بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ وحدہُ والصلاۃ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہُ و بعد
ہمارے سود وزیاں سے بے نیاز چرخ دوراں، ایک مخصوص رفتار سے محو خرام ہے، اور نزول قرآن، عتق من النیران (آگ سے آزادی) کا مہینہ، مہینہ جس کے آخری عشرہ کی پانچ طاق راتوں میں سے ایک رات، ہزار مہینوں سے افضل ہے، رحمتوں کے نزول عام کا مہینہ ۔۔۔
وہ مہینہ جس میں رحمت الہی کے مظہر، جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ وہ ماہ مبارک جس میں سرکش شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے، وہ ماہ مبارک جس کے صائمین کیلئے جنت کا ایک دروازہ (باب الریان) مختص ہے جس سے نہ کوئی ان سے پہلے جنت میں داخل ہوگا، نہ ان کے بعد ہی داخل ہوپائے گا۔
جس میں روزے رکھنا جہنم سے ڈھال ہے اور جس کا عشرۂ اول رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے، ایک بار پھر آپہنچا ہے۔ (اللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کو صحت و عافیت کے ساتھ رمضان المبارک میں صیام و قیام و فعل الخیرات نصیب فرمائیں۔ آمین)
وہ مہینہ جس میں رحمت الہی کے مظہر، جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ وہ ماہ مبارک جس میں سرکش شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے، وہ ماہ مبارک جس کے صائمین کیلئے جنت کا ایک دروازہ (باب الریان) مختص ہے جس سے نہ کوئی ان سے پہلے جنت میں داخل ہوگا، نہ ان کے بعد ہی داخل ہوپائے گا۔
جس میں روزے رکھنا جہنم سے ڈھال ہے اور جس کا عشرۂ اول رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے، ایک بار پھر آپہنچا ہے۔ (اللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کو صحت و عافیت کے ساتھ رمضان المبارک میں صیام و قیام و فعل الخیرات نصیب فرمائیں۔ آمین)
عزیزانِ من! رمضان المبارک ہر سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے، لیکن سعداء کے نامۂ اعمال میں حسنات کا ایک بے بہا اضافہ کرجاتا ہے، ان کیلئے توشۂ آخرت اور باعث حصولِ رضائے الہی ہوتا ہے۔ (اللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کو ان نیک بختوں میں شامل فرمائیں۔ آمین) اور شقی و بدبخت وہ ہے، جو رحمتوں کے نزول عام کے اس ماہ مبارک میں بھی اپنی مغفرت نہ کراسکا۔ (اللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائیں)۔
اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں:
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا
ترجمہ: ہم نے اسے (انسان کو) راہ دکھائی اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا۔ (سورۃ الانسان آیت ۳)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اور ہم نے دکھادیئے اس کو دونوں راستے۔ (سورۃ البلد۔ آیت ۱۰)
اور ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
"ہر شخص اپنے نفس کی خرید و فروخت کرتا ہے، پس اسے ہلاک کردیتا ہے یا اسے آزاد کرالیتا ہے" (صحیح مسلم)
اللہ سبحانہ و تعالی نے اعمال حسنہ کے فوائد و ثمرات کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ اعمال سیئہ پر ناراضگی و عذاب کو بھی اپنی کتاب اور بلسانِ خاتم المرسلین و النبیین صلی اللہ علیہ وسلم، کھول کھول بیان کردیا ہے۔ اور وقت ہے کہ مٹھی میں دبی ریت کی طرح ہمارے ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے۔ آیئے آج ہی سے رمضان المبارک کے استقبال کی تیاریاں شروع کردیں، اور ڈھلتی عمر کے ہر ہر لحظہ کو سرمایۂ آخرت بنائیں۔
رمضان المبارک کے فوائد و مقاصد:
روزے کے روحانی، اجتماعی اور طبی فائدے ہیں۔ روزے کے روحانی فوائد میں "صفت صبر" کے حصول اور اس کو قوی بنانا ہے، یہ اپنے آپ پر کنٹرول کرنا سکھاتا ہے اور اس میں معاون بنتا ہے۔ اسی طرح نفس و روح میں تقوی کا ملکہ ایجاد کرتا اور اس کو بڑھاتا ہے۔ اور یہ علت تقویِ، اللہ سبحانہ و تعالی کے اس فرمان سے واضح ہے:
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزہ اس طرح فرض ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ " (البقرۃ آیت ۱۸۳)
روزہ رکھنے سے انسان کی شہوات نفسانی میں کمی آتی ہے، جب ایک مسلمان روزہ رکھتا ہے تو اسے اپنی بھوک و پیاس کی شدت فقراء و مساکین پر بھی رحمدل بناتی اور ان کی تکالیف کا احساس دلاتی ہے۔ روزہ سے شیطان کے نفس پر حملے کی راہیں بھی تقریباً مسدود ہوجاتی ہیں کہ عموماً انسان کو نفس اور شیطان اسی وقت شہوات کی طرف ہانک لے جاتا ہے جب اس کا معدہ پُر ہوتا ہے۔ ظاہری انسانی اعضاء کی حفاظت اور باطنی طور پر اضافۂ قوت میں روزہ کی عجیب تاثیر ہے۔ یہ بدن سے ان فاسد مادوں کے اخراج کا بھی سبب ہے جن کا اس کے جسم میں وجود مضر صحت ہوتا ہے۔
روزے کے اجتماعی فوائد میں سے یہ ہے کہ اس سے امت میں نظم و نسق اور اتحاد کی عادت پیدا ہوتی ہے، عدل و مساوات سے محبت بڑھتی ہے اور ایمدانداروں میں جذبۂ ترحم اور ایک دوسرے پر احسان کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے اور اسی طرح روزہ معاشرے کو مفاسد اور خرابیوں سے بچاتا ہے۔
روزے کے طبی فوائد میں سے یہ ہے کہ اس سے آنتیں درست ہوتی ہیں، معدہ کی اصلاح ہوجاتی ہے، جسم کو فضلات اور بے کار اجزاء سے پاک و صاف کرتا ہے اور اسی طرح موٹاپے اور پیٹ کی چربی کے بوجھ میں کمی کا موجب بنتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ میں ہے:
ترجمہ: "روزہ رکھو تندرست ہوجاؤ گے"۔ (ابن السنی و ابو نعیم، و حسنہ السیوطی)
روزے کی تعریف:
"صیام" لغت عرب میں مطلق رک جانے کو کہتے ہیں۔ شرعاً اس کا مفہوم یہ ہے کہ عبادت کے ارادہ سے کھانے، پینے اور عورتوں کی مجامعت اور دیگر روزہ توڑنے والی چیزوں سے صبح صادق کے طلوع سے سورج کے غروب تک اجتناب کرنا۔
روزے کی فرضیت و تاریخ فرضیت:
رمضان کے روزے فرض ہیں۔ کتاب و سنت اور اجماع امت سے رمضان کے مہینہ کے روزوں کا فرض ہونا ثابت ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے:
ترجمہ: "ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کیلئے ہدایت ہے اور ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے، پس جو تم میں سے رمضان کو پالے وہ اس کے روزے رکھے۔ (البقرہ آیت ۱۸۵)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا"۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اور فرمایا: ترجمہ: "اسلام کے قواعد و بنیادیں تین ہیں جن پر اسلام کی عمارت تعمیر کی گئی ہے، جو کسی ایک کو چھوڑ دیتا ہے وہ کافر ہے اور اس کا خون حلال ہے۔ اس بات کی شہادت کے اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں، فرض نماز اور رمضان کے روزے"۔(رواہ ابو یعلی باسناد حسن)
اللہ سبحانہ و تعالی نے پہلی امتوں کی طرح امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اپنے درج ذیل فرمان میں روزہ فرض قرار دیا ہے:
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا، تاکہ تم متقی بن جاؤ" (البقرۃ آیت ۱۸۳)
یہ آیت مبارکہ بروز سوموار شعبان المعظم ۲ ہجری میں نازل ہوئی۔ (زاد المعاد لابن القیم، نیل الاوطار للشوکانی، منہاج المسلم)
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ "زاد المعاد" میں لکھتے ہیں:"اور رمضان المبارک کے روزے سنہ دو ہجری میں فرض ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کل نو (۹) سال (رمضان المبارک کے فرض) روزے رکھے۔ "
روزے کی فرضیت کے شرائط:
مسلمان پر روزہ تب فرض ہوتا ہے جب وہ عاقل اور بالغ ہو، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"تین آدمی مرفوع القلم ہیں، مجنون افاقہ ہونے تک، سونے والا بیدار ہونے تک اور نابالغ بالغ ہونے تک"۔ (احمد و ابو داؤد)
مسلمان عورت کیلئے بھی یہ شرط ہے کہ وہ حیض و نفاس سے پاک ہو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے دینی نقصان کے بارے میں فرمایا:
"کیا ایسا نہیں کہ جب وہ حیض سے ہوتی ہے، نہ نماز پڑھتی ہے نہ روزہ رکھتی ہے؟ " (صحیح بخاری)
واضح رہے کہ بیمار یا مسافر پر روزہ رکھنا فرض تو نہیں تاہم رکھنے کی صورت میں ان کا روزہ صحیح ہوجائے گا۔ (بدائع الصنائع)
کس چیز سے رمضان المبارک کی آمد کا پتہ چلتا ہے؟
رمضان المبارک کی آمد کا ثبوت (صحیح علم) یا تو اس طرح ہوگا کہ اس سے پہلے مہینے شعبان کے تیس دن مکمل ہوچکے ہوں۔ اکتیسواں دن رمضان کی پہلی تاریخ ہوگی ، یا پھر چاند دیکھنے سے اس کی آمد کا فیصلہ ہوگا، یعنی شعبان کی تیسویں رات کو اگر چاند نظر آجائے تو رمضان المبارک شروع ہوجائے گا اور اس صورت میں اگلے دن کا روزہ رکھنا فرض ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
ترجمہ : تم میں سے جو رمضان کا مہینہ پالے، وہ اس کے روزے رکھے۔ (البقرہ آیت ۱۸۵)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو اور جب (شوال کا) چاند دیکھ لو تو افطار کرو، اگر بادل (وغیرہ) ہوں تو تیس دن کی گنتی پوری کرو۔ (صحیح مسلم)
رمضان المبارک کے چاند کیلئے ایک یا دو عادل گواہوں کی گواہی کافی ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے چاند کی رویت کیلئے ایک گواہ کی گواہی کو کافی قرار دیا ہے۔ (ابوداؤد وغیرہم، اسناد صحیح ہیں)
البتہ افطار کیلئے شوال کے چاند کا اثبات (کم از کم) دو عادل گواہوں سے ہوگا۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افطار کیلئے ایک گواہ کی گواہی کو نافذ نہیں کیا ہے۔ (معجم طبرانی و سنن دارقطنی)
تنبیہہ: جو شخص رمضان کا چاند دیکھ لیتا ہے اور (کسی وجہ سے) اس کی گواہی مسترد ہوجاتی ہے تو وہ خود روزہ رکھے گا لیکن اگر افطار کا چاند دیکھ لیتا ہے اور اس کی گواہی قبول نہیں ہوتی تو وہ افطار نہیں کرے گا ۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے۔
"روزہ اس دن ہے جب تم روزہ رکھو اور افطار اس دن ہے جب تم افطار کرو اور قربانی اس دن ہے جس دن تم قربانی کرو۔"(سنن ترمذی)
روزے کی فضیلت:
درج ذیل احادیث مبارکہ روزے کی فضیلت و اہمیت کو ثابت کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"روزہ جہنم سے ڈھال ہے، جس طرح تمہارے ایک کی "لڑائی سے بچانے والی" ڈھال ہوتی ہے" (رواہ احمد و غیرہ)
اور فرمایا:
جو شخص اللہ عزوجل کے راستہ میں ایک دن روزہ رکھتا ہے، اللہ اس کا چہرہ اس دن کے عوض جہنم سے سترسال دور کردے گا"(بخاری و مسلم)
نیز ارشاد فرمایا:
" افطار کے وقت روزے دار کی دعا رد نہیں کی جاتی"۔ (ابن ماجہ و حاکم)
نیز ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"جنت میں ایک دروازہ ہے جسے "ریان" کہا جاتا ہے، قیامت کے دن اس سے روزے دار داخل ہوں گے۔ ان کے علاوہ اس میں سے کوئی اندر نہیں جاسکے گا۔ پکارا جائے گا روزے دار کہاں ہے؟ وہ کھڑے ہوجائیں گے، ان کے سوا اور کوئی اس (دروازے) سے داخل نہیں ہوگا۔ جب یہ داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا پھر بعد میں کوئی بھی اس میں داخل نہ ہوگا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”بنی آدم کا ہر عمل اس کیلئے ہے سوائے روزے کے، کہ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا"۔ اور روزہ (گناہوں سے) سپر (ڈھال) ہے۔ پھر جب کسی کا روزہ ہو تو اس دن گالیاں نہ بکے اور آواز بلند نہ کرے پھر اگر کوئی اسے گالی دے یا لڑنے کو آئے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے کہ بیشک روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے اور روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک تو وہ اپنے افطار کے وقت خوش ہوتا ہے اور دوسرا وہ اس وقت خوش ہو گا جب وہ اپنے روزے کے سبب اپنے پروردگار سے ملے گا۔"(صحیح مسلم)
اسی مضمون کی ایک روایت صحیح بخاری میں ہے جس میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
" بنی آدم کے ہر نیک عمل پر اس کیلئے دس گنا سے لیکر سات سو گنا تک اجر ہے (اللہ تعالی فرماتے ہیں) سوائے روزہ کے، کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں اسے اس کا اجر دوں گا۔ بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوات میرے لئے چھوڑتا ہے، روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔ "
ایک اور حدیث مبارک میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو (یہ تینوں) درمیانی عرصہ کے گناہوں کو ختم کردیتے ہیں"۔ (صحیح مسلم)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہوا اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ (صحیح بخاری)
اور فرمایا:
ترجمہ: "رمضان کی پہلی رات شیاطین اور سرکش جنات باندھ دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، ان میں سے کوئی دروازہ نہیں کھلتا اور بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں ہوتا اور اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے۔ "اے اچھائی کے متلاشی! آگے بڑھ اور اے شر کے متلاشی! رک جا اور (بہت سے لوگوں کو) اللہ جہنم سے آزاد کرتا ہے اور یہ ہر رات ہوتا ہے۔" (سن الترمذی و قال غریب، و صححہ الحاکم علی شرط الشیخین)
روزہ گناہوں کا کفارہ:
صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ "میں نے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ انسان کیلئے اس کے بال بچے، اس کا مال اور اس کے پڑوسی فتنہ (آزمائش و امتحان) ہیں، جس کا کفارہ نماز، روزہ اور صدقہ بن جاتا ہے۔"
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : رمضان المبارک کو باقی سب مہینوں پر فضیلت حاصل ہے ، اوررمضان کے آخری عشرہ کی راتوں کوباقی سب راتوں پرفضیلت حاصل ہے ۔ (زاد المعاد 1 / 56 ) ۔
ان آخری دس راتوں میں سے بھی طاق راتیں زیادہ فضیلت کی حامل ہیں۔
رمضان المبارک کا مہینہ باقی مہینوں پر چاروجوہات سے افضل ہے :
اول : اس مہینہ میں ایک ایسی رات ہے جو سارے سال کی راتوں پر افضل ہے جولیلۃ القدر کے نام سے پہچانی جاتی ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے اسی کے بارے میں فرمایا:
ترجمہ: یقینا ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا ، آپ کوکیا علم کہ شب قدر کیا ہے ؟ ، شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اس میں ہر کام کو سرانجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اورروح ( جبریل علیہ السلام) اترتے ہیں ، یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور طلوع فجر تک رہتی ہے } القدر ( 1 - 5 ) ۔
اس رات میں کی گئي عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی بہتر ہے ۔ (لیلۃ القدر کے بارے میں مزید تفصیل آگے بیان ہوگی ان شاء اللہ)
دوم: اس رات میں سب سے بہتر اورافضل آسمانی کتاب قرآن مجید ، سب سے افضل نبی و رسول، سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
ترجمہ: ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا جولوگوں کوھدایت کی راہنمائی کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اورحق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہيں ، تم میں سے جو شخص بھی اس مہینہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہیے (البقرۃ آیت 185 )۔
اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا:
ترجمہ: یقینا ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہيں ، اسی رات میں ہرایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، ہمارے پاس سے حکم بن کر ، ہم ہی رسول بنا کر بھیجنے والے ہیں (الدخان 3 - 5 )۔
امام احمد اورطبرانی وغیرہ نے واثلہ بن الاسقع رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" صحف ابراھیم ( علیہ السلام ) رمضان المبارک کی پہلی رات میں نازل کیے گئے ، اورتورات سات رمضان میں نازل کی گئي ، اورزبور انیس رمضان میں نازل کی گئي ، اورقرآن مجید چوبیس رمضان کے بعد نازل کیا گیا " (صححہ الالبانی فی السلسلۃ الصحیحہ۔ الحدیث رقم ۱۵۷۵)
سوم: اس مہینہ میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کرنے کے ساتھ ساتھ سرکش قسم کے شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں : ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "جب رمضان آتا ہے توجنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے اورشیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے" (متفق علیہ)
امام نسائی رحمہ اللہ تعالی ابوہریرہ رضي اللہ تعالی سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب رمضان المبارک شروع ہوتا ہے تو رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اورشیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے (صححہ الالبانی فی صحیح الجامع ۴۷۱)
ایک اور روایت کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے: "رمضان المبارک کی پہلی رات بڑے بڑے سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ، اورجہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ان میں سے کوئي بھی کھولا نہیں جاتا ، اورجنت کے کے سب دروازے کھول دیےجاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی بند نہیں ہوتا ، اورایک منادی کرنے والا منادی کرتا رہتا ہے : اے خیر وبھلائی چاہنے والے اورزيادہ بھلائی کر، اور اے شرو برائی کرنے والے برائي کرنے سے باز آجاؤ ، اوراللہ تعالی کے جہنم سے آزادی بھی دیتا ہے ، یہ منادی ہررات کوکی جاتی ہے "( سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، ابن خزیمہ ، ورواہ الشیخ البانی رحمہ اللہ فی صحیح الجامع ( 759 ) و حسنہ)
ایک اشکال یہ ہے کہ جب رمضان المبارک میں شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے تو پھر معاصی کا ارتکاب کیونکر عمل میں آتا ہے؟ اس کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ یہ صرف اس شخص کے حق میں ہو، جوروزے کی شروط اوراس کے آداب پر عمل پیرا ہوتا ہے ۔ یا پھر ہوسکتا ہے کہ صرف بڑے بڑے سرکش شیطانوں کو جکڑا جاتا ہو نہ کہ سب کو۔ تاہم یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ رمضان المبارک میں شر وبرائی میں کمی واقع ہوجاتی ہے ، اورپھر یہ بھی امر واقع ہے کہ سب شیطانوں کے جکڑے جانے پر بھی سب برائیاں نہیں رک نہیں سکتیں ، اس لیے کہ معصیت کے شیطان کے علاوہ اوربھی کئي اسباب ہیں مثلا : خبیث النفس لوگ ، گندی عادتیں ، اورانسانوں میں سے شیطان صفت لوگ ۔تفصیل کیلئے فتح الباری ( 4 / 145 ) ملاحظہ ہو۔
چہارم: اس مہینہ میں بہت ساری عبادات ہیں جوباقی مہینوں میں نہیں پائي جاتیں ، مثلا فرض روزے اورسنت تراویح، فقراء و مساکین کو کھانا کھلانا ، اعتکاف کرنا ، صدقہ و خیرات ، قراءت قرآن ۔ (ان میں سے مؤخر الذکر تو دیگر مہینوں میں بھی ممکن ہیں تاہم وہ اہتمام نہیں پایا جاتا جو رمضان المبارک میں خاص طور پر ہوتا ہے)
رمضان المبارک میں نیکیاں اور احسان کرنے کی فضیلت
رمضان المبارک کی فضیلت کی وجہ سے اس میں نیکی، خیرات اور احسان کے کاموں کی بہت فضیلت ہے، ذیل میں ان میں سے چند ایکی کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
(۱) صدقہ و خیرات:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ترجمہ: "رمضان کی خیرات افضل خیرات ہے۔ " (سنن الترمذی و اسنادہ ضعیف)
اور فرمایا:
ترجمہ: "جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کراتا ہے تو وہ روزے دار کا ثواب کم کئے بغیر اس کے برابر ثواب کا مستحق ہوگا۔ "(مسند احمد و سنن الترمذی و اسنادہ صحیح)
اور فرمایا:
ترجمہ: "جو شخص کھانے پینے کی کسی حلال چیز کے ساتھ کسی روزے دار کا افطار کراتا ہے تو سارا رمضان فرشتے اس کیلئے دعائیں کرتے رہتے ہیں اور جبرائیل (علیہ السلام) اس کیلئے لیلۃ القدر میں دعا کرتے ہیں۔" (الطبرانی و ابو الشیخ)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیرات کرنے میں سب سے بڑھ کر سخی تھے اور رمضان المبارک میں جب جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی سخاوت کرتے۔ (صحیح بخاری)
رات کا قیام:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ترجمہ: "جو شخص ایمان کے ساتھ اور طلب ثواب کیلئے رمضان کا قیام کرتا ہے اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ " (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی راتوں میں جاگتے تھے اور آخری دس راتوں میں اپنے اہل اور ہر چھوٹے بڑے کو جو نماز پڑھ سکتا تھا، بیدار کرتے تھے۔ (صحیح مسلم)
باجماعت تراویح کے سنت ہونے کا بیان:
رمضان المبارک میں باجماعت قیام (تراویح) افضل ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود باجماعت قیام اللیل فرمایا، اور اس کی فضیلت بھی بیان فرمائی۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ "ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تمام ماہ کوئی قیام نہ کروایا، لیکن جب سات راتیں رہ گئیں، تو ہمیں رات کے آخری حصہ میں قیام کروایا حتی کہ رات کا تیسرا حصہ بیت گیا، اگلی شب قیام نہ کروایا اور جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں تو پھر قیام اللیل کروایا حتی کہ رات کا آدھا حصہ بیت گیا، تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ! (کیا ہی اچھا ہوتا) اگر آپ ہمیں پوری رات قیام کروادیتے" تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جب آدمی امام کے ساتھ نماز ادا کرے حتی کہ امام (فارغ ہوکر) چلا جائے، تو اس کیلئے پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔" ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس سے اگلی رات پھر ہمیں قیام نہیں کرایا گیا۔ اور جب رمضان المبارک کی آخری تین راتیں رہ گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت اور دیگر لوگوں کو جمع کیا، اور اتنا قیام کروایا کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ ہماری فلاح ہی نہ جائے، راوی کہتے ہیں، میں نے پوچھا کہ "فلاح کیا ہے؟" ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا "سحری" پھر اس کے بعد مہینہ کی باقی راتیں ہمیں قیام نہ کروایا"
(حدیث کی اسناد صحیح ہیں اور اسے اصحاب سنن نے روایت کیا ہے)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینہ کی باقیں راتیں قیام اس لئے نہ کروایا کہ کہیں رمضان المبارک میں قیام اللیل فرض ہی نہ ہوجائے اور امت اس کی ادائیگی سے عاجز ہوجائے، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چونکہ وحی منقطع ہوئی، لہذا اس کے فرض ہونے کا خدشہ زائل ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سنت کی احیاء کا حکم فرمایا۔ جیسا کہ بخاری و دیگر معتبرات میں اس کی مزید تفصیل موجود ہے۔
اور عبد الرحمن بن عبيد القارى كہتے ہيں: " رمضان المبارك كى ايك رات ميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ مسجد كى طرف گيا تو لوگ عليحدہ عليحدہ نماز ادا كر رہے تھے، كہيں اكيلا شخص نماز ادا كر رہا تھا، تو اور كسى شخص كے پيچھے كچھ لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اللہ كى قسم ميرا خيال اور رائے ہے كہ اگر ميں انہيں ايك قارى كے پيچھے جمع كر دوں تو زيادہ بہتر ہے، پھر انہوں نے عزم كر ليا، اور سب لوگوں كو ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ كے پيچھے نماز ادا كرنے كا كہا.
قيام كا وقت:
قيام الليل كا وقت نماز عشاء كے بعد سے ليكر فجر تك ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " يقينا اللہ تعالى نےتمہارے ليے ايك نماز زائد كى ہے اور وہ وتر ہيں تو تم اسے نماز عشاء سے نماز فجر كے درميان ادا كيا كرو " پھر رات كے آخرى حصہ ميں نماز ادا كرنا افضل ہے، جس كے ليے اس ميں آسانى ہو تو وہ رات كے آخرى حصہ ميں ادا كرے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " جسے خدشہ ہو كہ وہ رات كے آخر ميں بيدار نہيں ہو سكےگا تو وہ رات كے شروع ميں ہى وتر ادا كر لے، اور جو رات كے آخر ميں بيدار ہونے كى اميد ركھتا ہو وہ رات كے آخر ميں وتر ادا كرے، كيونكہ رات كے آخر ميں ادا كردہ نماز ميں فرشتے حاضر ہوتے ہيں، اور يہ افضل ہے " تاہم جب رات كى ابتدا ميں باجماعت قيام اور رات كے آخر ميں اكيلے قيام كرنے كا معاملہ ہو تو پھر جماعت كے ساتھ نماز ادا كرنا افضل ہے، كيونكہ اس پر اس كے ليے سارى رات كے قيام كا ثواب لكھا جائيگا جیسا کہ حدیث میں بھی ثابت ہے. تين وتروں ميں قرآت كرنا: تين وتروں كى قرآت ميں سنت يہ ہے كہ پہلى ركعت ميں { سبح اسم ربك الاعلى } اور دوسرى ركعت ميں{ قل يا ايھا الكافرون } اور تيسرى ركعت ميں { قل ھو اللہ احد } اور بعض اوقات اس كے ساتھ { قل اعوذ برب الفلق } اور { قل اعوذ برب الناس } كا اضافہ كر ليا كرے. اور يہ بھى نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہے كہ آپ نے ايك بار وتر ميں سورۃ النساء كى ايك سو آيات كى تلاوت فرمائى.
اور یہ بھی سنت ہے كہ وتر كے آخر ميں (سلام سے پہلے يا سلام پھير كر) درج ذيل كلمات كہے:
رمضان المبارک میں نیکیاں اور احسان کرنے کی فضیلت
رمضان المبارک کی فضیلت کی وجہ سے اس میں نیکی، خیرات اور احسان کے کاموں کی بہت فضیلت ہے، ذیل میں ان میں سے چند ایکی کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
(۱) صدقہ و خیرات:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ترجمہ: "رمضان کی خیرات افضل خیرات ہے۔ " (سنن الترمذی و اسنادہ ضعیف)
اور فرمایا:
ترجمہ: "جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کراتا ہے تو وہ روزے دار کا ثواب کم کئے بغیر اس کے برابر ثواب کا مستحق ہوگا۔ "(مسند احمد و سنن الترمذی و اسنادہ صحیح)
اور فرمایا:
ترجمہ: "جو شخص کھانے پینے کی کسی حلال چیز کے ساتھ کسی روزے دار کا افطار کراتا ہے تو سارا رمضان فرشتے اس کیلئے دعائیں کرتے رہتے ہیں اور جبرائیل (علیہ السلام) اس کیلئے لیلۃ القدر میں دعا کرتے ہیں۔" (الطبرانی و ابو الشیخ)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیرات کرنے میں سب سے بڑھ کر سخی تھے اور رمضان المبارک میں جب جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی سخاوت کرتے۔ (صحیح بخاری)
رات کا قیام:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ترجمہ: "جو شخص ایمان کے ساتھ اور طلب ثواب کیلئے رمضان کا قیام کرتا ہے اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ " (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی راتوں میں جاگتے تھے اور آخری دس راتوں میں اپنے اہل اور ہر چھوٹے بڑے کو جو نماز پڑھ سکتا تھا، بیدار کرتے تھے۔ (صحیح مسلم)
باجماعت تراویح کے سنت ہونے کا بیان:
رمضان المبارک میں باجماعت قیام (تراویح) افضل ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود باجماعت قیام اللیل فرمایا، اور اس کی فضیلت بھی بیان فرمائی۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ "ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تمام ماہ کوئی قیام نہ کروایا، لیکن جب سات راتیں رہ گئیں، تو ہمیں رات کے آخری حصہ میں قیام کروایا حتی کہ رات کا تیسرا حصہ بیت گیا، اگلی شب قیام نہ کروایا اور جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں تو پھر قیام اللیل کروایا حتی کہ رات کا آدھا حصہ بیت گیا، تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ! (کیا ہی اچھا ہوتا) اگر آپ ہمیں پوری رات قیام کروادیتے" تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جب آدمی امام کے ساتھ نماز ادا کرے حتی کہ امام (فارغ ہوکر) چلا جائے، تو اس کیلئے پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔" ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس سے اگلی رات پھر ہمیں قیام نہیں کرایا گیا۔ اور جب رمضان المبارک کی آخری تین راتیں رہ گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت اور دیگر لوگوں کو جمع کیا، اور اتنا قیام کروایا کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ ہماری فلاح ہی نہ جائے، راوی کہتے ہیں، میں نے پوچھا کہ "فلاح کیا ہے؟" ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا "سحری" پھر اس کے بعد مہینہ کی باقی راتیں ہمیں قیام نہ کروایا"
(حدیث کی اسناد صحیح ہیں اور اسے اصحاب سنن نے روایت کیا ہے)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینہ کی باقیں راتیں قیام اس لئے نہ کروایا کہ کہیں رمضان المبارک میں قیام اللیل فرض ہی نہ ہوجائے اور امت اس کی ادائیگی سے عاجز ہوجائے، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چونکہ وحی منقطع ہوئی، لہذا اس کے فرض ہونے کا خدشہ زائل ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سنت کی احیاء کا حکم فرمایا۔ جیسا کہ بخاری و دیگر معتبرات میں اس کی مزید تفصیل موجود ہے۔
اور عبد الرحمن بن عبيد القارى كہتے ہيں: " رمضان المبارك كى ايك رات ميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ مسجد كى طرف گيا تو لوگ عليحدہ عليحدہ نماز ادا كر رہے تھے، كہيں اكيلا شخص نماز ادا كر رہا تھا، تو اور كسى شخص كے پيچھے كچھ لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اللہ كى قسم ميرا خيال اور رائے ہے كہ اگر ميں انہيں ايك قارى كے پيچھے جمع كر دوں تو زيادہ بہتر ہے، پھر انہوں نے عزم كر ليا، اور سب لوگوں كو ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ كے پيچھے نماز ادا كرنے كا كہا.
قيام كا وقت:
قيام الليل كا وقت نماز عشاء كے بعد سے ليكر فجر تك ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " يقينا اللہ تعالى نےتمہارے ليے ايك نماز زائد كى ہے اور وہ وتر ہيں تو تم اسے نماز عشاء سے نماز فجر كے درميان ادا كيا كرو " پھر رات كے آخرى حصہ ميں نماز ادا كرنا افضل ہے، جس كے ليے اس ميں آسانى ہو تو وہ رات كے آخرى حصہ ميں ادا كرے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " جسے خدشہ ہو كہ وہ رات كے آخر ميں بيدار نہيں ہو سكےگا تو وہ رات كے شروع ميں ہى وتر ادا كر لے، اور جو رات كے آخر ميں بيدار ہونے كى اميد ركھتا ہو وہ رات كے آخر ميں وتر ادا كرے، كيونكہ رات كے آخر ميں ادا كردہ نماز ميں فرشتے حاضر ہوتے ہيں، اور يہ افضل ہے " تاہم جب رات كى ابتدا ميں باجماعت قيام اور رات كے آخر ميں اكيلے قيام كرنے كا معاملہ ہو تو پھر جماعت كے ساتھ نماز ادا كرنا افضل ہے، كيونكہ اس پر اس كے ليے سارى رات كے قيام كا ثواب لكھا جائيگا جیسا کہ حدیث میں بھی ثابت ہے. تين وتروں ميں قرآت كرنا: تين وتروں كى قرآت ميں سنت يہ ہے كہ پہلى ركعت ميں { سبح اسم ربك الاعلى } اور دوسرى ركعت ميں{ قل يا ايھا الكافرون } اور تيسرى ركعت ميں { قل ھو اللہ احد } اور بعض اوقات اس كے ساتھ { قل اعوذ برب الفلق } اور { قل اعوذ برب الناس } كا اضافہ كر ليا كرے. اور يہ بھى نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہے كہ آپ نے ايك بار وتر ميں سورۃ النساء كى ايك سو آيات كى تلاوت فرمائى.
اور یہ بھی سنت ہے كہ وتر كے آخر ميں (سلام سے پہلے يا سلام پھير كر) درج ذيل كلمات كہے:
"اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك ، وبمعافاتك من عقوبتك ، وأعوذ بك منك ، لا أحصي ثناء عليك ، أنت كما اثنيت على نفسك "
اے اللہ ميں تيرى ناراضگى سے تيرى رضا كى پناہ ميں آتا ہوں، اور تيرے عقاب و سزا سے تيرى عافيت كى طرف آتا ہوں، اور تجھ سے پناہ طلب كرتا ہوں، ميں تيرى ثناء كو شمار ہى نہيں كر سكتا، جس طرح تو نے اپنى ثناء خود كى ہے"
جب وتر سے سلام پھيرے تو يہ كلمات تين بار كہے:
" سبحان الملك القدوس ، سبحان الملك القدوس ، سبحان الملك القدوس "
اور تيسرى بار اسے بلند آواز سے كہے.
تلاوت قرآن کریم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں کثرت سے تلاوت کرتے تھے اور جبرائیل علیہ السلام بھی رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن پاک کا دور کرتے تھے۔ (صحیح بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ قیام رمضان میں قراءت دیگر ایام کے مقابلے میں لمبی کرتے تھے۔ ایک رات حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ بقرہ پڑھی، پھر آل عمران اور پھر سورۂ نساء، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیت تخویف پڑھتے تو ٹھہرجاتے اور دعا کرتے۔ ابھی دو رکعتیں نہیں پڑھی تھیں کہ بلال رضی اللہ عنہ آگئے اور صبح کی نماز کی اطلاع دی۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے:
ترجمہ: "روزہ اور قرآن بندے کیلئے قیامت کے دن سفارش کریں گے، روزہ کہے گا "اے رب! میں نے اسے دن میں کھانے اور پینے سے روکا تھا" اور قرآن کہے گا " میں نے اسے رات کے وقت سونے سے روکا تھا تو اس کے حق میں ہماری سفارش قبول فرما" ۔ (مسند احمد، نسائی)
کوشش کرنا کہ تلاوت کلام پاک کے دوران خشیت و خوف الہی سے گریہ کی کیفیت طاری ہوجائے: تلاوت کلام پاک کے ذیل میں یہ بھی بیان ہوجائے کہ قرآن مجید کی تلاوت کا حق ادا کرنے کا تقاضہ یہ ہے کہ تلاوت فہمِ معانی اور تدبر کے ساتھ کی جائے، اور یہی معمول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امت کے صلحاء کا رہا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن سننے کی خواہش ظاہر فرمائی، قرآن مجید سناتے ہوئے جب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس آیت پر پہنچے: فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًاترجمہ: پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے۔" (النساء آیت ۴۱) تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بس، اب کافی ہے" حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ "میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔"(صحیح بخاری)
تلاوت قرآن کریم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں کثرت سے تلاوت کرتے تھے اور جبرائیل علیہ السلام بھی رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن پاک کا دور کرتے تھے۔ (صحیح بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ قیام رمضان میں قراءت دیگر ایام کے مقابلے میں لمبی کرتے تھے۔ ایک رات حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ بقرہ پڑھی، پھر آل عمران اور پھر سورۂ نساء، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیت تخویف پڑھتے تو ٹھہرجاتے اور دعا کرتے۔ ابھی دو رکعتیں نہیں پڑھی تھیں کہ بلال رضی اللہ عنہ آگئے اور صبح کی نماز کی اطلاع دی۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے:
ترجمہ: "روزہ اور قرآن بندے کیلئے قیامت کے دن سفارش کریں گے، روزہ کہے گا "اے رب! میں نے اسے دن میں کھانے اور پینے سے روکا تھا" اور قرآن کہے گا " میں نے اسے رات کے وقت سونے سے روکا تھا تو اس کے حق میں ہماری سفارش قبول فرما" ۔ (مسند احمد، نسائی)
کوشش کرنا کہ تلاوت کلام پاک کے دوران خشیت و خوف الہی سے گریہ کی کیفیت طاری ہوجائے: تلاوت کلام پاک کے ذیل میں یہ بھی بیان ہوجائے کہ قرآن مجید کی تلاوت کا حق ادا کرنے کا تقاضہ یہ ہے کہ تلاوت فہمِ معانی اور تدبر کے ساتھ کی جائے، اور یہی معمول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امت کے صلحاء کا رہا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن سننے کی خواہش ظاہر فرمائی، قرآن مجید سناتے ہوئے جب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس آیت پر پہنچے: فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًاترجمہ: پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے۔" (النساء آیت ۴۱) تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بس، اب کافی ہے" حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ "میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔"(صحیح بخاری)
عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک روز ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو سلام کرنے گیا، تو دیکھا کہ وہ مصلے پر ہیں، نماز پڑھ رہی ہیں، اور مسلسل یہ آیت پڑھے جارہی ہیں:
فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ
ترجمہ: پس اللہ تعالی نے ہر پر بڑا احسان کیا اور ہمیں تیز و تند گرم ہواؤں کے عذاب سے بچالیا" (سورۃ الطور آیت 27)
عروہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ تھوڑی دیر بعد آتا ہوں، گئے اور (کچھ کام وغیرہ نمٹا کر) دوبارہ آئے تو دیکھا کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا اسی حالت میں کھڑی، وہی آیت دہرا رہی ہیں اور روئے جارہی ہیں۔
یہ کیفیت اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں بھی نصیب فرمائے۔ آمین۔ تاہم اس کیلئے کچھ اہتمام ہمیں کرنا ہوگا کہ ہم قرآن مجید کو معانی و مفہوم کے ساتھ پڑھنے، اور پیغام ربانی کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
اعتکاف
اللہ عزوجل کا تقرب حاصل کرنے کیلئے برائے عبادت مسجد میں رہنا اعتکاف کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف بیٹھتے تھے اور وفات تک رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں مسجد میں اعتکاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رہا۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: "مسجد ہر متقی کا گھر ہے اور اللہ تعالی نے اس شخص کیلئے جس کا گھر مسجد ہے، خوشی، رحمت اور پل صراط سے گزر کر اپنی رضا یعنی بہشت کی ضمانت دی ہے" ۔ (معجم الطبرانی و مسند بزار)
ایک اور حدیث مبارکہ میں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے اعتکاف کیا۔ (صحیح مسلم)
اعتکاف
اللہ عزوجل کا تقرب حاصل کرنے کیلئے برائے عبادت مسجد میں رہنا اعتکاف کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف بیٹھتے تھے اور وفات تک رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں مسجد میں اعتکاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رہا۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: "مسجد ہر متقی کا گھر ہے اور اللہ تعالی نے اس شخص کیلئے جس کا گھر مسجد ہے، خوشی، رحمت اور پل صراط سے گزر کر اپنی رضا یعنی بہشت کی ضمانت دی ہے" ۔ (معجم الطبرانی و مسند بزار)
ایک اور حدیث مبارکہ میں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے اعتکاف کیا۔ (صحیح مسلم)
اعتکاف کا تذکرہ قرآن مجید میں مسجد الحرام کی عبادتوں میں سے ایک عبادت کے ذیل میں بھی ہوا ہے۔ سورہ بقرہ میں ہے:
ترجمہ: ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کیلئے پاک و صاف رکھو۔ (البقرۃ آیت ۱۲۵)
اجتماعی طور پر اعتکاف واجب نہیں ہے ، ہاں اگر کوئی نذر مانے یا کوئی شروع کرلے مگر درمیان میں قصداً چھوڑ دے تو ان صورتوں میں اس کا پورا کرنا واجب ہے۔
اعتکاف کے کچھ آداب و شرائط:
رمضان المبارک کی بیسویں تاریخ کو مغرب سے پہلے پہلے کسی جامع مسجد یا ایسی مسجد جہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو، بیٹھ جانا، مسجد میں بیٹھتے ہی یہ شخص معتکف ہوگیا، اب بجز ضرورت شرعیہ یا طبعیہ کے مسجد سے باہر نہیں نکل سکتا ہے، یہاں تک کہ جنازہ پڑھنے یا مریض کی عیادت کرنے بھی نہیں جاسکتا۔ اور حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے "زاد المعاد" میں، جبکہ علی القاری رحمہ اللہ نے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں لکھا ہے کہ معتکف کو بغیر شریک ہوئے ان اعمال کا اجروثواب ملتا ہے۔
ضرورت شرعیہ کی مثال:مثلاً معتکف کسی ایسی مسجد میں اعتکاف کررہا ہے جہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تو یہ معتکف قریبی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے جاسکتا ہے، یہ ضرورت شرعیہ کہلائے گی۔
ضرورت طبعیہ کی مثال:مثلاً قضائے حاجت، ضروری غسل وغیرہ، لیکن محض ٹھنڈک حاصل کرنے یا نماز جمعہ کے غسل کیلئے نہیں جاسکتا۔ (بدائع الصنائع، فتح القدیر، شامی)
معتکف کو چاہئے کہ زیادہ تر اوقات تلاوت، نفل نماز، ذکر الہی و درود خوانی یا دینی تعلیم و تدریس میں گزارے۔ امام سفیان الثوری رحمت اللہ علیہ معتکف کیلئے دعا کرنے کو زیاہ مفید اور نافع عمل سمجھتے تھے۔
خواتین کا اعتکاف:
ترجمہ: ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کیلئے پاک و صاف رکھو۔ (البقرۃ آیت ۱۲۵)
اجتماعی طور پر اعتکاف واجب نہیں ہے ، ہاں اگر کوئی نذر مانے یا کوئی شروع کرلے مگر درمیان میں قصداً چھوڑ دے تو ان صورتوں میں اس کا پورا کرنا واجب ہے۔
اعتکاف کے کچھ آداب و شرائط:
رمضان المبارک کی بیسویں تاریخ کو مغرب سے پہلے پہلے کسی جامع مسجد یا ایسی مسجد جہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو، بیٹھ جانا، مسجد میں بیٹھتے ہی یہ شخص معتکف ہوگیا، اب بجز ضرورت شرعیہ یا طبعیہ کے مسجد سے باہر نہیں نکل سکتا ہے، یہاں تک کہ جنازہ پڑھنے یا مریض کی عیادت کرنے بھی نہیں جاسکتا۔ اور حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے "زاد المعاد" میں، جبکہ علی القاری رحمہ اللہ نے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں لکھا ہے کہ معتکف کو بغیر شریک ہوئے ان اعمال کا اجروثواب ملتا ہے۔
ضرورت شرعیہ کی مثال:مثلاً معتکف کسی ایسی مسجد میں اعتکاف کررہا ہے جہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تو یہ معتکف قریبی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے جاسکتا ہے، یہ ضرورت شرعیہ کہلائے گی۔
ضرورت طبعیہ کی مثال:مثلاً قضائے حاجت، ضروری غسل وغیرہ، لیکن محض ٹھنڈک حاصل کرنے یا نماز جمعہ کے غسل کیلئے نہیں جاسکتا۔ (بدائع الصنائع، فتح القدیر، شامی)
معتکف کو چاہئے کہ زیادہ تر اوقات تلاوت، نفل نماز، ذکر الہی و درود خوانی یا دینی تعلیم و تدریس میں گزارے۔ امام سفیان الثوری رحمت اللہ علیہ معتکف کیلئے دعا کرنے کو زیاہ مفید اور نافع عمل سمجھتے تھے۔
خواتین کا اعتکاف:
خاتون اپنے گھر میں اعتکاف کرسکتی ہے، مستحب ہے کہ وہ گھر کے اس حصے میں خلوت نشین ہوجائے جو نماز پڑھنے کیلئے مقرر ہو، اگر کوئی جگہ مقرر نہیں تو اعتکاف کیلئے جگہ مقرر کرلے اور وہاں بیٹھ جائے۔
عمرہ کرنا :
اللہ کے گھر کی زیارت، طواف اور سعی صفا و مروہ کرنا عمرہ کہلاتا ہے۔ رمضان المبارک کے عمرہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے:
"رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اور فرمایا:
" ایک کے بعد دوسرا عمرہ درمیانے گناہوں کیلئے کفارہ ہے"(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
آخری عشرہ میں (عبادت و ریاضت میں) محنت و کوشش:
عمرہ کرنا :
اللہ کے گھر کی زیارت، طواف اور سعی صفا و مروہ کرنا عمرہ کہلاتا ہے۔ رمضان المبارک کے عمرہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے:
"رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اور فرمایا:
" ایک کے بعد دوسرا عمرہ درمیانے گناہوں کیلئے کفارہ ہے"(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
آخری عشرہ میں (عبادت و ریاضت میں) محنت و کوشش:
اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے، (عبادت میں) نہایت کوشش کرتے اور کمرِ ہمت باندھ لیتے تھے ۔
روزے کے ارکان، سنن اور مکروہات:
روزے کے ارکان، سنن اور مکروہات:
روزے کے ارکان۔
۱۔ نیت کرنا: یعنی اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل میں اور اس کا قرب حاصل کرنے کیلئے دل میں روزہ رکھنے کا پختہ عزم کرنا۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے" (صحیح بخاری)
اگر روزہ فرض ہو تو صبح صادق سے پہلے رات کو ہی اس کی نیت و ارادہ کرے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
"جو رات کو روزہ کی نیت نہ کرے، اس کا روزہ نہیں ہے۔ (سنن ترمذی)
اور اگر روزہ نفل ہو تو طلوع فجر کے بعد بھی نیت کرسکتا ہے، بلکہ اگر کچھ کھایا پیا نہیں ہے تو سورج طلوع ہونے کے بعد بھی نیت ہوسکتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور فرمایا "کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ ہم نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تو پھر میں روزے سے ہوں" ۔ (صحیح مسلم)
رہ گئے نیت کرنے کے وہ الفاظ جو مشہور ہیں "و بصوم غد نویت من شہر رمضان" تو یہ محققین کے نزدیک کسی روایت و حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔ نیز زبان سے نیت کے کلمات ادا کرنے بھی ضروری نہیں ہیں۔
۲۔ امساک: کھانے پینے اور مجامعت سے رکنا۔
۳۔ وقت: اس سے مراد پورا دن ہے۔ یعنی صبح صادق کے طلوع سے غروب آفتراب تک کا وقت روزے کا ہے۔ اگر کوئی شخص رات کا روزہ رکھے اور دن میں افطار کرے تو یہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ ارشاد باری تعالی ہے:
ترجمہ: اور رات (کی ابتداء) تک روزہ پورا کرو۔ (البقرہ آیت ۱۸۷)
روزے میں مسنون امور:
افطار جلدی کرنا مسنون ہے، اس طرح کہ سورج غروب ہونے کے فوراً بعد افطار کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارکہ ہے:
"جب تک لوگ جلدی افطار کریں گے، اچھائی میں رہیں گے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افطار کئے بغیر مغرب کی نماز نہیں پڑھتے تھے، چاہے ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ افطار کرتے۔ (سنن ترمذی و اسنادہ حسن)
تازہ یا خشک کھجور، یا پانی سے روزہ افطار کرنا سنت ہے، اور ان میں اول الذکر سے افطار افضل ہے اور آخری درجہ پانی سے افطار کا ہے۔ مستحب یہ ہے کہ کھجور کے تین یا پانچ یا سات دانوں سے افطار کیا جائے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تازہ کھجوروں کے ساتھ نماز سے پہلے افطار کرتے تھے، اگر تازہ نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں کے ساتھ، اگر یہ بھی نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ بھرلیتے۔" (معجم طبرانی)
افطار کے وقت دعا پڑھنا بھی مسنون ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وعَلَى رِزْقِكَ أفْطَرْتُ
(زاد المعاد)
ترجمہ: اے اللہ ہم نے تیرے ہی لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کر رہے ہیں۔ پس ہم سے قبول فرما، بے شک تو ہی سننے (اور) جاننے والا ہے۔"
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے:
"اللہم انی اسالک برحمتک التی وسعت کل شیئی ان تغفر لی ذنوبی" (سنن ابن ماجہ باسناد صحیح)
ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے تیری رحمت جو ہر چیز سے زیادہ وسیع ہے، (کے وسیلے) سے سوال کرتا ہوں کہ میرے گناہوں کی مغفرت فرما"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار فرماتے یہ دعا پڑھتے تھے:
ذَهَبَ الظَّمَأُ، وابْتَلَّتِ العُروقُ، وثَبَتَ الأجْرُ إن شاء اللَّه تعالى(ابو داود)
جبکہ پہلی منقول کردہ دعا۔ "اللہم لک صمنا" میں "وبک آمنت و علیک توکلت" کو اضافہ فی الحدیث اور بے اصل قرار دیا گیا ہے لہذا اس سے اجتناب لازم ہے۔ (بحوالہ مرقاۃ شرح مشکوۃ از علی القاری رحمہ اللہ)
سحری کھانا:
سحری کھانا سنت (مؤکدہ) ہے۔ یعنی رات کے آخری حصہ میں روزہ کی نیت سے کھانا اور پینا۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: "ہمارے اور اہل کتاب کے روزہ میں سحری کھانے ہی کا فرق ہے" (صحیح مسلم)
سحری کھانا سنت (مؤکدہ) ہے۔ یعنی رات کے آخری حصہ میں روزہ کی نیت سے کھانا اور پینا۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: "ہمارے اور اہل کتاب کے روزہ میں سحری کھانے ہی کا فرق ہے" (صحیح مسلم)
اور فرمایا:
"سحری کھاؤ اس لئے کہ سحری میں برکت ہے"(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
سحری رات کے آخری اوقات تک مؤخر کرنا بہتر ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"میری امت اس وقت تک بھلائی میں رہے گی جب وہ افطار جلدی اور سحری مؤخر کرے گی" (مسند امام احمد)
سحری کا وقت رات کے آخری نصف سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق سے چند منٹ قبل تک باقی رہتا ہے۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیلئے اٹھے، میں نے دریافت کیا اذان اور سحری میں کتنا وقفہ تھا؟ کہا "پچاس آیات کریمہ (کی تلاوت) کی قدر۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تنبیہہ: صبح صادق ہونے میں شک ہو تو کھا پی سکتے ہیں لیکن جب صبح کا یقین ہوجائے تو رک جانا ضروری ہے۔ (جمہور فقہائے کرام کا مذہب یہی ہے، تاہم امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ "طلوع صبح کے شک کے وقت کھانے پر روزہ قضا کرے" اور یہ محض احتیاط کی بنا پر ہے)
اللہ سبحانہ و تعالی کا حکم ہے: ترجمہ: اور (رات کے) سیاہ دھاگے سے (صبح کا) سفید دھاگہ واضح ہوجانے تک کھاؤ اور پیو" (البقرۃ آیت ۱۸۷)
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے کہا:
"میں سحری کھارہا ہوں اور صبح کا شک ہوجائے تو آیا کھانا بند کردوں؟" فرمایا "جب تک شک ہے کھاتا رہ اور جب صبح کا یقین ہوجائے تو پھر رک جا" (مصنف ابن ابی شیبہ)
سحری کے اوقات میں دعا کا اہتمام:
وقتِ سحر، قبولیت دعا کے بہترین اوقات میں سے ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالی آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور ندا دیتا ہے کہ "کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں؟ کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں؟ کوئی سائل ہے کہ میں اس کے سوال کو پورا کروں؟" یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے" (صحیح مسلم)
روزے کے مکروہات:
بعض چیزیں ایسی ہیں جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا، مگر وہ روزہ کیلئے نا پسندیدہ ہیں اور فساد روزہ کا موجب بن سکتی ہیں مثلاً:
۱: وضو کے وقت کلی کرنے اور ناک میں پانی داخل کرنے میں مبالغہ کرنا، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کر سوائے اس حالت کے کہ تم روزے سے ہو" (رواہ اصحاب السنن و ابن خزیمہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناک میں مبالغہ سے پانی ڈالنا اسی خطرہ کی وجہ سے ناپسند کیا ہے کہ کہیں پانی اندر نہ چلاجائے اور روزہ خراب نہ ہوجائے۔
۲: کوئی چیز منہ میں ڈال کر چبانا، اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ اس کے بعض اجزاء حلق سے نیچے اتر جائیں۔
۳: ہنڈیا سے کھانے کو چکھنا
۴: وضو کے علاوہ بلا ضرورت کلی کرنا۔
۵: سینگی کے ذریعہ یا "فصد" کھول کر خون نکالنا، اس لئے کہ اس سے کمزوری ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ معاملہ افطار پر منتج ہوجائے۔
روزہ توڑنے والی چیزیں، جائز اور قابل معافی امور
الف: روزے کو باطل کرنے والی چیزیں:
۱: کوئی مائع چیز ناک کے ذریعہ یا آنکھ اور کان میں قطرے ڈالنے سے، یا کسی اور راہ سے معدہ میں پہنچ جائے، جیسا کہ انجکشن وغیرہ میں ہوسکتا ہے۔
۲: وضو وغیرہ میں کلی یا ناک میں پانی داخل کرتے ہوئے پانی اندر چلا جائے۔
۳: جان بوجھ کر قے کرنا، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے:
"جو عمداً قے کرتا ہے، وہ (روزہ) قضا کرے۔ " (سنن ابی داود و سنن ترمذی)
فقہائے احناف و غیرہم نے اس سے استدلال کیا ہے کہ اگر کسی کو قے آئی اگرچہ منہ بھر کے ہو، تب بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا (جبکہ وہ بلا اختیار و ارادہ ہو) تاہم اگر اس نے قصداً قے کی، یا قصداً لوٹایا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
۴: جبر کی صورت میں کھانا، پینا اور جماع کرنا۔
۵: کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز کا منہ کے ذریعہ سے پیٹ میں چلے جانا، جیسا کہ موتی یا دھاگہ وغیرہ نگل لینا، اس لئے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں
" روزے کا تعلق اندر جانے والی چیز کے ساتھ ہے نہ کہ باہر نکلنے والی چیز کے ساتھ" (مصنف ابن ابی شیبہ)
اس قول میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مقصد یہ ہے کہ پیٹ میں کوئی چیز چلی جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن کسی چیز کے (از خود) خارج ہونے سے نہیں جیسا کہ خون یا قے وغیرہ۔
۶: اسلام سے ارتداد اور پھر دوبارہ اسلام میں آجانے سے۔ اس لئے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے: "اگر تو نے شرک کیا تو تیرے عمل ضائع ہوجائیں گے اور تو نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائے گا۔ (الزمر آیت ۶۵)
مذکورہ بالا امور سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس دن کی قضا لازم ہوگی جس میں روزہ فاسد ہوا تھا، مگر ان میں کفارہ نہیں ہے۔
روزے کا کفارہ کب واجب ہوتا ہے؟
۱ جبر کے بغیر عمداً مجامعت کرنا، اس لئے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
"ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا "یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! میں ہلاک ہوگیا" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "کس چیز نے تجھے ہلاک کردیا؟" اس نے کہا "رمضان المبارک میں میں نے اپنی عورت سے جماع کرلیا ہے" فرمایا "کیا ایک غلام موجود ہے جسے آزاد کرسکو؟" اس شخص نے کہا "نہیں" فرمایا "دو ماہ لگاتار روزے رکھ سکتے ہو؟" کہا "نہیں" فرمایا "کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟" عرض کی "نہیں" اور پھر وہ بیٹھ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کی ایک زنبیل لائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس شخص سے) فرمایا "یہ لے جاؤ اور اسے خیرات کردو"، وہ شخص کہنے لگا "کس کو خیرات کروں، اللہ کی قسم، اس علاقہ میں میرے اہل بیت سے زیادہ کوئی محتاج نہیں۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور فرمایا: "اسے لے جاؤ اور اپنے گھر والوں کو کھلاؤ"
۲: بلا عذر کھانا یا پینا، یہ امام ابو حنیفہ و امام مالک رحمہم اللہ کے نزدیک کفارے کا موجب ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک شخص نے رمضان میں افطار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کفارے کا حکم دیا۔ (موطا امام مالک)
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ "ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا میں نے جان بوجھ کر روزہ افطار کرلیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غلام آزاد کرنے، یا دو ماہ لگاتار روزے رکھنے، یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
روزہ دار کیلئے مباح امور:
۱:روزہ دار دن میں جب چاہے مسواک کرسکتا ہے۔ البتہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ زوال کے بعد مسواک کرنے کو درست نہیں سمجھتے تھے۔
۲: گرمی کی شدت میں ٹھنڈا پانی استعمال کرنا، چاہے جسم پر ڈالے یا اس میں غوطہ لگائے۔ کوئی حرج نہیں۔
۳: رات کے وقت صبح صادق سے پہلے کھانا، پینا اور جماع کرنا۔
۴: کسی جائز ضرورت کیلئے سفر کرنا، چاہے اس کے نتیجے میں روزہ افطار کرنا پڑے۔
5: چھوٹا بچہ جو کھانا نہیں چبا سکتا اور اسے اس کی ضرورت ہے، اگر کوئی روزہ دار کھانا چبا کر اس کے منہ میں ڈالے تو مباح ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ چبانے والے روزہ دار کے معدہ میں کوئی چیز نہ چلی جائے۔
۶: خوشبو لگانا یا خوشبودار دھواں لینا بھی مباح ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارہ میں کوئی ممانعت وارد نہیں۔
مسافر کا روزہ
مسلمان جب اڑتالیس میل (مسافت قصر) کے سفر کا ارادہ کرے تو شارع علیہ السلام نے اسے اجازت دی ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور جب گھر واپس آئے ترو پھر قضا کرلے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ترجمہ: سو جو تم میں بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرلے۔ (البقرہ آیت ۱۸۴)
اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سفر کار اور بس کا ہے، ٹرین کا ہے یا طیارے کا ہے اور پہنچنے میں دن یا ہفتے لگتے ہیں یا پھر گھنٹے۔ بس اڑتالیس میل سے زائد مسافت کا ہونا شرط ہے۔ ہاں اگر سفر میں روزہ رکھنے میں مسافر کو مشقت نہیں ہوتی اور وہ روزہ رکھ لے تو اچھا ہے اور اگر روزہ میں دوران سفر تکلیف ہو تو افطار بہتر ہے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جنگ کیلئے جاتے تھے، رمضان المبارک میں ہم میں سے بعض روزہ رکھتے اور بعض نہ رکھتے، کوئی کسی پر معترض نہیں ہوتا تھا۔ البتہ یہ بات پیش نظر رہتی تھی کہ جو روزہ آسانی سے رکھ سکتا ہے وہ روزہ رکھے اور جو کمزور ہے وہ افطار کرے، یہ بہتر ہے۔ " (صحیح مسلم)
خلاصہ کلام یہ کہ اگر سہولت ہو تو روزہ رکھے، بصورت دیگر نہ رکھنا بہتر ہے اور فقہائے کرام نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی شخص باوجود تکالیف و مشقت کے سفر میں روزہ رکھے تو گناہ گار ہوگا، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
لیس من البر الصیام فی السفر
ترجمہ: سفر میں روزہ رکھنا نیکی میں سے نہیں۔ (مسند امام أحمد ، بخاري، مسلم ، أبو داود، النسائي ، ابن ماجه، الدارمي، ابن أبي شيبة ، ابن حبان ، ابن الجارود ، البيهقي.)
بیمار کا روزہ:
رمضان المبارک میں مسلمان بیمار ہوجائے تو وہ شدید مشقت برداشت کئے بغیر اگر روزہ رکھ سکتا ہے تو روزہ رکھے، ورنہ افطار کرے، پھر اگر اس کو بیماری سے تندرست ہونے کی توقع ہے تو ان ایام کے روزوں کی قضا کرے اور اگر تندرست ہونے کی امید نہیں ہے کہ مرض دائمی ہے تو ہر روز ایک مد طعام کسی مستحق کو کھلائے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ترجمہ:
"اور اس کی (مشقت کے ساتھ) طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کا کھانا دیں۔" (البقرہ آیت ۱۸۴)
د۔ بوڑھے کے روزے کا حکم
مسلمان مرد یا عورت اگر بڑھاپے کی اس حد کو پہنچ جائیں کہ روزہ نہ رکھ سکیں تو ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔
"بہت بوڑھے کیلئے اجازت ہے کہ وہ ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلائے اور اس پر قضا نہیں ہے" (سنن دارقطنی و مستدرک حاکم اور انہوں نے اسے صحیح کہا ہے)
ہ۔ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے روزے کا حکم:
مسلمان عورت اگر حاملہ ہے اور روزہ رکھنے کی صورت میں اسے یا حمل کیلئے کوئی خطرہ ہے تو افطار کرے اور عذر زائل ہونے کے بعد قضا کرے۔ اگر یہ عورت دولت مند ہے تو روزانہ ایک مد گندم بھی خیرات کرے، تاکہ اس کیلئے زیادہ ثواب کا باعث بنے اور اسے فضیلت حاصل ہو۔ یہی حکم دودھ پلانے والی عورت کا ہے کہ اگر اسے یا اس کی اولاد کو خطرہ ہے تو وہ روزہ نہ رکھے جبکہ اسے اور کوئی عورت دودھ پلانے کیلئے نہیں ملتی ۔ فقہائے کرام نے اس حکم کا استنباط قرآن کریم کی اس آیت سے کیا ہے:
ترجمہ: "اور اس کی مشقت کے ساتھ طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کا کھانا دیں" (البقرہ آیت ۱۸۴)
(یطیقونہ) کا اصل لغت میں مفہوم یہ ہے کہ وہ روزہ رکھنے میں شدید مشقت پائیں۔ اگر ایسے لوگ افطار کریں تو قضا کریں گے، یا ایک مسکین کو طعام دیں گے۔ تنبیہہ: اگر کوئی شخص بلا عذر اگلے رمضان کے داخل ہونے تک فوت شدہ روزوں کی قضا نہیں دے سکا تو اس پر لازم ہے کہ وہ بطور قضا ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔
۲۔ اگر کوئی مسلمان فوت ہوجائے اور اس کے ذمہ روزے باقی ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارکہ ہے:
"جو فوت ہوجائے اور اس پر روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اورایک شخص نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا "میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اس پر ایک ماہ کے روزے باقی تھے، کیا میں اس کی طرف سے قضا کروں؟"، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "ہاں، اللہ کا قرض زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کو ادا کیا جائے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین و غیرہم من الصالحین کے رمضان المبارک اور غیر رمضان میں معمولات کی ایک جھلک:
خلیفۂ ثانی، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ رات میں نماز پڑھا کرتے، پھر جب نصف شب ہوجاتی تو اہل بیت کو بیدار کرتے اور فرماتے: "نماز، نماز" اور یہ آیت پڑھتے:
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
ترجمہ: اور اپنے گھر والوں کو نماز کی تاکید کیجئے اور خود بھی اس پر جمے رہیں، ہم تجھے سے روزی نہیں مانگتے بلکہ ہم خود تجھے روزی دیتے ہیں، آخر میں پرہیز گاری کا ہی بول بالا ہے" (سورہ طہ آیت ۱۳۲)
علقمہ بن قیس بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک رات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ٹھہرے، تو دیکھا کہ وہ ابتدائی شب میں (نماز کیلئے) کھڑے ہوئے اور اس ترتیل سے قراءت کرتے تھے جیسے مسجد میں امام نماز پڑھاتے ہوئے ترتیل سے قراءت کرتا ہے، پھر صبح کے قریب وتر پڑھا کرتے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا معمول تھا کہ یتامی و مساکین کے ساتھ روزہ افطار فرماتے تھے۔
عبداللہ بن مبارک اور حسن بصری رحمہم اللہ کا معمول تھا کہ روزہ داروں کو افطار کراتے، ساتھ بیٹھتے اور خاطر مدارات کرتے تھے۔ اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے:
"جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا، اس کیلئے اس (روزہ دار) کے برابر اجر ہے اور روزہ دار کے اجر میں کچھ کمی نہیں ہوتی۔" (مسند احمد والنسائی، صححہ الالبانی۔رحمہم اللہ)
خلیفۂ ثالث، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ روزانہ قرآن مجید کا ختم کرتے اور سلف صالحین میں سے بعض قرآن مجید تین روز میں ختم کرتے، بعض ہفتہ میں اور بعض کا معمول دس دن میں ایک بار مکمل قرآن مجید پڑھنے کا تھا۔ اور یہ تلاوت نماز اور غیر نماز میں ہوتی تھی۔
حضرت امام شافعی رحمت اللہ علیہ کا معمول تھا کہ رمضان المبارک میں ساٹھ مرتبہ قرآن مجید ختم کرتے، قتادہ رحمہ اللہ کا دائمی معمول سات یوم میں ختم کرنے کا تھا، جبکہ رمضان المبارک میں ہر تین روز میں ایک، اور آخری دس راتوں میں ہر رات ایک مرتبہ قرآن مجید کا ختم کرتے تھے۔ امام زہری رحمت اللہ علیہ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی اہل علم کی مجالس ترک کردیتے اور تلاوت قرآن کریم میں مشغول رہتے۔ امام سفیان الثوری رحمت اللہ علیہ بھی رمضان المبارک میں دیگر تمام معمولات ترک کرکے تلاوت کلام الہیہ میں مشغول رہتے۔
یہاں ایک اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تین دن سے کم میں ختم قرآن کریم کی نہی وارد ہے، تو اس بارے میں حافظ ابن رجب رحمت اللہ علیہ کہتے ہیں کہ "قرآن کریم تین دن میں ختم کرنے سے منع اس صورت میں کیا گیا ہے جب اسے معمول بنالیا جائے، تاہم افضل اوقات اور افضل مقامات میں مثلاً رمضان المبارک میں، یا مکہ مکرمہ عمرہ و حج کی نیت سے جانے والے غیر مقیمین کیلئے مستحب ہے کہ وہ کثرت سے تلاوت کریں، اس نیت سے کہ فضیلتِ زمان و مکان سے مکمل طور پر استفادہ کرسکیں۔" اور یہی قول امام احمد و اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی ہے۔
"لیلۃ القدر" کا بیان
ایک ہزار مہینوں سے افضل رات، شب قدر کا وجود، اس کے فضائل اور اس کا رمضان المبارک میں ہونا یہ چیزیں نصوص قرآنی اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں۔ شب قدر کی فضیلت کے اثبات کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے متعلق قرآن مجید کی ایک مکمل سورت نازل کی گئی ہے۔ جبکہ احادیث مبارکہ میں بھی اس کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں جیسا کہ آگے اس کا کچھ بیان ہوگا، ساتھ ساتھ اس رات کو تلاش کرنے کی تاکید اور اس میں عبادت کی ترغیب بھی احادیث مبارکہ میں بکثرت وارد ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)
ترجمہ: ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا۔ آپ کیا سمجھے کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں (ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل علیہ السلام) اترتے ہیں۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔ (سورۃ القدر)
سورۂ مبارکہ کی تفسیر میں واحدی نے اپنی سند کے ساتھ امام مجاہد رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل میں سےایک شخص کا ذکر فرمایا کہ جس نے ایک ہزار مہینے تک اللہ کی راہ میں جہاد کیا تھا۔ اس کو سن کر مسلمانوں کو بے حد تعجب ہوا۔ اس پر یہ سورت مبارکہ نازل ہوئی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ پہلے زمانے میں شمسون نامی ایک نبی تھے جو ایک ہزار ماہ تک اللہ کے دین کیلئے جہاد فرماتے رہے اور اس تمام مدت میں انہوں نے اپنے ہتھیار جسم سے نہیں اتارے۔ یہ سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اس طویل عمر کیلئے تمنا ظاہر کی تاکہ وہ بھی اسی طرح خدمت اسلام کریں۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ تم کو صرف ایک رات ایسی دی گئی جو عبادت کیلئے ایک ہزار ماہ سے بہتر و افضل ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :"قدر سے کیا مراد ہے، اس بارے میں اختلاف ہے، پس کہا گیا ہے کہ قدر سے تعظیم مراد ہے جیسا کہ آیت قرآنی میں ہے (اشارہ اس آیت کی جانب ہے "وما قدرو اللہ حق قدرہ" یعنی "ان کافروں نے پورے طور پر اللہ کی عظمت کو نہیں پہچانا") آیت مبارکہ میں جس طرح قدر سے تعظیم مراد ہے، یہاں بھی اس رات کیلئے تعظیم مراد ہے اس لئے کہ یہ رات وہ ہے جس میں قرآن کریم کا نزول شروع ہوا۔
علماء (کی ایک جماعت) کا قول یہ بھی ہے کہ اس کا نام لیلۃ القدر اس لئے رکھا گیا کہ اس میں اللہ کے حکم سے فرشتے آنے والے سال کی تمام تقدیریں لکھتے ہیں۔ " (فتح الباری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ فرمایا: "جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ لیلۃ القدر کا قیام کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں" (بخاری و مسلم)
بعض علماء نے تشریح کی ہے کہ "ایمان کے ساتھ" یعنی اللہ پر ایمان اور جس اجر کا وعدہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اس رات کے عبادت گزاروں کیلئے کیا ہے، اس پر یقین کے ساتھ۔ "احتساب" کے ساتھ یعنی طلب ثواب کی نیت کے ساتھ۔
امام مالک رحمت اللہ علیہ نے مؤطا میں روایت کی ہے :
"مجھے پہنچا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی عمریں کم ہونے کا احساس ہوا جبکہ پہلی امتوں کی عمریں بہت طویل ہوا کرتی تھیں۔ پس اللہ تعالی نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو لیلۃ القدر عطا فرمائی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو تسلی دینا مقصود تھا جن کی عمریں بہت چھوٹی ہیں اور یہ رات ایک ہزار مہینے سے بہتر ان کو دی گئی۔ شب قدر کی تاریخ کا تعینام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شب قدر کو رمضان کےآخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو" (صحیح بخاری)
صحیح بخاری ہی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ (یعنی ۲۱ یا ۲۳ یا ۲۵ ویں شب میں تلاش کرو)
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرہ میں ایک ترکی خیمہ میں کہ جس کے دروازے پر چٹائی لٹکی ہوئی تھی، اعتکاف کیا۔ (تیسرے عشرے کے شروع میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے چٹائی کو پکڑ کر خیمے کے ایک کونے میں کر دیا اور اپنا سر باہر نکال کر لوگوں سے مخاطب ہوئے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے رات (لیلة القدر) کی تلاش میں پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا، پھر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، پھر میرے پاس کوئی (فرشتہ) آیا اور میری طرف یہ وحی کی گئی کہ (لیلة القدر کی) یہ رات آخری عشرہ میں ہے۔ تم میں سے جو شخص اعتکاف کرناچاہے تو وہ اعتکاف کرے۔ چنانچہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ اعتکاف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دکھایا گیا کہ وہ طاق راتوں میں ہے اور میں اس کی صبح کو پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر جب اکیسویں شب کی صبح ہوئی اور اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک نماز پڑھتے رہے۔ اور بارش ہوئی تو مسجد ٹپکی اور میں نے مٹی اور پانی کو دیکھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک کی چوٹی پر مٹی اور پانی کا نشان تھا اور وہ اکیسویں رات تھی۔ (صحیح مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب کو (خواب میں) شب قدر (رمضان کی) آخری سات راتوں میں دکھائی گئی تھی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہوگئے ہیں اس لئے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری (طاق) راتوں میں تلاش کرے۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈو، پھر اگر کوئی کمزوری دکھائے یا عاجز ہو جائے تو آخر کی سات راتوں میں سست نہ ہو۔ (صحیح مسلم)
سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے شب قدر دکھائی گئی تھی پھر بھلا دی گئی۔ اور میں نے (خواب میں) دیکھا کہ اس رات کی صبح کو میں پانی اور کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ راوی نے کہا کہ ہم پر تئیسویں شب کو بارش برسی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر پھرے (یعنی صبح کی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک پر پانی اور کیچڑ کا اثر تھا۔ اور سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ تئیسویں رات کو شب ِ قدر کہا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم)
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیلة القدر کا علم دیئے جانے سے قبل اسے ڈھونڈھتے تھے۔ جب درمیانی عشرہ گزر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ کھولنے کا حکم دیا تو وہ کھول دیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بذریعہ وحی) یہ بتا دیا گیا کہ یہ آخری عشرہ میں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ لگانے کا حکم کیا تو دوبارہ لگا دیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے پاس آئے تو فرمایا: اے لوگو! مجھے لیلة القدر کا علم دے دیا گیا تھا اورمیں تمہیں بتانے کیلئے نکلا تھا کہ دو آدمی لڑتے ہوئے آئے جن کیساتھ شیطان بھی تھا، تو (اس کی تعیین) مجھے بھلا دی گئی۔ اب تم اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو(آخری عشرے کی) نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔ (صحیح مسلم)
سیدنا زِرّ بن حبیش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تمہارے بھائی عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ جو سال بھر تک جاگے گا، اس کو شب ِ قدر ملے گی تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے، یہ کہنے سے ان کی غرض یہ تھی کہ لوگ ایک ہی رات پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں (بلکہ ہمیشہ عبادت میں مشغول رہیں) ورنہ وہ خوب جانتے تھے کہ وہ رمضان میں، آخری عشرہ میں ہے اور وہ ستائیسویں رات ہے۔ پھر انہوں نے بغیر ان شاء اللہ کہے قسم اٹھا کر کہا کہ کہ وہ ستائیسویں رات ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابو منذر! تم یہ دعویٰ کس بنا پر کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ایک نشانی یا علامت کی وجہ سے جس کی خبر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، وہ یہ کہ اس کی صبح کو آفتاب جو نکلتا ہے تو اس میں شعاع نہیں ہوتی (مگر یہ علامت اس رات کے ختم ہونے کے بعد ظاہر ہوتی ہے)۔ (صحیح مسلم)
خلاصۂ تحقیق: اس رات کی حتمی تعین کے بارے میں علمائے کرام کے بہت سے اقوال ہیں جن کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور ان کی تعداد 46تک جا پہنچتی ہے۔ آخر میں اپنی رائے دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ :"ان سب میں ترجیح اس قول کو حاصل ہے کہ یہ مبارک رات رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کسی رات میں ہوتی ہے۔ اور یہ کسی ایک رات میں نہیں بلکہ ہر سال (ان آخری پانچ طاق راتوں میں ایک سے دوسری رات میں) منتقل ہوتی رہتی ہے۔ ویسے جمہور علمائے کرام نے ستائیسویں رات کو زیادہ ترجیح دی ہے جبکہ فقہائے شافعیہ نے اکیسویں رات کو، تاہم صحیح تر یہ ہے کہ لیلۃ القدر کیلئے کوئی خاص تاریخ متعین نہیں کی جاسکتی۔ علماء نے کہا کہ اس رات کے مخفی ہونے میں یہ حکمت ہے کہ اس کی تلاش کیلئے کوشش کی جائے اور (خصوصیت کے ساتھ) رمضان المبارک کی تمام آخری راتوں میں عبادت کی جائے کیونکہ اگر اس کا تعین کردیا جاتا تو پھر باقی راتوں میں عبادت کی رغبت نہ رہتی اور اسی رات پر اکتفا کرلیا جاتا" (فتح الباری)
ان راتوں میں عبادت میں سخت محنت کرنی چاہئے اور نوافل و تلاوت، ذکر الہی و درود پڑھنے، توبہ و استغفار اور دعا میں خلوص دل سے مشغول رہنا چاہئے۔ اگر تمام رات جاگنے کی استطاعت نہ ہو تو جتنا ہوسکے جاگے۔ اگر خدانخواستہ یہ بھی نہ ہوسکے تو عشاء اور فجر کی نماز باجماعت پڑھنے کا اہتمام کرے، کیونکہ حدیث میں وارد ہے کہ ایسا کرنے پر بھی تمام رات کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے۔
تنبیہہ: ان راتوں کو مختلف قسم کی ہنگامہ آرائیوں، مثلاً جلسوں، اور دیگر محفلوں میں صرف کرنا حد درجہ بدبختی و محرومی کی علامت ہے۔ یہ رات سال میں صرف ایک مرتبہ آتی ہے اور (علاوہ فرائض و تراویح کے) تمام تر عبادات انفرادی طور پر افضل و بہتر ہیں۔بعض جگہ دیکھا جاتا ہے کہ شب قدر کے حوالے سے اشتہارات اور دیگر ذرائع سے کچھ مخصوص عبادات لکھی جاتی ہیں جو بے بنیاد ہیں، شریعت مطہرہ میں اس رات کی کوئی مخصوص عبادت، (سوائے اس دعا کے جو آگے بیان ہوگی ان شاء اللہ) مقرر نہیں ہے۔ لہذا جس سے جس قدر ہوسکے اعمال صالحہ کرے مگر بدعات و رسومات سے اجتناب کرے۔ المدخل، کتاب الاعتصام میں ہے کہ اہل بدعت کی نہ دعا قبول کی جاتی ہے اور نہ عبادت۔
شب قدر میں کیا دعا مانگی جائے؟
شب قدر کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص یہ دعا بتلائی ہے:
اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی
ترجمہ: اے اللہ! آپ معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں پس میری خطائیں معاف کردیں۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات، ابن ماجہ کتاب الدعاء)
اس لئے چاہئے کہ رمضان المبارک کی آخری طاق راتوں میں بکثرت اس دعا کو ورد زبان رکھا جائے۔
آخری عشرہ میں عبادت میں زیادہ محنت کرنا سنت ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تہبند مضبوط باندھتے (یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے) اور ان راتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔ (بخاری)
تشریح: کمر کس لینے کا مطلب یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عشرہ میں عبادت الہی کیلئے خاص محنت کرتے، خود جاگتے گھر والوں کو جگاتے اور رات بھر عبادت الہی میں مشغول رہتے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل تعلیم امت کیلئے تھا۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا:
ترجمہ: بیشک اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے لئے بہترین نمونہ ہیں۔ (الاحزاب ۲۱)
یوں تو ہمیشہ ہی عبادت الہی کرنا مسلمان پر لازم ہے تاہم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اس کی بہت تاکید بھی ہے، پھر لیلۃ القدر بھی اسی عشرہ کی کسی رات میں ہے، لہذا ان ایام میں جس قدر بھی عبادت کی جائے کم ہے۔
رمضان المبارک میں عبادات میں کوتاہی و غفلت پر وارد وعیدیں:
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر کی سیڑھیاں چڑھے اورانہوں نے آمین ، آمین ، آمین کہا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گيا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے پہلے تو ایسا کبھی نہیں کہا، اب یہ کلمات ادا کرنے کی کیا وجہ ہے؟تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے جبریل علیہ السلام نے کہا : وہ شخص ذلیل وخوارہو (یا) اس کے لیے دوری ہو جس نے رمضان المبارک آنے کے باوجود بھی اپنے گناہ معاف نہ کروائے ، تو میں نے کہا آمین ۔ پھر جبریل علیہ السلام نے کہا : وہ ذلیل وخوار ہو (یا) اس کے لیے دوری ہو جس نے اپنے والدین یا ان میں سےکسی ایک کو زندہ پایا اور وہ ( ان کی خدمت کرکے ) جنت میں داخل نہ ہوا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں میں نے کہا آمین ۔ پھر جبریل علیہ السلام کہنے لگے : وہ شخص ذلیل ورسوا ہو (یا) اس کے لیے دوری ہو جس کے پاس آپ کا نام لیا جائے اوروہ آپ پر درود نہ پڑھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں میں نے کہا آمین ۔ (ابن خزیمہ ، سنن ترمذی ، مسند احمد، صحیح ابن حبان ، صحیح الجامع) ۔
ایک اور روایت میں منقول ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میں نے اپنی امت کے ایک آدمی کو (خواب میں دیکھا) کہ وہ پیاس سے ہانپ رہا تھا، جب بھی وہ حوض پر وارد ہوتا، اسے روک دیا جاتا، (یہ وہ شخص ہے کہ ) جب اس کے پاس رمضان کا روزہ آیا تو اس نے اس کو پانی دیا اور سیر کردیا۔ (یعنی روزہ نہ رکھا) " ۔ (معجم طبرانی کی ایک طویل حدیث میں سے)
اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں اس رمضان المبارک، اور باقیماندہ زندگی کے ہر ہر لمحے کی قدر کرنے، اور اسے احکامات شرعیہ کی روشنی میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔
صدقہ فطر کا بیان:
رمضان المبارک کے اختتام پر بطور خوشی اور شکریہ کے اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے بندوں پر ایک صدقہ مقرر فرمایا ہے جسے صدقہ فطر کہتے ہیں۔
صدقہ فطر کی ادائیگی ہر مسلمان پر واجب ہے جبکہ وہ بقدر نصاب مال کا مالک بن جائے۔ صدقہ فطر کے مال نصاب پر سال بھر گذرنا بھی شرط نہیں بلکہ اگر اسی روز صاحب نصاب ہوا ہو تو بھی صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے۔
ہر شخص پر اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب ہے لیکن اگر نابالغوں کا اپنا مال موجود ہو تو ان کے مال میں سے ادا کرے۔
صدقہ فطر کی ادائیگی عید کی نماز سے قبل کرنا بہتر ہے، نماز کے بعد ادا کرے تو بھی جائز ہے لیکن بہتر نہیں بلکہ مکروہ ہے۔
صدقہ فطر واجب ہے لہذا ادا کرنا ہی ہے جب تک ادا نہیں کیا ذمہ پر قرض رہےگا۔
صدقہ فطر میں ہر قسم کا غلہ اور قیمت دینا جائز ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر گیہوں یا اس کا آٹا دے تو فی کس پونے دو سیر دینا چاہئے۔ یا اسی کے برابر رقم بھی دی جاسکتی ہے۔
صدقہ فطر عید سے پہلے بھی دیا جاسکتا ہے اور بعض علماء کے نزدیک اگر محتاجوں کی ضرورت کے پیش نظر ہو تو عید سے پہلے دینا افضل ہے تاکہ وہ اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔
مراجع و مصادر:
(کتب تفاسیر و احادیث کے علاوہ)
زاد المعاد فی ہدی خیر العباد۔۔۔۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ
منہاج المسلم ۔۔۔۔ الشیخ ابوبکر جابر الجزائری
حسن المسائل والفضائل۔۔۔ الشیخ مفتی زرولی خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ اعلم، و صلی اللہ وسلم و بارک علی نبینا محمد
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں