کون تھیں؟ کہاں چلی گئیں؟؟؟


سانحہ لال مسجد کے پس منظر میں لکھا گیا ڈاکٹر شاہد مسعود کا یہ کالم، میں نے پڑھنے کے بعد اپنے پاس محفوظ کرلیا تھا۔ ہر بار اسے پڑھتے ہوئے جو کیفیت ہوتی ہے، وہ ناقابلِ بیان ہے۔
دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی مزید ایسی کسی صورتحال سے مسلمانوں کی حفاظت فرمائیں۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون تھیں؟ کہاں چلی گئیں؟

جرم تو صرف اتنا تھا کہ وہ معاشرے سے بدکاری کے خاتمے کا عزم لئے۔۔۔ باہر نکلیں اور ایک قحبہ خانہ چلاتی عورت کو سبق سکھانے اپنے ساتھ لے آئیں اور دو تین روز بعد اسے برقعہ پہنا کر۔۔۔ توبہ کرواکے چھوڑ دیا۔۔۔!! پھر ایک مالش کے مرکز پر جاپہنچیں اور وہاں جسم فروشی کرتی خواتین کو اپنے ہمراہ لاکر خوب جھاڑ پلائی۔۔۔ اور پھر نصیحت کے بعد روانہ کردیا!!! ڈنڈے لے کر گھومتیں مگر کسی کا سر تو نہ پھاڑا !!! اس وطن عزیز میں جہاں حکمرانوں اور طاقتوروں میں سے ہر دوسری شخصیت کسی لینڈ مافیا سے وابستہ ہے۔ وہ مسجد شہید ہونے کے بعد پڑوس کی ایک لائبریری پر جا دھمکیں !! روشن خیال، خوشحال، خوش پوش دارالحکومت کی عظیم الشان کوٹھیوں کے درمیان، جن کی اکثریت رات گئے شراب و شباب کی محفلیں اپنے عروج پر دیکھا کرتی ہے ۔۔۔ ایک کونے میں یہ معصوم، سادہ حجاب میں ملبوس، پاکیزہ روحیں۔۔۔ تلاوت قرآن پاک میں مگن رہتیں !!


کون تھیں؟ کہاں چلی گئیں؟


میں جب ان سے ملا تو ان کے لہجے میں عجیب اکتاہٹ اور محرومیت کا احساس ہوا، آنکھوں میں اداسیت، معاشرے سے شکایت اور بے زاری، سونے کے کنگنوں سے محروم کلائیوں اور نیل پالش سے محروم (پاک کہنا چاہیئے ۔۔ احمد) ہاتھوں میں ڈنڈے اس بے کسی کا اظہار تھے ۔۔۔ جو غریب سادہ لوح گھرانوں کی ان شریف اور باکردار بچیوں کی آنکھوں سے بھی کراہ رہی تھی ! ان کے طرز عمل سے ذرا سا اختلاف کرنے کی گستاخی ہوئی تو سب الجھ پڑیں !! "شاہد بھائی !! آپ کو کیا پتہ؟"
"ڈاکٹر صاحب !! آپ نہیں جانتے!!" کسی آیت کا حوالہ ۔۔۔ کسی حدیث کی دلیل ۔۔۔ سب ایک ساتھ پل پڑیں "آپ کو پتہ ہے امریکہ میں کیا ہورہا ہے؟" "یہ یہودیوں کی سازش ہے !!" "ہمارے دشمنوں کی چال ہے ۔۔۔ !!" "صلیبی جنگ ہے" وغیرہ وغیرہ ! میں بڑی مشکل سے انہیں اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بعد ۔۔۔ چپ کروانے میں کامیاب ہوسکا !! ان کی نگران ام حسان نے اسی دوران بتایا کہ "یہ طالبات ایک عرصے سے یہاں آئے مرد مہمانوں سے گفتگو نہیں کرتیں لیکن آپ سے ملنے کیلئے ان کی ضد تھی !!" میں نے خاموشی مناسب تصور کرتے ہوئے ان کی گفتگو سننے میں عافیت تصور کی۔۔۔ یہ میرے لئے ایک مختلف دنیا تھی !! شاید یہ فیشن زدہ، جدیدیت کی دلدل میں ڈوبی، ٹی شرٹ جینز میں ملبوس خوش شکل لڑکیوں کو ۔۔۔ ہر روز ۔۔۔۔ اپنے چھوٹے تاریک کمروں کے روشندانوں سے جھانک کر ۔۔۔ باہر سڑکوں پر ڈرائیونگ کرتا دیکھتی ہوں !! ممکن ہے ۔۔ قریبی بازار تک آتے جاتے ۔۔ ان کے کانوں تک بھی دلفریت نغموں کی تھاپ پہنچتی ہوگی !! کچی عمروں میں یقیناً ان کی آنکھیں بھی خواب دیکھتی ہوں گی !! ان کا دل بھی کبھی اچھے رشتوں کی آس میں دھڑکتا ہوگا۔ ان کا بھی عید پر نئے کپڑے سلوانے ۔۔۔ ہاتھوں میں حنا سجانے اور چوڑیاں پہننے کو جی للچاتا ہوگا !! لیکن آرزوئیں، خواہشات اور تمنائیں ناکام ہوکر برقعوں کے پیچھے اس طرح جا چھپیں کہ پھر نہ چہرے رہے ۔۔۔ نہ شناخت!! صرف آوازیں تھیں ۔۔۔ جو اب تک میرے کانوں میں گونجتی ہیں ۔۔۔ انہی میں ایک چھوٹی بچی ۔۔۔ یہی کوئی آٹھ دس برس کی ۔۔۔ حجاب میں اس طرح ملبوس کہ چہرہ کھلا تھا۔۔ گفتگو سے مکمل ناواقفیت کے باوجود مسلسل ہنسے جاتی تھی کہ شاید یہی ۔۔۔ مباحثہ ۔۔۔ اس کی تفریح کا سبب بن گیا تھا !! "بیٹی آپ کا نام کیا ہے۔۔۔ ؟" میرے سوال پر پٹ سے بولی "اسماء ۔۔ انکل" پیچھے کھڑی اس کی بڑی بہن نے سر پر چپت لگائی "انکل نہیں ۔۔ بھائی بولو۔۔" خدا جانے اس میں ہنسنے کی کیا بات تھی کہ چھوٹے قد کے فرشتے نے اس پر بھی قہقہہ لگا کر دہرایا "جی بھائی جان!!" "آپ کیا کرتی ہیں؟" میں نے ننھی اسماء سے پوچھا "پڑھتی ہوں!" "کیا پڑھتی ہو بیٹا؟" جواب عقب میں کھڑی بہن نے دیا "حفظ کررہی ہے بھائی" "اور بھی کچھ پڑھا رہی ہیں؟" میں نے پوچھا "جی ہاں! کہتی ہے بڑی ہوکر ڈاکٹر بنے گی!!" بہن نے جو کہ یہی کچھ پندرہ سولہ برس کی، مکمل حجاب میں ملبوس تھی، جواب دیا۔ "آپ دو بہنیں ہیں؟" میں نے سوال کیا "جی ہاں! بھائی!!" بڑی بہن نے اسماء کو آغوش میں لیتے ہوئے کہا "تین بھائی گاؤں میں ہیں۔۔۔ ہم بٹہ گرام سے ہیں نا۔۔۔ کھیتی باڑی ہے ہماری"


میں جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں موجود تھا ۔۔ طالبات اور عبد الرشید غازی صاحب سے گفتگو کے بعد میں نے بچیوں کو خدا حافظ کہہ کر غازی صاحب کے ساتھ ان کے حجرے کی طرف قدم بڑھایا تو ننھی اسماء پیچھے بھاگتی ہوئی آئی "بھائی جان! آٹو گراف دے دیں!!" وہ ہانپ رہی تھی "میرا نام اسماء اور باجی کا نام عائشہ ہے!!" میں نے حسبِ عادت دونوں کیلئے طویل العمری کی دعا لکھ دی!! آگے بڑھا تو ایک اور فرمائش ہوئی "بھائی جان!! اپنا موبائل نمبر دے دیں۔ آپ کو تنگ نہیں کروں گی!!" نہ جانے کیوں میں نے خلافِ معمول اس بچی کو اپنا موبائل نمبر دے دیا۔ اس کی آنکھیں جیسے چمک اٹھیں۔ اسی دوران غازی صاحب نے میرا ہاتھ کھینچا "ڈاکٹر صاحب یہ تو ایسے ہی آپ کو تنگ کرتی رہے گی ۔۔ کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے اور عبد العزیز صاحب ۔۔ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔" بچی واپس بھاگ گئی اور میں مدرسے کے اندر تنگ گلیوں سے گزرتا ۔۔ عقب میں غازی صاحب کے حجرے تک جا پہنچا۔۔ جہاں انہوں نے کہا کہ "ڈاکٹر صاحب ایک زحمت !! والدہ بھی آپ کو دعا دینا چاہتی ہیں۔۔!!" کھانا ہم نے فرش پر دسترخوان بچھا کر کھایا اور اس دوران عبد العزیز صاحب بھی۔۔ ساتھ شامل ہوگئے ۔۔ بات چیت ہوتی رہی اور جب میں نے رخصت چاہی تو انہوں نے اپنی کتابوں کا ایک سیٹ عطیہ دیتے ہوئے دوبارہ آنے کا وعدہ لیا ۔۔ اور پھر دونوں بھائی ۔۔۔ جامعہ کے دروازے تک چھوڑنے ۔۔ اس وعدے کے ساتھ آئے کہ میں دوبارہ جلد واپس آؤں گا۔ حقیقت یہ تھی کہ میں دونوں علماء کا استدلال سمجھنے سے مکمل قاصر رہا!! چند مسلح نوجوان اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے۔۔ مصافحہ تو کیا لیکن گفتگو سے اجتناب کرتے ہوئے۔ آگے بڑھ گیا! لیکن دروازے سے باہر قدم رکھتے ہی شیطان کی خالہ اسماء اچھل کر پھر سامنے آگئی "بھائی جان !! میں آپ کو فون نہیں کروں گی ۔۔۔ وہ کارڈ باجی کے پاس ختم ہوجاتا ہے نا ۔۔ ایس ایم ایس کروں گی ۔۔ جواب دیتے رہیے گا ۔۔ پلیز بھائی جان!!" اس کی آنکھوں میں معصومیت اور انداز میں شرارت کا امتزاج تھا ۔۔ "اچھا بیٹا ضرور ۔۔۔ اللہ حافظ" جاتے جاتے پلٹ کر دیکھا تو بڑی بہن بھی روشندان سے جھانک رہی تھی! کہ یہی دونوں بہنوں کی کل دنیا تھی !! کون تھیں؟ کہاں چلی گئیں؟


جو احباب میری ذاتی زندگی تک رسائی رکھتے ہیں وہ واقف ہیں کہ میں خبروں کے جنگل میں رہتا ہوں!! دن کا بیشتر حصہ اخبارات، جرائد اور کتابوں کے اوراق میں دفن گزارتا ہوں!! چنانچہ گزرے تین ماہ کے دوران بھی جہاں چیف جسٹس کا معاملہ پیچیدہ موڑ اختیار کرتا۔۔ ان میں الجھائے رہنے کا سبب بنا !! وہیں یہ مصروفیات بھی اپنی جگہ جاری رہیں۔ لیکن اس تمام عرصے، وقفے وقفے سے مجھے ایک گمنام نمبر سے ایس ایم ایس موصول ہوتے رہے!! عموماً قرآن شریف کی کسی آیت کا ترجمہ یا کوئی حدیث مبارکہ ۔۔ یا پھر کوئی دعا۔۔ رومن اردو میں۔۔ اور آخر میں بھیجنے والے کا نام ۔۔ "آپ کی چھوٹی بہن اسماء" یہ سچ ہے کہ ابتداء میں تو مجھے یاد ہی نہیں آیا کہ بھیجنے والی شخصیت کون ہے؟ لیکن پھر ایک روز پیغام میں یہ لکھا آیا کہ "آپ دوبارہ جامعہ کب آئیں گے؟" تو مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی چھوٹی نٹ کھٹ ۔۔۔ حجاب میں ملبوس بچی ہے ۔۔ جس سے میں جواب بھیجنے کا وعدہ کر آیا تھا!! میں نے فوراً جواب بھیجا "بہت جلد۔۔" جواب آیا "شکریہ بھائی جان!"

میں اپنے موبائل فون سے پیغام مٹاتا چلا گیا تھا چنانچہ چند روز قبل جب لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر فوجی کارروائی کا اعلان ہوا تو میں نے بے تابی سے فون پر اس بچی کے بھیجے پیغامات تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے میں سب مٹا چکا تھا ! امید تھی کہ اسماء بڑی بہن کے ساتھ نکل گئی ہوگی! لیکن پھر بھی بے چینی سی تھی!! کوئی آیت، حدیث، دعا بھی نہیں آرہی تھی! اس تصور کے ساتھ خود کو تسلی دی کہ ان حالات میں، جب گھر والے دور گاؤں سے آکر دونوں کو لے گئے ہوں گے تو افراتفری میں پیغام بھیجنے کا موقع کہاں؟ جب بھی اعلان ہوتا کہ "آج رات کو عسکری کارروائی کا آغاز ہوجائے گا!!" "فائرنگ، گولہ باری کا سلسلہ شروع" "مزید طالبات نے خود کو حکام کے حوالے کردیا" ابھی اندر بہت سی خواتین اور بچے ہیں" "یرغمال بنالیا گیا ہے" وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ تو میری نظر اپنے موبائل فون پر اس خواہش کے ساتھ چلی جاتی کہ کاش!! وہ پیغام صرف ایک بار پھر آجائے ۔۔ میں نے جسے کبھی محفوظ نہ کیا!!


کون تھیں؟ کہاں چلی گئیں؟


8 جولائی کی شب اچانک ایک مختصر ایس ایم ایس موصول ہوا "بھائی جان! کارڈ ختم ہوگیا ہے ۔۔ پلیز فون کریں" میں نے اگلے لمحے رابطہ کیا تو میری چھوٹی ۔۔۔ پیاری اسماء زارو قطار رورہی تھی "بھائی جان، ڈر لگ رہا ہے! گولیاں چل رہی ہیں! میں مرجاؤں گی!" میں نے چلا کر جواب دیا "اپنی بہن سے بات کراؤ" بہن نے فون سنبھال لیا "آپ دونوں فوراً باہر نکلیں ۔۔ معاملہ خراب ہورہا ہے ۔۔۔ کہیں تو میں کسی سے بات کرتا ہوں کہ آپ دونوں کو حفاظت سے باہر نکالیں ۔۔" دھماکوں کی آوازیں گونج رہی تھیں!! مجھے احساس ہوا کہ بڑی بہن نے اسماء کو آغوش میں چھپا رکھا ہے لیکن چھوٹی پھر بھی بلک رہی ہے ۔۔۔ رو رہی ہے۔۔! "بھائی وہ ہمیں کیوں ماریں گے؟؟ وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں!! وہ بھی کلمہ گو ہیں!! اور پھر ہمارا جرم ہی کیا ہے؟ آپ تو جانتے ہیں بھائی! ہم نے تو صرف باجی شمیم کو سمجھا کر چھوڑ دیا تھا۔ چینی بہنوں کے ساتھ بھی یہی کیا تھا ۔۔۔ بھائی!! یہ سب ان کی سیاست ہے ۔۔۔ ہمیں ڈرا رہے ہیں" بہن پر اعتماد لہجے میں بولی "دیکھیں حالات برے ہیں ۔۔ میں بتا رہا ہوں ۔۔۔ آپ فوراً نکل جائیں ۔۔ خدا کیلئے" مجھے احساس ہوا کہ میں گویا ۔۔ انہیں حکم دے رہا ہوں!! "بھائی! آپ یونہی گھبرا رہے ہیں !! غازی صاحب بتا رہے تھے کہ یہ ہمیں جھکانا چاہ رہے ہیں ۔۔ باہر کچھ بھائی پہرہ بھی دے رہے ہیں !! کچھ بھی نہیں ہوگا، آپ دیکھیے گا ۔۔ اب فوج آگئی ہے نا!! یہ بدمعاش پولیس والوں کو یہاں سے بھگادے گی!! آپ کو پتہ ہے ۔۔۔ فوجی تو کٹر مسلمان ہوتے ہیں ۔۔ وہ ہمیں کیوں ماریں گے ۔۔ ہم کوئی مجرم ہیں۔۔ کوئی ہندوستانی ہیں ۔۔۔ کافر ہیں ۔۔۔ کیوں ماریں گے وہ ہمیں۔۔۔!!" بہن کا لہجہ پر اعتماد تھا ۔۔۔ اور وہ کچھ بھی سننے کو تیار نہ تھی "ڈاکٹر بھائی مجھے تو ہنسی آرہی ہے کہ آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں!! آپ کو تو پتہ ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے! یہ اسماء تو یونہی زیادہ ڈر گئی ہے۔ اور ہاں آپ کہیں ہم بہنوں کا نام نہ لیجئے گا۔ ایجنسی والے بٹہ گرام میں ہمارے والد، والدہ اور بھائیوں کو پکڑ لیں گے! سب ٹھیک ہوجائے گا بھائی ! وہ ہمیں کبھی نہیں ماریں گے!"


میں نے دونوں کو دعاؤں کے ساتھ فون بند کیا اور نمبر محفوظ کرلیا۔ اگلے روز گزرے کئی گھنٹوں سے مذاکرات کی خبریں آرہی تھیں اور میں حقیقتاً گزرے ایک ہفتے سے جاری اس قصے کے خاتمے کی توقع کرتا، ٹی وی پر مذاکرات کو حتمی مراحل میں داخل ہوتا دیکھ رہا تھا کہ احساس ہونے لگا کہیں کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے چند شخصیات کو اسلام آباد فون کرکے اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ معاملہ بگڑنے کو ہے تو جواباً ان خدشات کو بلا جواز قرار دیا گیا لیکن وہ درست ثابت ہوئے اور علماء کے وفد کی ناکامی اور چوہدری شجاعت کی پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی وہ عسکری کارروائی شروع ہوگئی جس کی قوت کے بارے میں، موقع پر موجود ایک سرکاری افسر کا بیان تھا "لگتا ہے پوری بھارتی فوج نے چھوٹے ملک بھوٹان پر چڑھائی کردی ہے" فائرنگ ۔۔ دھماکے ۔۔۔ گولہ باری ۔۔۔ شیلنگ ۔۔ جاسوس طیارے ۔۔ گن شپ ہیلی کاپٹرز ۔۔ خدا جانے کیا کچھ!! اور پھر باقاعدہ آپریشن شروع کردینے کا اعلان۔ اس دوران عبد الرشید غازی سے بھی ایک بار ٹی وی پر گفتگو کا موقع ملا ۔۔ اور پھر پتہ چلا کہ ان کی والدہ آخری سانسیں لے رہی ہیں !! اور تبھی صبح صادق فون پر ایس ایم ایس موصول ہوا "پلیز کال" یہ اسماء تھی!!


میں نے فوراً رابطہ کیا تو دوسری طرف چیخیں ۔۔ شور شرابہ ۔۔۔ لڑکیوں کی آوازیں "ہیلو ۔۔ اسماء بیٹی! ہیلو" خدا جانے وہاں کیا ہورہا تھا "ہیلو بیٹی آواز سن رہی ہو" میں پوری قوت سے چیخ رہا تھا "بات کرو کیا ہوا ہے"
وہ جملہ ۔۔۔ آخر سانسوں تک میری سماعتوں میں زندہ رہے گا! ایک بلک بلک کر روتی ہوئی بچی کی رک رک کر آتی آواز "باجی مر گئی ہے۔۔۔ مرگئی ہے باجی ۔۔۔ " اور فون منقطع ہوگیا ۔۔۔ اسٹوڈیوز سے کال آرہی تھی کہ میں صورتحال پر تبصرہ کروں لیکن میں بار بار منقطع کال ملانے کی ناکام کوشش کررہا تھا!! کچھ کہنے یا سننے کی ہمت نہ تھی، کسی کمانڈو جیسی طاقت، اعجاز الحق جیسی دیانت اور طارق عظیم جیسی صداقت نہ ہونے کے باعث مجھے ٹی وی پر گونجتے ہر دھماکے میں بہت سی چیخیں ۔۔۔ فائرنگ کے پیچھے بہت سی آہیں اور گولہ باری کے شور میں "بھائی جان! یہ ہمیں کیوں ماریں گے؟" کی صدائیں سنائی دے رہی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے کمروں میں دھواں بھر گیا ہوگا۔ اور باہر فائرنگ ہورہی ہوگی ۔ بہت سی بچیاں تھیں ۔۔ فون نہیں مل رہا تھا۔۔ پھر عمارت میں آگ لگ گئی ۔۔ اور میں اسماء کو اس کی لاتعداد دعاؤں کے جواب میں صرف ایک الوداعی دعا دینا چاہتا تھا ۔۔۔ ناکام رہا ۔۔


فجر کی اذانیں گونجنے لگیں تو وضو کرتے ہوئے میں نے تصور کیا کہ وہ جو سیاہ لباس میں ملبوس مجھ سے خواہ مخواہ بحث کررہی تھی ۔۔ اب سفید کفن میں مزید خوبصورت لگتی ہوں گی! جیسے پریاں۔
قحبہ خانوں کے سرپرستوں کو نوید ہو کہ اب اسلام آباد پرسکون تو ہوچکا ہے لیکن شاید اداس بھی! اور یہ سوال بہت سوں کی طرح ساری عمر میرا بھی پیچھا کرے گا کہ

وہ کون تھیں؟ کہاں چلی گئیں؟


(دونوں مرحوم بچیوں سے وعدے کے مطابق ان کے فرضی نام تحریر کررہا ہوں)


(بشکریہ روزنامہ جنگ)

تبصرے