آزادیٔ نسواں کا فریب

اگر عورت اپنے گھر میں اپنے اور اپنے شوہر، اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کیلئے خانہ داری کا انتظام کرے تو یہ قید اور ذلت ہے۔ لیکن وہی عورت، اجنبی مردوں کیلئے کھانا پکائے، ان کے کمروں کی صفائی کرے، ہوٹلوں اور جہازوں میں ان کی میزبانی کرے، دوکانوں پر اپنی مسکراہٹوں سے گاہکوں کو متوجہ کرے اور دفاتر میں اپنے افسروں کی ناز برداری کرے تو یہ آزادی اور اعزاز ہے!



خطاب از مفتی محمد تقی عثمانی 
مغربی افکار کی یورش میں یہ پروپیگنڈہ آج ہر جگہ کیا جاتا ہے کہ اسلام کے اندر عورت کو نقاب اور پردے میں رکھ کر گھونٹ دیا گیا اور اس کو چار دیواری کے اندر قید کردیا گیا ہے، لیکن یہ سارا پروپیگنڈہ درحقیقت اس بات کا نتیجہ ہے کہ عورت کی تخلیق کا بنیادی مقصد معلوم نہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر اس بات پر ایمان ہے کہ اس کائنات کو پیدا کرنے والے اللہ تعالیٰ ہیں، انسان کو پیدا کرنے والے اللہ تعالیٰ ہیں، مرد اور عورت دونوں کو پیدا کرنے والے اللہ تعالیٰ ہیں، اگر خدانخواستہ اس پر ایمان نہ ہو تو پھر بات آگے نہیں بڑھ سکتی، اور اس زمانے میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان نہیں رکھتے اور لادینیت کے میدان میں روز بروز بڑھتے چلے جارہے ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ ایسی نشانیاں اور علامات دکھا رہے ہیں جس سے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے وجود کے قائل ہورہے ہیں۔ اگر اللہ پر ایمان نہ ہو تو پھر بات آگے چل ہی نہیں سکتی، لیکن اگر اللہ پر ایمان ہے اور یہ پتہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے، اور مرد کو بھی اسی نے پیدا کیا ہے اور عورت کو بھی اسی نے پیدا کیا ہے تو اب پیدائش کا مقصد بھی اسی سے پوچھنا چاہئے کہ مرد کو کیوں پیدا کیا اور عورت کو کیوں پیدا کیا اور دونوں کی تخلیق کا بنیادی مقصد کیا ہے؟

مرد اور عورت دو مختلف صنفیں ہیں
یہ نعرہ آج بہت زور و شور سے لگایا جاتا ہے کہ عورتوں کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہئے اور مغربی افکار نے یہ پروپیگنڈہ ساری دنیا میں کردیا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا کہ اگر مرد اور عورت دونوں ایک ہی جیسے کام کیلئے پیدا ہوئے تھے تو پھر دونوں کو جسمانی طور پر الگ الگ پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ مرد کا جسمانی نظام اور ہے عورت کا جسمانی نظام اور ہے مرد کا مزاد اور ہے اور عورت کا مزاج اور۔ مرد کی صلاحیتیں اور ہیں اور عورت کی صلاحیتیں اور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں صنفیں اسی طرح بنائی ہیں۔ یہ کہنا کہ دونوں کی تخلیقی ساخت اور اس کے نظام میں بنیادی فرق نہیں ہے، یہ خود فطرت کے خلاف بغاوت ہے اور مشاہدہ کا انکار ہے۔ اس لئے کہ یہ تو آنکھوں سے نظر آرہا ہے کہ مرد اور عورت کی ساخت میں فرق ہے، نئے فیشن نے مرد اور عورت کے فطری فرق کو مٹانے کی کتنی کوششیں کردیکھیں، چنانچہ عورتوں نے مردوں جیسا لباس پہننا شروع کردیا، اور مردوں نے عورتوں جیسا لباس پہننا شروع کردیا، عورتوں نے مردوں جیسے بال رکھنے شروع کردیئے۔ لیکن اس بات سے انکار اب بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کا جسمانی نظام مختلف ہے۔ 

اللہ تعالیٰ سے پوچھنے کا ذریعہ پیغمبر ہیں
لیکن یہ کس سے معلوم کیا جائے کہ مرد کو کیوں پیدا کیا گیا اور عورت کو کیوں پیدا کیا گیا؟ ظاہر ہے اس کا جواب یہی ہوگا کہ جس ذات نے پیدا کیا ہے اس سے پوچھو کہ آپ نے مرد کو کس مقصد کے تحت پیدا کیا؟ اور عورت کو کس مقصد کے تحت پیدا کیا؟ اور اس سے پوچھنے کا ذریعہ انبیائے کرام اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

انسانی زندگی کے دو شعبے
قرآن کریم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے کسی ادنیٰ شبہ کے بغیر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ درحقیقت انسانی زندگی دو مختلف شعبوں پر منقسم ہے۔ ایک گھر کے اندر کا شعبہ ہے اور ایک گھر کے باہر کا شعبہ ہے۔ یہ دونوں شعبے ایسے ہیں کہ ان دونوں کو ساتھ لئے بغیر متوازن زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ گھر کا انتظام بھی ضروری ہے اور گھر کے باہر کا انتظام یعنی کسب معاش اور روزی کمانے کا انتظام بھی ضروری ہے۔ جب دونوں کام ایک ساتھ اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک ٹھیک چلیں گے تب انسان کی زندگی استوار ہوگی اور اگر ان میں سے ایک ختم ہوگیا تو اس سے انسان کی زندگی میں توازن ختم ہوجائے گا۔

مرد اور عورت کے درمیان تقسیم کار
ان دونوں شعبوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ تقسیم فرمائی ہے کہ مرد کے ذمے گھر کے باہر کے کام لگائے مثلاً کسب معاش اور روزی کمانے کے کام، اور سیاسی اور سماجی کام وغیرہ۔ یہ سارے کام درحقیقت مرد کے ذمے عائد کئے ہیں اور گھر کے اندر کا شعبہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے حوالے کیا ہے، وہ اس کو سنبھالیں۔ اس لئے مرد اور عورت کے درمیان اگر تقابل کرکے دیکھا جائے تو ظاہر ہوگا کہ جسمانی قوت جتنی مرد کے اندر ہے اتنی عورت میں نہیں اور کوئی شخص بھی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے مرد میں عورت کی بنسبت جسمانی قوت زیادہ رکھی ہے اور گھر کے باہر کے کام قوت کا تقاضہ کرتے ہیں، محنت کا تقاضہ کرتے ہیں۔ وہ کام قوت اور محنت کے بغیر انجام نہیں دیئے جاسکتے لہٰذا فطری تخلیق کا بھی یہی تقاضا تھا کہ گھر کے باہر کا کام مرد انجام دے اور گھر کے اندر کے کام عورت کے سپرد ہوں۔ 

عورت گھر کا انتظام سنبھالے
آیتِ مبارکہ:
و قرن فی بیوتکن
ترجمہ: تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔ 
اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو براہ راست خطاب فرمایا اور ان کے واسطے سے ساری مسلمان خواتین سے خطاب فرمایا۔ اس میں صرف اتنی بات نہیں کہ عورت کو ضرورت کے بغیر گھر سے باہر نہیں جانا چاہئے بلکہ اس آیت میں ایک بنیادی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے وہ یہ کہ ہم نے عورت کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ گھر میں رہ کر گھر کے انتظام کو سنبھالے۔

حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے درمیان تقسیم کار
حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما نے بھی اپنے درمیان یہ تقسیم کار فرما رکھی تھی کہ حضرت علی رضی اللہ گھر کے باہر کے کام انجام دیتے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے اندر کا کام سنبھالتیں۔ چنانچہ گھر کی جھاڑو دیتیں، چکی چلا کر آٹا پیستیں، پانی بھر کر لاتیں، کھانا پکاتیں۔

عورت کو کس لالچ پر گھر سے نکالا گیا؟
لیکن جس ماحول میں معاشرے کی پاکیزگی کوئی قیمت ہی نہ رکھتی ہو اور جہاں عفت و عصمت کے بجائے اخلاق باختگی اور حیا سوزی کو منتہائے مقصود سمجھا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ وہاں اس تقسیم کار اور پردہ و حیا کو نہ صرف غیر ضروری، بلکہ راستے میں رکاوٹ سمجھا جائے گا۔ چنانچہ جب مغرب میں تمام اخلاقی اقدار سے آزادی کی ہوا چلی تو مرد نے عورت کے گھر میں رہنے کو اپنے لئے دوہری مصیبت سمجھا۔ ایک طرف تو اس کی ہوسناک طبیعت عورت کی کوئی ذمہ داری قبول کئے بغیر قدم قدم پر اس سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی، اور دوسری طرف وہ اپنی قانونی بیوی کی معاشی کفالت کو بھی ایک بوجھ تصور کرتا تھا۔ 
چنانچہ اس نے دونوں مشکلات کا جو عیارانہ حل نکالا، اس کا خوبصورت اور معصوم نام "تحریک آزادی نسواں" ہے۔ عورت کو یہ پڑھایا گیا کہ تم اب تک گھر کی چار دیواری میں قید رہی ہو، اب آزادی کا دور ہے اور تمہیں اس قید سے باہر آکر مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر کام میں حصہ لینا چاہئے۔ اب تک تمہیں حکومت و سیاست کے ایوانوں میں بھی محروم رکھا گیا ہے، اب تم باہر آکر زندگی کی جدوجہد میں برابر کا حصہ لو تو دنیا بھر کے اعزازات اور اونچے اونچے منصب تمہارا انتظار کررہے ہیں۔ 
عورت بیچاری ان دلفریب نعروں سے متاثر ہوکر گھر سے باہر آگئی اور پروپیگنڈے کے تمام وسائل کے ذریعے شور مچا مچا کر اسے یہ باور کرادیا گیا کہ اسے صدیوں کی غلامی کے بعد آج آزادی ملی ہے۔ اور اب اس کے رنج و محن کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ ان دلفریب نعروں کی آڑ میں عورت کو گھسیٹ کر سڑکوں پر لایا گیا، اسے دفتروں میں کلرکی عطا کی گئی، اسے اجنبی مردوں کی پرائیویٹ سیکریٹری کا منصب "بخشا گیا" ۔ اسے "اسٹینو ٹائپسٹ" بننے کا اعزاز دیا گیا۔ اسے تجارت چمکانے کیلئے سیلز گرل اور ماڈل گرل بننے کا شرف بخشا گیا اور اس کے ایک ایک عضو کو برسر بازار رسوا کرکے گاہکوں کو دعوت دی گئی کہ آؤ، اور ہم سے مال خریدو۔ یہاں تک کہ عورت جس کے سر پر دینِ فطرت نے عزت اور آبرو کا تاج رکھا تھا اور جس کے گلے میں عفت اور عصمت کے ہار ڈالے تھے، تجارتی اداروں کیلئے ایک شو پیس اور مرد کی تھکن دور کرنے کیلئے ایک تفریح کا سامان بن گئی۔

آج ہر گھٹیا کام عورت کے سپرد ہے
نام یہ لیا گیا تھا کہ عورت کو آزادی دے کر سیاست اور حکومت کے ایوان اس کیلئے کھولے جارہے ہیں، لیکن ذرا جائزہ لے کر تو دیکھئے کہ اس عرصے میں خود مغربی ممالک کی کتنی عورتیں صدر، وزیر اعظم یا وزیر بن گئیں، کتنی خواتین کو جج بنایا گیا اور کتنی عورتوں کو دوسرے بلند مناصب کا اعزاز نصیب ہوا؟ اعداد و شمار جمع کئے جائیں تو ایسی عورتوں کا تناسب بمشکل چند فی لاکھ ہوگا۔ ان گنی چنی خواتین کو کچھ مناصب دینے کے نام پر باقی لاکھوں عورتوں کو جس بے دردی کے ساتھ سڑکوں اور بازاروں میں گھسیٹ کر لایا گیا ہے وہ آزادیٔ نسواں کے فراڈ کا المناک ترین پہلو ہے۔ آج یورپ اور امریکہ میں جاکر دیکھئے تو دنیا بھر کے تمام نچلے درجے کے کام عورت کے سپرد ہیں۔ ریستورانوں میں کوئی مرد ویٹ شاذ و نادر ہی نظر آئے گا، ورنہ یہ خدمات تمام تر عورتیں ہی انجام دے رہی ہیں، ہوٹلوں میں مسافروں کے کمرے تمام عورتوں کے سپرد ہیں۔
دوکانوں پر مال بیچنے کیلئے مرد خال خال نظر آئیں گے، یہ کام بھی عورتوں ہی سے لیا جارہا ہے۔ دفاتر کے استقبالیوں پر عام طور پر عورتیں ہی تعینات ہیں اور بیرے سے کلرک تک کے تمام مناصب زیادہ تر اسی صنفِ نازک کے حصے میں آئے ہیں جسے گھر کی قید سے آزادی عطا کی گئی ہے۔

نئی تہذیب کا عجیب فلسفہ
پروپیگنڈے کی قوتوں نے عجیب و غریب فلسفہ ذہنوں پر مسلط کردیا ہے کہ اگر عورت اپنے گھر میں اپنے اور اپنے شوہر، اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کیلئے خانہ داری کا انتظام کرے تو یہ قید اور ذلت ہے۔ لیکن وہی عورت، اجنبی مردوں کیلئے کھانا پکائے، ان کے کمروں کی صفائی کرے، ہوٹلوں اور جہازوں میں ان کی میزبانی کرے، دوکانوں پر اپنی مسکراہٹوں سے گاہکوں کو متوجہ کرے اور دفاتر میں اپنے افسروں کی ناز برداری کرے تو یہ آزادی اور اعزاز ہے! ۔۔۔۔۔۔۔۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

پھر ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عورت کسب معاش کیلئے آٹھ آٹھ گھنٹے کی یہ سخت اور ذلت آمیز ڈیوٹیاں ادا کرنے کے باوجود اپنے گھر کے کام دھندوں سے اب بھی فارغ نہیں ہوئی۔ گھر کی تمام خدمات آج بھی پہلے کی طرح اس کے ذمے ہیں اوریورپ اور امریکہ میں اکثریت ان عورتوں کی ہے جن کو آٹھ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی دینے کے بعد اپنے گھر پہنچ کر کھانا پکانے، برتن دھونے اور گھر کی صفائی کا کام اب بھی کرنا پڑتا ہے۔

کیا نصف آبادی عضو معطل ہے
عورتوں کو گھر سے باہر نکالنے کیلئے آج کل ایک چلتا ہوا استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ قومی تعمیر و ترقی کے دور میں ہم اپنی نصف آبادی کو عضو معطل بنا کر نہیں ڈال سکتے۔ یہ بات اس شان سے کہی جاتی ہے کہ گویا ملک کے تمام مردوں کو کسی نہ کسی کام پر لگا کر مردوں کی حد تک "مکمل روزگار" کی منزل حاصل کرلی گئی ہے۔ اب نہ صرف یہ کہ کوئی مرد بے روزگار نہیں رہا بلکہ ہزارہا کام "مین پاور" کے انتظار میں ہیں۔
حالانکہ یہ بات ایک ایسے ملک میں کہی جارہی ہے جہاں اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل مرد سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں۔ جہاں کوئی چپڑاسی یا ڈرائیور کی اسامی نکلتی ہے تو اس کیلئے دسیوں گریجویٹ اپنی درخواستیں پیش کردیتے ہیں اور اگر کوئی کلرک کی جگہ نکلتی ہے تو دسیوں ماسٹر اور ڈاکٹر تک کی ڈگریاں رکھنے والے اپنی درخواستیں پیش کردیتے ہیں۔ پہلے مردوں کی نصف آبادی ہی کو ملکی تعمیر و ترقی کے کام میں پوری طرح لگا دیجیے اس کے بعد باقی نصف آبادی کے بارے میں سوچئے کہ وہ عضو معطل ہے یا نہیں۔

آج فیملی سسٹم تباہ ہوچکا ہے
اللہ تعالیٰ نے عورت کو گھر کا ذمہ دار بنایا تھا، گھر کی منتظمہ بنایا تھا، تاکہ وہ فیملی سسٹم استوار رکھ سکے، لیکن جب وہ گھر سے باہر آگئی تو نتیجہ یہ ہوا کہ باپ بھی باہر، اور ماں بھی باہر، اور بچے اسکول میں، یا نرسری میں، اور گھر پر تالا پڑ گیا، اب وہ فیملی سسٹم تباہ ہوکر رہ گیا۔ عورت کو تو اس لئے بنایا تھا کہ جب وہ گھر میں رہے گی تو گھر کا انتظام بھی کرے گی، اور بچے اس کی گود میں تربیت پائیں گے، ماں کی گود بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے وہیں سے وہ اخلاق سیکھتے ہیں، وہیں سے وہ کردار سیکھتے ہیں۔ وہیں زندگی گزارنے کے صحیح طریقے سیکھتے ہیں۔ 
لیکن آج مغربی معاشرے میں بچوں کو ماں باپ کی شفقت میسر نہیں، اور فیملی سسٹم درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔ عورت دوسری جگہ کام کررہی ہے مرد دوسری جگہ کام کررہا ہے۔ دونوں کے درمیان دن بھر میں کوئی رابطہ نہیں ہے، اور دونوں جگہ پر آزاد ماحول سوسائٹی کا ماحول ہے تو بسا اوقات ان دونوں کا آپس کا رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے اور ٹوٹنے لگتا ہے۔ اور جگہ جگہ ناجائز رشتے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ سے طلاق تک نوب پہنچتی ہے۔ گھر برباد ہوجاتا ہے۔ 

عورت کے بارے میں گورباچوف کا نظریہ
اگر یہ باتیں صرف میں کہتا تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ یہ سب باتیں آپ تعصب کی بناء پر کہہ رہے ہیں لیکن اب سے چند سال پہلے سوویت یونین کے آخری صدر "میخائل گورباچوف" نے ایک کتاب لکھی ہے "پرو اسٹرائیکا" آج یہ کتاب ساری دنیا میں مشہور ہے اور شائع شدہ شکل میں موجود ہے۔ اس کتاب میں گورباچوف نے عورتوں کے بارے میں "Status of Women" کے نام سے ایک باب قائم کیا ہے، اس میں اس نے صاف اور واضح لفظوں میں یہ بات لکھی ہے کہ:
"ہماری مغرب کی سوسائٹی میں عورتوں کو گھر سے باہر نکالا گیا، اور اس کو گھر سے باہر نکالنے میں بیشک ہم نے کچھ فوائد حاصل کئے ہیں اور پیداوار میں کچھ اضافہ ہوا، اس لئے کہ مرد بھی کام کررہے ہیں اور عورتیں بھی کام کررہی ہیں۔ لیکن پیداوار کے زیادہ ہونے کے باوجود اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوگیا اور اس فیملی سسٹم کے تباہ ہونے کے سلسلے میں ہمیں جو نقصانات اٹھانا پڑے ہیں وہ نقصانات ان فوائد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں جو پروڈکشن کے اضافے کے نتیجے میں ہمیں حاصل ہوئے۔ لہٰذا میں اپنے ملک میں پرو اسٹرائیکا کے نام سے ایک تحریک شروع کررہا ہوں اس میں میرا ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ عورت جو گھر سے باہر نکل چکی ہے اس کو گھر میں واپس کیسے لایا جائے؟ اس کے طریقے سوچنے پڑیں گے ورنہ جس طرح فیملی سسٹم تباہ ہوچکا ہے اسی طرح پوری قوم تباہ ہوجائے گی۔" 
یہ الفاظ میخائل گورباچوف نے اپنی کتاب میں لکھے ہیں وہ کتاب آج بھی بازار میں دستیاب ہے جس کا جی چاہے دیکھ لے۔

روپیہ پیسہ بذات خود کوئی چیز نہیں
اس فیملی سسٹم کی تباہ کاری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے عورت کی تخلیق کے مقصد کو نہیں جانا کہ عورت کو کیوں پیدا کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے عورت کو اس لئے پیدا کیا تھا کہ وہ گھر کے نظام اور فیملی سسٹم کو استوار کرے۔ آج کے معاشی دور کی ساری کوششوں کا حاصل یہی ہے کہ روپیہ پیسہ زیادہ ہوجائے لیکن یہ تو بتاؤ کہ کیا یہ روپیہ پیسہ بذاتِ خود کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ اگر آپ کو بھوک لگ رہی ہو اور آپ کے پاس پیسے موجود ہوں تو آپ اس کو کھا کر بھوک مٹالیں گے؟ پیسہ بذات خود کوئی چیز نہیں جب تک اس کے ذریعے آدمی ضرورت کی چیزیں مہیا کرکے سکون حاصل نہ کرے۔

آج کا نفع بخش کاروبار
پچھلے دنوں ایک رسالے میں ایک سروے کی تفصیل آئی ہے اس سروے کا مقصد یہ تھا کہ یہ دیکھا جائے کہ دنیا میں سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار کون سا ہے؟ چنانچہ اس سروے میں لکھا ہے کہ آج پوری دنیا میں سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار "ماڈل گرل" کا کاروبار ہے۔ اس لئے کہ ایک ماڈل گرل مصنوعات کے اشتہارات پر اپنی عریاں تصاویر دینے کیلئے صرف ایک دن کے 25 ملین ڈالر وصول کرتی ہے اور اس ایک دن میں وہ تاجر اور سرمایہ کار اپنی مرضی کی جتنی تصویریں جس انداز اور زاویے سے اتارنا چاہے اتارتا ہے اور اس کے ذریعے وہ اپنی مصنوعات کو بازار میں پھیلاتا ہے۔ آج یہ عورت ایک بکاؤ مال بن چکا ہے، اور سرمایہ دار اس کو جس طرح چاہتا ہے استعمال کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عورت نے گھر سے باہر اپنی قدر و منزلت اور اپنا مرتبہ کھو دیا اور اس کا یہ نتیجہ نکلا۔
اس لئے گھر کے انتظام کو استوار کرنے کیلئے اور بچوں کی صحیح تربیت کیلئے اور بچوں کو صحیح فکر پر ڈھالنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرائض عورت کے سپرد کئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ باوجود یہ کہ بچہ ماں اور باپ دونوں کا ہوتا ہے لیکن جتنا پیار اور جتنی مامتا اللہ نے ماں کے دل میں رکھی باپ کے دل میں اتنی نہیں رکھی۔ بچے کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ چاہے کسی بھی جگہ پر ہو فوراً ماں کو پکارے گا باپ کو نہیں پکارے گا اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ ماں میری مصیبت کا علاج کرسکتی ہے اور اسی محبت کے رشتے سے بچے کی تربیت ہوتی ہے۔ 
آج کل لوگ بچوں کو نرسریوں کے اندر پالتے ہیں۔ یاد رکھو! کوئی بھی نرسری بچے کو ماں کی مامتا فراہم نہیں کرسکتی۔ بچے کو کسی پولٹری فارم قسم کے ادارے کی ضرورت نہیں، بلکہ بچے کو ماں کی مامتا اور اس کی شفقت کی ضرورت ہے ماں کی مامتا اور اس کی شفقت کو حاصل کرنے کیلئے لازم ہے کہ عورت گھر کا انتظام سنبھالے اگر کوئی عورت گھر کا انتظام نہیں سنبھال رہی ہے تو وہ فطرت سے بغاوت کررہی ہے، اور فطرت سے بغاوت کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو اس وقت آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔
مغرب کے الٹے پروپیگنڈے اور مغرب کی اندھی تقلید نے ہمارے معاشرے کی خواتین سے اولاد کی ترتیب کی فکر کو رفتہ رفتہ ختم کرنا شروع کردیا ہے اور جو خواتین گھروں میں بیٹھی ہیں وہ بھی کبھی کبھار یہ سوچنے لگتی ہیں کہ واقعتاً یہ لوگ درست کہتے ہیں۔ ہم گھر کی چار دیواری میں مقید اور بند ہوکر رہ گئے ہیں اور جو خواتین گھروں سے باہر نکل رہی ہیں شاید یہ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔
لیکن خوب سمجھ لیں کہ عورت جو خدمت اپنے گھر میں بیٹھ کر انجام دے رہی ہے یاد رکھو اس کا کوئی بدل نہیں ہے اور وہ خدمت گھر سے باہر نکل کر، بازاروں میں جاکر، دوکانوں پر بیٹھ کر انجام نہیں دی جاسکتی جو گھر میں بیٹھ کر انجام دی جاسکتی ہے۔

آزادانہ میل جول کے نتائج
بہرحال! عورت کے گھر سے باہر نکلنے میں ایک خرابی تو یہ ہوئی کہ فیملی سسٹم تباہ ہوگیا اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کے دل میں عورت کی کشش رکھی ہے اور عورت کے دل میں مرد کی کشش رکھی ہے، یہ فطری بات ہے کہ آپ اس پر کتنا پردہ ڈالیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ جب ان دونوں کے درمیان آزادانہ میل جول ہوگا اور آزادانہ اجتماع ہوگا تو وہ کشش جو انسان کے اندر فطری طور پر موجود ہے، کسی نہ کسی وقت رنگ لا کر گناہ پر آمادہ کرے گی۔ 
اور جب مرد اور عورت کا آزادانہ میل جول ہوگا اور ہر وقت میل ملاپ ہوگا اور ہر وقت ایک دوسرے کو دیکھیں گے تو اس کے نتیجے میں گناہ کی طرف بڑھیں گے، آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اسی سوسائٹی میں رہتے ہیں، یہاں مرد اور عورت کے آزادانہ میل جول کے نتیجے میں ہورہا ہے یہاں اس وقت ملک میں کوئی مرد یا عورت ناجائز طریقے سے اپنی جنسی تسکین کرنا چاہے تو اس کے دروازے چوپٹ کھلے ہیں، کوئی قانون ان کو روکنے والا نہیں کوئی معاشرتی رکاوٹ ان پر عائد نہیں اس کے باوجود اس ملک میں زنا بالجبر کے کتنے واقعات ہورہے ہیں۔ (یہ خطاب امریکہ میں مقیم مسلمانوں سے ہے) کل ہی کے اخبار میں، میں نے پڑھا کہ اس ملک (امریکہ) میں ہر 46 سیکنڈ پر ایک زنا بالجبر کا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ اب بتائیے کہ جس ملک میں رضامندی کے ساتھ جنسی خواہش پوری کرنے کا راستہ کھلا ہو اس کے باوجود زنا بالجبر اتنی کثرت سے ہورہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟
وجہ اس کی یہ ہے کہ انسان اپنی فطری حدود سے باہر نکل گیا ہے، جب تک انسان فطری حدود کے اندر رہ کر جنسی خواہشات کی تسکین کا راستہ اختیار کرے گا اس وقت تک انسان جنسی خواہشات کی تکمیل کے ذریعے سکون حاصل کرے گا۔ لیکن جب وہ فطری حدود سے آگے بڑھے گا تو پھر وہ جنسی خواہش ایک نہ مٹنے والی بھوک اور نہ مٹنے والی ایسی پیاس ہے جو کبھی نہیں بجھے گی اور اس کے بعد پھر انسان کسی ایک حد پر جاکر قانع نہیں ہوتا بلکہ وہ مزید کا طلبگار رہے گا۔ اور یہ سب کچھ اس حکم سے بغاوت کا نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا (ترجمہ: اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو) آج یہ حکم چھوڑ کر دوسرے راستے پر چل پڑے ہیں۔

اہلِ مغرب کے طعنوں سے مرعوب نہ ہوں
عرض یہ ہے کہ حجاب کا یہ حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نازل فرمایا اور ازواج مطہرات اور صحابیات نے اس حکم پر عمل کرکے دکھایا اب مغرب نے یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ مسلمانوں نے عورتوں کے ساتھ بڑا ظالمانہ سلوک کیا ہے کہ ان کو گھروں میں بند کردیا۔ ان کے چہروں پر نقاب ڈال دی اور ان کو ایک کارٹون بنا دیا تو کیا مغرب کے اس مذاق اور اس پروپیگنڈے کے نتیجے میں ہم اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان احکام کو چھوڑ دیں؟ یاد رکھو جب تک خود ہمارے اپنے دلوں میں یہ ایمان اور اعتماد پیدا نہ ہو کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو طریقہ سیکھا ہے وہی طریقہ برحق ہے کوئی مذاق اڑاتا ہے تو اڑایا کرے، کوئی طعنے دیتا ہے تو طعنے دیا کرے یہ طعنے مسلمان کے گلے کا زیور ہیں۔ جتنے انبیاء علیہم السلام اس دنیا میں تشریف لائے ان کو یہ طعنے دیے گئے کہ یہ لوگ پسماندہ لوگ ہیں یہ دقیانوس اور رجعت پسند ہیں۔ اور تم جب مومن ہو تو انبیاء کے وارث اور جس طرح وراثت میں اور چیزیں ملیں گی تو یہ طعنے بھی ملیں گے۔ کیا اس وراثت سے گھبرا کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کو چھوڑ دوگے؟
اور فرض کرو ان طعنوں کے نتیجے میں ان کے کہنے پر عمل کر لیا تو پھر بھی تیسرے درجے کے شہری رہو گے۔ وہ کہتے ہیں کہ عورتوں کو گھر میں مت بٹھاؤ اور ان کو پردہ نہ کراؤ حجاب نہ کراؤ اب آپ نے ان کی بات مانتے ہوئے اس پر عمل کرلیا اور عورتوں کو گھر سے باہر نکال دیا ان کا پردہ بھی اتار دیا دوپٹہ بھی اتار دیا سبھی کچھ کرلیا لیکن کیا انہوں نے یہ مان لیا کہ تم ہمارے ہو اور کیا انہوں نے تمہیں وہی حقوق دے دیے؟ کیا تمہیں وہی عزت دے دی یا نہیں؟ بلکہ اب بھی تم رجعت پسند اور دقیانوس اور اب بھی جب تمہارا نام آئے گا تو طعنوں کے ساتھ آئے گا۔ باوجود یہ کہ سر سے پاؤں تک ہر چیز میں ان کی بات مان لی پھر بھی تم تیسرے درجے کے شہری رہوگے۔
یاد رکھو جو شخص ہمت کرکے اپنی کمر باندھ لیتا ہے وہی شخص دنیا سے اپنی عزت بھی کرواتا ہے۔ عزت در حقیقت اسلام کو چھوڑنے میں نہیں بلکہ اسلام کو اختیار کرنے میں ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: 
"ان اللہ قد اعزنا بالاسلام" 
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت دی ہے۔
پس اگر ہم اسلام کو چھوڑیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں عزت کے بجائے ذلت سے ہمکنار کردیں گے۔ 

(مفتی تقی عثمانی صاحب کے رسالے: "آزادیٔ نسواں کا فریب" سے تلخیص کے ساتھ)

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں