شیطان کے ساتھ ایک مکالمہ

 فجر کی اذان سن کر جب میں نماز کیلئے اٹھنے کا ارادہ کررہا تھا، تو شیطان نے میرے کان میں سرگوشی کی۔

"ابھی رات بہت باقی ہے، تھوڑا سا اور سولو"

میں: "مجھے ڈر ہے کہیں نماز نہ قضا ہوجائے"

"ابھی سورج نکلنے میں بہت دیر ہے"

"جماعت نکل جائے گی"

"تو گھر میں پڑھ لینا، کون سا جماعت سے پڑھنا فرض ہے تم پر"

" لیکن جماعت کی نماز اکیلے نماز سے کم از کم پچیس گنا زیادہ افضل ہے۔"

" اپنے آپ پر ظلم مت کرو، تمہارے نفس کا بھی تو تم پر حق ہے"

کچھ نیند کا زور، کچھ اس کی ترغیب سے مجھ پر سستی طاری ہوگئی، میں نے سوچا کہ بس چند منٹ اور۔۔۔۔

پھر آنکھ اس وقت کھلی جب سورج نکلے بھی کافی دیر ہوچکی تھی۔

میں نے وضو کیا اور قضا نماز پڑھی۔ مجھے افسوس ہورہا تھا کہ میری نماز قضا ہوگئی۔ میں استغفار پڑھ رہا تھا کہ وہی جانی پہچانی سرگوشی دوبارہ سنائی دی:

"تم نماز رہ جانے پر شرمندگی محسوس نہ کرو، ابھی تو عمر پڑی ہے توبہ کیلئے"

"تم مجھے توبہ گار ہونے سے بھی روکنا چاہتے ہو"

"انسان تو خطا کا پتلا ہے، ہوسکتا ہے دن بھر میں تم سے اور بھی کوتاہیاں ہوں، اپنی توبہ کو مؤخر کردو، ایک ہی بار کرلینا"

"موت کبھی بتا کر نہیں آتی"

"تعجب ہے تم پر، ذرا اردگرد کی خبر لو کہ تمہاری عمر کے نوجوان کیسے عیش و آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں، اور تم ہو کہ اس کم عمری میں تمہیں موت کی فکر پڑگئی ہے۔"

"انہوں نے موت کو بھلا رکھا ہے، اگر چند لحظات وہ آخرت کا تصور کرلیا کریں تو اتنی غفلت طاری نہ ہوا کرے ان پر"

"آخر تم اپنے رب سے بھلائی کی توقع کیوں نہیں رکھتے؟"



"بیشک اللہ سے بھلائی کی توقع رکھنی چاہئے مگر اعمال صالحہ کے ساتھ، کیونکہ اس نے اپنی کتاب میں برائی کی سزا کو بھی تو واضح بیان کردیا ہے"

شاید وہ کچھ جھنجھلا گیا تھا کہ کافی دیر تک میں نے اس کی کوئی سرگوشی نہیں سنی۔

کچھ دیر بعد وہ پھر آنمودار ہوا اور مجھے فارغ بیٹھا دیکھ کر کہا

"تم اپنے دل کو موسیقی سے کیوں نہیں بہلاتے؟"

"مگر یہ تو حرام ہے"

"تم کم علم ہو، اس دور میں متعدد مشہور علماء نے اسے جائز قرار دے دیا ہے"

"جب اس کی حرمت کی دلیل میں واضح نصوص وارد ہیں تو اسے جائز قرار دینے والوں کو میں عالم نہیں جاہل سمجھتا ہوں"

"آخر کو ہو نا بنیاد پرست، اسلام تو اعتدال کا درس دیتا ہے، تم اتنی سختی کیوں کرتے ہو؟"

"یہ اعتدال پسندی اس کے تمام احکام میں پائی جاتی ہے، لہذا ان پر عمل کرنا ہی تو اصل اعتدال ہے، نہ کہ اپنی مرضی سے ان احکامات میں ردوبدل کردینا۔ یہود و نصاری نے ایسا کیا تو ان کا دین تحریف شدہ کہلایا اور ان کی شریعت منسوخ ہوئی، اور ہم ایسا کریں تو اعتدال پسند کہلائیں۔۔۔ چہ خوب۔"

اتنے میں کھڑکی سے باہر جھانکا تو ایک بے حجاب لڑکی پر نظر پڑی، میں نے نظریں جھکا لیں۔ شیطان پھر بولا

"اسے دیکھنے میں کیا برا تھا؟ صرف نظر ہی تو ہے۔"

میں نے کہا

"ہمیں نظر جھکانے کا حکم ہے، اسے دیکھنا بے شمار برائیوں کے دروازے کی کنجی ثابت ہوگا۔"

"کیا تم نہیں جانتے کہ تم اپنے عمل کے سبب سے جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک اللہ کی رحمت شاملِ حال نہ ہو؟ پھر اپنے نفس کو کیوں اتنی مشقت میں ڈالتے ہو؟"

"لیکن نیک اعمال پر مداومت بھی تو جنت میں داخلے کا ایک بڑا سبب ہے، یہ تو تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ صالح اعمال کرنے والے اللہ کی رحمت کے زیادہ مستحق ہیں ورنہ تم بھی تو اس کی ایک مخلوق ہو"

پھر میں نے اسے کہا

"اب تم میرے چند سوالات کا جواب دو"

اس نے اجازت دے دی، میں نے پوچھا

"تم کہاں رہتے ہو؟"

"ہر اس شخص کے گھر میں جو گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہیں کرتا"

"تمہارے کھانے کا بندوبست کہاں سے ہوتا ہے؟"

"جو شخص کھانا شروع کرتے ہوئے بسم اللہ نہیں پڑھتا مجھے اس کے کھانے پر پورا تصرف حاصل ہوجاتا ہے، اسی کے ساتھ کھالیتا ہوں"

"کیا بات تمہیں خوش کرتی ہے؟"

"اب زیادہ تر میرے چیلے ہی میرے احکامات بجا لاتے ہیں، خوشی تو بے حد ہوتی ہے جب وہ کسی سے کوئی بھی برا کام سرانجام دلانے میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں، لیکن سب سے زیادہ شاباش میں اس چیلے کو دیتا ہوں جو میاں بیوی کے درمیان ناراضگی ڈالنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔"

"اچھا تو سب سے زیادہ افسوس تمہیں کب ہوتا ہے؟"

" جب تم میں سے کوئی سجدہ کی آیت پڑھتا ہے اور پھر سجدہ کرتا ہے۔ اس موقع پر میں روتا ہوا ایک طرف چلا جاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ خرابی ہو اس کی یا میری، اسے سجدہ کا حکم ہوا اور اس نے سجدہ کیا۔ اب اس کو جنت ملے گی۔ اور مجھے سجدہ کا حکم ہوا اور میں نے انکار کیا۔ اب میرے لئے جہنم ہے۔"

"علم کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو؟"

"اہل علم سے میری ازلی دشمنی ہے، جہالت کے اندھیرے میں میرا وار زیادہ کارگر رہتا ہے لیکن جہاں علم آتا ہے، وہاں میری چالیں نہیں چلتیں، ہاں کچھ علم والے بھی میرے بہترین دوست بن جاتے ہیں، اس وقت جب وہ اس علم پر عمل نہیں کرتے جو ان کے پاس ہوتا ہے۔"

"فلموں، اور شوبز سے متعلقہ رسالوں کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ "

"ان کے ذریعے میرے بیشمار مقاصد بڑی خوبی سے پورے ہوتے ہیں، اور ایسے رسالے تو میری "مقدس کتابیں" ہیں۔"

"تم آخر کس طرح لوگوں کو دھوکے میں ڈالتے ہو؟"

"زیادہ تر جھوٹی امیدیں دلا کر، ہوس کے جال میں پھنساتا ہوں اور دنیا کی زیب و زینت اس جال کا دانہ ہے"

"تمہیں کونسی آواز بہت زیادہ پسند ہے؟"

"بھلا کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ موسیقی کی"

"تم عورتوں کو کس طرح گمراہ کرتے ہو؟

"انہیں بناؤ سنگھار اور اپنے زیب و زینت کی نمائش پر مجبور کرکے، بے پردگی کے اسی عالم میں انہیں گھروں سے نکال کر ان کے ذریعے مردوں کو فتنے میں ڈالتا ہوں"

"نوجوانوں کو کیسے شکار کرتے ہو؟"

"(قہقہہ کی آواز) ان کو تو کبھی کبھار بہکانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ کیونکہ یہ عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں کہ ان کی عقل ناپختہ اور ہوائے نفسانی عروج پر ہوتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں ان پر توجہ نہیں دیتا، بلکہ میری سب سے زیادہ توجہ انہی پر رہتی ہے، پھر جو ان میں سے راستی کی جانب مائل ہوتا بھی ہے، اسے بدی کی جانب مائل کرنے کیلئے میرے چیلے ہزار چالیں چلتے ہیں۔ اگر وہ سب ناکام ہوجائیں تو میں خود انہیں بہکانے نکل کھڑا ہوتا ہوں۔"

"یعنی نوجوان تمہارا خاص الخاص شکار ہیں۔ یہ بتاؤ کہ تم ان پر اتنی زیادہ محنت کیوں کرتے ہو؟"

"سامنے کی بات ہے۔ یہی تو آئندہ نسلوں کے معمار ہوتے ہیں۔ پھر ان میں جو جذبہ اور عزم پایا جاتا ہے کچھ کر گزرنے کا، جب اس میں اتباع حق بھی شامل ہوجائے تو پھر سب سے زیادہ نقصان مجھے یہی پہنچاتے ہیں اور ان کی راہ روکنا میرے لئے مشکل ترین ہوجاتا ہے۔"

"اچھا تمہارا بدترین دشمن کون ہے؟"

"صرف موجودہ دور کے بارے میں پوچھ رہے ہو یا گذشتہ ادوار کا بھی؟"

"گذشتہ ادوار کا تو مجھے کچھ اندازہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کی جماعت تمہاری بدترین دشمن تھی۔ بالخصوص نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے زیادہ تو تمہیں کوئی بات شاق نہیں گزری، مجھے اس دور کے بارے میں بتاؤ"

"جب تمہیں علم ہے کہ ماضی میں کون لوگ میرے دشمن رہے تو حال میں بھی ظاہر ہے انہی کے وارث اور پیروکار میرے بدترین دشمن ہیں۔"

"یعنی تمہارے سب سے بدترین دشمن علمائے دین ہیں؟، کیونکہ انہی کو انبیاء کا جانشین کہا گیا ہے"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



"ہاں"


"کچھ وضاحت کرو کہ علماء تمہارے بدترین دشمن کیوں ہیں؟"

"کیونکہ یہ نہ صرف یہ کہ خود دین پر عمل پیرا ہوتے ہیں، بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی ہمارے جال سے بچانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہی بے شمار لوگ ہمارے جال میں پھنس کر بھی نکل جاتے ہیں"

"اچھا تو علماء کے بعد تمہارے بڑے دشمن کون ہیں؟"

"وہ لوگ جنہیں دین کا جتنا علم ہوتا ہے، اپنے اس علم پر پوری طرح عمل کرتے ہیں، اور ہر معاملے میں شریعت کو مقدم رکھتے ہیں۔ اسلامی احکامات کی پابندی کرتے ہیں۔ یہ بھی مجھے سخت ناپسند ہیں۔"

"اب کچھ اپنے دوستوں کے بارے میں بتاؤ"؟

"میں تم کو ایک آسان سا اصول بتادیتا ہوں، پھر تمہیں خود بخود یہ سمجھ آجائے گا کہ کون میرے بہترین دوست ہیں۔"

"ضرور بتاؤ"

شیطان: "لوگوں میں سے افضل ترین انبیاء ہیں، تو بدترین وہ ہوگا جو نبی نہ ہو لیکن نبوت کا دعوی کرے۔ یہی مثال علماء کی ہے، جو ان میں سے دین کا خدمت گزار، وہ میرا بدترین دشمن، لیکن جو ان کی جماعت میں شامل ہوکر صحیح بات چھپائے، اور اپنے علم کو حصول مال کا ذریعہ بنائے، تو وہ میرا بہترین دوست ہے، کیونکہ وہ نہ صرف خود گمراہ ہوا بلکہ اپنے ساتھ بہتیروں کو گمراہ کیا۔ بعینہ صالحین میرے بدترین دشمن ہیں، لیکن وہ جو دنیا دکھاوے کیلئے نمازیں پڑھتے، زکوۃ دیتے اور لوگوں کے سامنے ہر اچھے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، لیکن پس پردہ ہر برائی میں مبتلا ہوتے ہیں،۔۔

میں: (بات کاٹ کر) "تمہاری مراد ریا کار ہیں؟"

شیطان: "ہاں وہی، جو بظاہر صالح لیکن بباطن میرے پیروکار ہوں، وہ بھی میرے بہترین دوست ہیں۔ تو اب تمہیں سمجھ آگیا ہوگا یہ اصول کہ میرے دوست کون ہیں اور دشمن کون؟"

اس سے پہلے کہ شیطان کچھ کہتا، ظہر کی اذان شروع ہوگئی۔ پھر میں نے شیطان کی بلبلاہٹ سنی اور مجھے وہ حدیث مبارکہ یاد آگئی کہ شیطان اذان کی آواز سنتا ہے تو اس جگہ سے بھاگ جاتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ اب شاید اذان ختم ہونے کے بعد ہی وہ نمودار ہو۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ اذان ختم ہونے کے کچھ دیر بعد مجھے پھر اس کی سرگوشی سنائی دی:

"تمہیں اور بھی کچھ پوچھنا ہے؟"

"نہیں، لیکن مجھے حیرت ہے کہ تم کس طرح اپنے سارے راز میرے سامنے کھولتے چلے جارہے ہو"۔

(قہقہہ لگاتے ہوئے) "میں نے تمہیں کوئی خاص معلومات نہیں دیں، تم مسلمان اللہ کی کتاب سے دور ہوچکے ہو ورنہ تمہیں علم ہوتا کہ میری چالوں کی اس سے کہیں زیادہ تفصیل تو اس میں موجود ہے، پھر میں نے تمہیں کوئی ایسی بات نہیں بتائی جس کی بناء پر تم مجھے کوئی نقصان پہنچا سکو، میں نے تمہیں بتایا کہ میرے بدترین دشمن کون ہیں، لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان سے نبٹنے کیلئے میں کیا کرتا ہوں، میں نے تمہیں بتایا کہ نوجوان میرا خاص شکار ہیں، اور یہ کہ میرے چیلے انہیں گمراہ کرنے کیلئے بہتیری چالیں چلتے ہیں، اب وہ چالیں کیا ہیں؟ یہ تمہیں ہرگز نہیں بتاؤں گا۔"

عقل مند کیلئے تو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ پھر بحیثیت مسلمان مجھے یہ تو پتہ ہے کہ ہر وہ کام جس کی شریعت میں ممانعت ہے، تم اس کے انجام دینے سے خوش ہوتے ہو، اور جن کاموں کا حکم ہے، ان پر عمل سے ناخوش ۔۔۔ اب تم بتاؤ یا نہ بتاؤ، میں ان شاء اللہ اپنا بچاؤ کرلوں گا۔

(افسردہ سی آواز می) ہاں تم ان لوگوں میں سے ہو، جو بہت دیندار ہیں، تم پر میرا کوئی وار کارگر نہیں ہوا"

میرے دل کے کسی نہاں خانے میں احساس تفاخر نے سر اٹھایا۔

یکدم مجھے یاد آیا کہ ظہر کی اذان ہوئے کافی وقت گزر چکا ہے اور اب تب میں جماعت کھڑی ہونے والی ہے، میں نے کہا:

"اب جلدی سے یہاں سے نکل کھڑے ہو، میں نماز پڑھنے جارہا ہوں اور ابھی مجھے وضو بھی کرنا ہے"

شیطان بولا

" جلدی جلدی وضو کرلو کہ جماعت نہ نکل جائے۔"

میں بسرعت واش بیسن کی جانب بڑھا، مجھے اس پربھی حیرت ہورہی تھی کہ یہ انسان کا ازلی دشمن جلدی وضو کرنے کی تاکید کیوں کرگیا۔ خیر چونکہ مجھے جماعت کی فکر تھی، اس لئے جیسے تیسے وضو کرکے مسجد کی طرف تیز تیز قدموں سے بڑھتا چلا گیا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ قصہ تمام ہوا، لیکن اس کا ایک اہم حصہ ابھی باقی ہے۔


اسی روز جب میں مغرب کی نماز پڑھ کر واپس آیا تو شیطان کے آخری جملے پر میرے دل میں ایک خلش سی باقی تھی۔ آخر کیا وجہ تھی کہ اس نے مجھے جلدی وضو کرنے کی تاکید کی۔ میں کافی دیر سوچتا رہا لیکن سبب نہ سمجھ پایا۔ آخر کار میں نے سارا معاملہ بھائی جان کے گوش گزار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

کچھ دیر بعد میں نے بھائی جان کے کمرے کا رخ کیا۔ وہ مطالعہ کررہے تھے، مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ میں نے کہا:
"السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ"

"وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ، آؤ بیٹھو بھائی، کیسے ہو تم؟ اور آج کا دن کیسا گزرا؟"

الحمد للہ میں بالکل ٹھیک ہوں بھائی جان، اور دن کے آغاز کو تو کچھ اچھا نہیں کہہ سکتا، البتہ باقی دن اچھا گزرا بفضل اللہ۔"

بھائی جان: "ہمم ۔۔ شاید تم سے فجر کی نماز قضا ہوگئی، تم مجھے مسجد میں بھی نظر نہ آئے تھے۔"

"جی بھائی جان، اور میں اس کی وجہ بھی آپ کو بتاتا ہوں"

پھر میں نے شیطان کے ساتھ ہونے والی اپنی تمام باتیں بھائی جان کے گوش گزار کردیں۔ انہوں نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ میری باتیں سنیں، بیچ میں کہیں کہیں تھوڑا سا مسکرائے بھی مگر بولے کچھ نہیں۔ سارا واقعہ سن لینے کے بعد وہ یوں گویا ہوئے:

"تمہارے جوابات کافی حد تک مناسب تھے، اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تمہارے خیال میں شیطان تمہارے خلاف مکمل طور پر ناکام رہا؟"

"مکمل طور پر تو نہیں، لیکن نماز فجر کے قضا ہوجانے میں اس کی کوششوں کا دخل ضرور رہا"۔

"اس کے علاوہ"

"اس کے علاوہ تو میرا خیال ہے کہ اسے کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی، اس حوالے سے میں مطمئن ہوں، البتہ اس کے آخری جملے نے مجھے کافی حیران کیا اور میں کافی دیر تک اس بارے میں سوچنے کے باوجود کسی نتیجے پر نہیں پہنچا"

بھائی جان: "یہ جملہ نہیں تھا بلکہ اس کا ایک خاص حملہ تھا جو اس نے تم پر کیا، اور اس کے علاوہ بھی ایک اور جگہ تم اس کے جال میں پوری طرح پھنس چکے جس کی تمہیں بھنک بھی نہیں پڑی"۔

میں: (حیرت سے) "حیرت انگیز۔۔۔ بھائی جان براہ کرم مجھے اس کی تفصیل بتائیں"

"دیکھو میرے خیال کے مطابق شیطان نے تم پر کم از کم تین وار کیئے، پہلا تو نماز فجر کے وقت سستی کی ترغیب تھا، مقصد نماز سے غافل کردینا تھا حتی کہ اس کا وقت نکل جائے، اور اس میں وہ کامیاب رہا۔

اس کا دوسرا وار یہ تھا کہ اس نے نہایت مسکین سا لہجہ بناتے ہوئے تمہیں کہا کہ تم ان دیندار لوگوں میں سے ہو، جن پر اس کا وار نہیں چلا، جس کا اثر تم نے بتایا کہ تم نے اپنے دل میں فخر سا محسوس کیا، یہ تمہیں تکبر اور خود پسندی میں مبتلا کرنے کی چال تھی۔ اور یہ شیطان کا وہ جال ہے جس میں اس نے بڑے بڑے عابدوں اور زاہدوں کو پھانسا ہے۔ عبادت میں جب تک عاجزی ہو، اللہ سبحانہ و تعالی کے ہاں مقبول ہے، قرآن مجید میں ایمان والوں کی صفت ایک مقام پر یوں بتائی گئی ہے:

" وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ "

ترجمہ: اوروہ تکبر نہیں کرتے (سورہ سجدہ آیت:15)

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ " وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی غرور اور گھمنڈ ہو گا۔" (صحیح مسلم)

یہ تکبر ہی تھا جس کی بنا پر خود شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کے سجدے کا انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔

کچھ توقف کے بعد بھائی جان پھر گویا ہوئے:

"شیطان کا تیسرا حملہ تم پر یہ تھا کہ پہلے تو اس نے تمہیں اذان ظہر کے بعد بھی باتوں میں الجھائے رکھا، پھر جب نماز کا وقت قریب ہوگیا تو تمہیں جلدی وضو کرنے کی تاکید کرکے بوکھلاہٹ میں مبتلا کرنے کی کوشش کی، اس کا مقصد یہ تھا کہ تم جلد بازی میں وضو ٹھیک طرح سے نہ کرسکو، اور ظاہر ہے جب وضو ٹھیک نہیں ہوگا تو نماز بھی ناقص رہے گی۔ دوسرا یہ کہ اس طرح تم سے قبل از ظہر کی سنتیں بھی رہ گئیں، اگرچہ وہ فرض نماز کے بعد بھی ادا کی جاسکتی ہیں مگر اولی یہی تھا کہ انہیں تم فرض سے قبل ہی ادا کرلیتے۔"

میں سوچ میں گم ہوگیا۔ اللہ کی پناہ، مجھے پتہ بھی نہیں چلا اور اس نے اتنے خطرناک وار کربھی دیئے مجھ پر۔

پھر میں نے بھائی جان سے پوچھا:

"اچھا اس نے یہ بھی کہا تھا کہ قرآن مجید میں میری چالوں کے بارے میں تفصیل موجود ہے، اس بارے میں بھی کچھ بتایئے"

بھائی جان بولے "دیکھو مختصراً کچھ بتاتا ہوں کیونکہ عشاء کی اذان ہونے والی ہے۔ جب ابلیس کو اللہ سبحانہ و تعالی نے راندۂ درگاہ قرار دے دیا، اور اسے قیامت تک کی مہلت بھی مل گئی، تب وہ بنی آدم کے ساتھ کھلی دشمنی پر اتر آیا اور یوں گویا ہوا:

قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16) ثُمَّ لَآَتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (17)

ترجمہ: اس (شیطان) نے کہا کہ بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے، میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کیلئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔ پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی اور آپ ان میں سے اکثروں کو شکرگزار نہ پائیے گا۔


"مطلب یہ ہے کہ شیطان نے اس ارادے کا اظہار کیا کہ میں ہر خیر اور شر کے راستے پر بیٹھوں گا خیر سے ان کو روکوں گا اور شر کو ان کی نظروں میں پسندیدہ بنا کر ان کو اختیار کرنے کی ترغیب دوں گا۔
خیر کے راستوں پر بیٹھنے کی ایک اور تفسیر یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایسے کاموں کو اچھا بتلا کر انہیں کرنے کی ترغیب دوں گا جن کی دین میں کوئی اصل نہیں ہوگی، اور یہ اسے نیکی سمجھ کر اس میں مبتلا ہوں گے، یہ بھی ایک بہت خطرناک وار ہے اور اس کے شکار کو توبہ کی توفیق بھی بمشکل ہوتی ہے"

"آخری بات کی کچھ وضاحت کریں بھائی جان، توبہ کی توفیق بمشکل کیوں ہوتی ہے؟"

"اس لئے کہ وہ تو اسے نیکی سمجھ کر، کرتے ہیں۔ ایسے میں کسی کی نصیحت بھی انہیں بری لگ جاتی ہے کہ یہ تو ہمیں بھلائی سے روک رہا ہے۔"

اسی دوران میں اذانِ عشاء کی تکبیر بلند ہوئی اور میں نے بھائی جان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے اجازت طلب کی تاکہ جماعت کھڑی ہونے سے قبل اطمینان سے وضو کرسکوں۔ میں نے دل میں تہیہ کرلیا تھا کہ اب ان شاء اللہ کچھ دینی علم ضرور حاصل کروں گا تاکہ شیطان کی چالوں سے پوری طرح آگاہی حاصل کرسکوں۔ کیا آپ بھی شیطان کے حملوں سے بچنا چاہتے ہیں؟ تو پھر دیگر دینی علوم کے ساتھ ساتھ قرآن مجید بمعہ تفسیر پڑھنے کیلئے ضرور وقت نکالیئے، بلکہ ہوسکے تو اپنے گھر کے کسی بزرگ سے یا محلہ کی مسجد کے امام صاحب سے پڑھیئے۔ اس سے بھی زیادہ بہتر ہے کہ کسی مدرسہ میں باقاعدہ داخلہ لے لیجئے۔

واللہ ولی التوفیق





مرکزی خیال ایک عربی مضمون سے ماخوذ

تبصرے