرض ہے، چنانچہ اللہ نے ان کے مرض میں اور اضافہ کردیا ہے۔
(البقرة: من الآية10)
اور مزید فرماتے ہیں:
وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلاً مَا يُؤْمِنُونَ
اور یہ لوگ کہتے ہیں: "ہمارے دل غلاف میں ہیں" ۔ نہیں! بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال رکھی ہے، اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔
(البقرة:88)
ایک اور مقام پر ایسے دلوں کا ذکر یوں فرمایا:
أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا
بھلا کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے، یا دلوں پر وہ تالے پڑے ہوئے ہیں جو دلوں پر پڑا کرتے ہیں؟
(محمد:24)
مزید فرمایا:
وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ
اور (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہتے ہیں کہ: "جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو، اُس کیلئے ہمارے دل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں، ہمارے کان بہرے ہیں،
(فصلت: من الآية5)
پس ان آیات سے ہمیں معلوم ہوا کہ دل مریض بھی ہوتے ہیں، ان پر (بد اعمالی کے سبب) غفلت کے پردے بھی پڑجاتے ہیں، ایسے سخت دل بھی ہوتے ہیں جن پر تالے پڑ جاتے ہیں اور وہ کسی حالت میں بھی حق کو قبول نہیں کرتے۔
اگرچہ بے شک اللہ کے دشمنوں کے سینوں میں ان کے دل موجود ہوتے ہیں، مگر ان کے دلوں کی صفت یہ ہے کہ وہ سمجھ نہیں رکھتے۔ اسی لیے اللہ کے محبوب بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
"يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك"
"اے دلوں کو قوت دینے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ"
(ترمذي)
مومن کا دل رمضان اور غیر رمضان میں روزہ سے ہوتا ہے اور دل کا روزہ اسے ہلاک کردینے والی چیزوں سے پاک رکھنا ہے مثلاً اعتقاداتِ باطلہ، شرک، ریاء، حسد، کینہ، برے وسوسے۔
رأيتُ الذنوب تُميتُ القـلوب
وقـد يُـورِثُ الـذُلُّ إدمـانـُهــا
وتـركُ الذنــوبِ حيـاةُ القـلوب
وخيــرٌ لـنـفـسـكَ عِـصـيـانــُها
میں نے دیکھا ہے کہ گناہ دلوں کو مُردہ کردیتے ہیں، اور ان پر مداومت ذلت کا باعث بنتی ہے۔ اور گناہوں کو ترک کرنا دلوں کی حیات کا باعث ہے اور تمہارے نفس کی بہتری اسی میں ہے کہ تم اس (نفس) کی بات نہ مانو۔
مومن کا دل حُبِ الٰہی سے لبریز ہوتا ہے، اُس کی یاد سے ہمیشہ آباد رہتا ہے چاہے وہ دنیاوی کاموں میں کتنا ہی مشغول کیوں نہ ہو، دلی تعلق اپنے رب کے ساتھ ہر لحظہ قائم رکھتا ہے۔ اور جب بندے کو یہ مقام نصیب ہوجاتا ہے تو اس کے لیے دنیا کی ہر مصیبت ہیچ ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے رب کے ساتھ تعلق کی لذت کو جب پا لیتا ہے، تو اُسے تختِ سلطانی بھی اس لذت کے سامنے بے وقعت نظر آنے لگتا ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ فرمایا:
"اگر بادشاہ اور بادشاہ زادوں کو ان نعمتوں کا علم ہوجائے جن میں ہم ہیں، تو وہ انہیں حاصل کرنے کیلئے ہمارے ساتھ تلواروں سے لڑیں"
مومن کا دل ایمان کے ایسے نور سے منور ہوتا ہے جس کی موجودگی میں کسی قسم کی تاریکی کی گنجائش نہیں رہتی۔ یہ توحید و رسالت کے عرفان اور ان پر ایمان کا نور ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد فطرتِ سلیمہ کا وہ نور ہے جو اللہ نے اس کے نفس کے اندر رکھا ہوتا ہے۔
مومن کا دل تکبر سے بھی روزہ رکھتا ہے کیونکہ یہ دل کے روزے کو توڑنے والی چیز ہے۔ پس اگر کسی دل میں تکبر جگہ پاجائے تو اُسے ہم بیمار اور نادان دل کہیں گے۔
مومن کا دل عُجب (خود رائی) سے بھی پاک رہتا ہے۔ اور عُجب کے معنی یہ ہیں کہ انسان خود کو کامل سمجھے، اور یہ کہ وہ دوسروں سے افضل ہے، اور یہ کہ اُس میں ایسی صفات جمع ہوگئی ہیں جن سے دوسرے خالی ہیں۔ اور یہ سب ہلاکت و گمراہی کا باعث ہے۔ اور اس عُجب کا علاج یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کے عیوب پر نظر کرے، اپنی کثرتِ تقصیر کو تصور میں لائے اور اپنے ہزاروں گناہوں اور خطاؤں کو یاد کرے۔ جنہیں وہ تو کرکے بھول گیا مگر ان کا علم اس کے رب کے پاس ہے جو نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔
مومن کا دل حسد سے بھی روزہ رکھتا ہے۔ کیونکہ حسد اعمالِ صالحہ کو تباہ کرنے والا ہے اور دل کے نور کو بجھا دینے والی چیز ہے۔ یہ بندے کے اللہ تعالیٰ کی طرف قُرب کے سفر میں رکاوٹ ڈالنے والی خُو ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے متعلق تین مرتبہ فرمایا کہ وہ جنتی ہے۔ جب اُن صحابی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ اُن کا ایسا کون سا عمل ہے جس سے وہ جنت میں جائیں گے؟ تو انہوں نے جواب دیا:
"میں ہرگز نہیں سوتا ایسی حالت میں کہ میرے دل میں کسی مسلمان کے خلاف حسد یا کینہ یا دھوکہ دہی کے جذبات موجود ہوں" ۔
(مسند احمد)
اے اللہ ہمارے دلوں کو صراطِ مستقیم کی جانب پھیر دیجیے اور ہمیں اُس پر ثابت قدم رکھیے۔ آمین
(اخذ و ترجمہ از: ثلاثون درسا للصائمین، بعض اضافوں کے ساتھ)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں