Quote:لیکن میرے ذہن میں ایک سوال بار بار اٹھتا ہے۔ کیا واقعی کسی کو قتل کر دینے سے مسئلے کا حل نکل آتا ہے۔ میرے خیال سے تو اس طرح زیادہ فساد کا اندیشہ ہے۔ بجائے اس طرح کے کاموں میں ملوث ہونے کے، اگر ہم سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خود عمل پیرا ہو کر لوگوں کو دکھائیں کہ یہ ہوتا ہے ایک سچا مسلمان تو شاید حالات بہتر ہو جائیں۔ میرا علم شاید مجھے اسی حد تک سوچنے کی اجازت دیتا ہے آگے اللہ اور اس کے رسول ص بہتر جانتے ہیں
اس کے جواب میں پہلی بات جو سمجھنے کے قابل ہے، وہ یہ کہ اسلام کا کوئی بھی حُکم، حکمت سے خالی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض مرتبہ ہم یہ حکمت سمجھ نہیں پاتے اور یہ کوئی ایسی اچنبھے کی بات بھی نہیں، کیونکہ جہاں انسانی عقل کا دائرہ ختم ہوتا ہے، وہیں سے وحی الٰہی شروع ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: "اور اے عقل رکھنے والو! تمہارے لئے قصاص میں زندگی (کا سامان) ہے۔ اُمید ہے کہ تم (اس کی خلاف ورزی سے) بچو گے۔"
(البقرۃ:179)
یہاں قصاص (جان کے بدلے جان لینے) کو زندگی کا نام دیا جارہا ہے، حالانکہ بظاہر دیکھا جائے تو ایک جان تو گئی، اب اُس کے بدلے میں دوسری جان کیوں لی جائے؟ تاکہ یہ سلسلہ آگے نہ بڑھے اور جب لوگ دیکھیں کہ قاتل کو قصاص میں قتل کیا جارہا ہے تو کسی کی جان لینے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔ یہی حکمت دیگر شرعی حدود مثلاً چوری پر ہاتھ کاٹنے، زنا پر درے مارنے یا پھر سنگسار کرنے وغیرہ جیسی سزاؤں کے نفاذ میں بھی ہے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب تک اسلامی قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا رہا، جرائم کی شرح دیگر علاقوں کے مقابلے میں انتہائی کم رہی۔ قریب ترین مثال طالبان دور کی رہی ہے اور اس سے قطع نظر کہ اُن کے تمام اقدامات درست تھے یا نہیں، جب انہوں نے شرعی حدود کو نافذ کیا تو وہ افغانستان جو بدامنی میں دنیا بھر میں تقریباً سرفہرست تھا، اُس میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہوگئی۔ اور دیکھ لیجیے کہ اس وقت امن کے عالمی علمبردار امریکہ سمیت کئی طاقتور ممالک کی افواج کی موجودگی کے باوجود وہاں بدامنی عروج پر ہے۔ یہ کیا تھا؟؟ شرعی حدود کے نفاذ کی برکت اور اُس کے نتیجے میں پر امن معاشرے کا قیام۔ معاشرے کی مثال جسم اور جُرم کی مرض سے لیجیے۔ عاقل انسان اپنے صحت مند جسم میں کبھی چُھرا نہ گھونپے گا اور نہ کسی کو اِس کی اجازت دے گا۔ مگر مرض کے خاتمے کیلئے اُسے اپنے طبیب کو اپنے جسم کی چیر پھاڑ کی اجازت دینی پڑجاتی ہے کیونکہ یہی چیز اُس کی اپنی بقاء کی بھی ضامن ہوتی ہے۔
یہ تو عمومی طور پر قصاص کے بارے میں باتیں ہوئیں، توہینِ رسالت پر کسی کے قتل میں کیا حکمت ہے؟ میں پچھلے مضمون میں شیخ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب "الصارم المسلول" کے حوالے سے لکھ چکا ہوں کہ وہ فرماتے ہیں:
ترجمہ: "اور اے عقل رکھنے والو! تمہارے لئے قصاص میں زندگی (کا سامان) ہے۔ اُمید ہے کہ تم (اس کی خلاف ورزی سے) بچو گے۔"
(البقرۃ:179)
یہاں قصاص (جان کے بدلے جان لینے) کو زندگی کا نام دیا جارہا ہے، حالانکہ بظاہر دیکھا جائے تو ایک جان تو گئی، اب اُس کے بدلے میں دوسری جان کیوں لی جائے؟ تاکہ یہ سلسلہ آگے نہ بڑھے اور جب لوگ دیکھیں کہ قاتل کو قصاص میں قتل کیا جارہا ہے تو کسی کی جان لینے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔ یہی حکمت دیگر شرعی حدود مثلاً چوری پر ہاتھ کاٹنے، زنا پر درے مارنے یا پھر سنگسار کرنے وغیرہ جیسی سزاؤں کے نفاذ میں بھی ہے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب تک اسلامی قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا رہا، جرائم کی شرح دیگر علاقوں کے مقابلے میں انتہائی کم رہی۔ قریب ترین مثال طالبان دور کی رہی ہے اور اس سے قطع نظر کہ اُن کے تمام اقدامات درست تھے یا نہیں، جب انہوں نے شرعی حدود کو نافذ کیا تو وہ افغانستان جو بدامنی میں دنیا بھر میں تقریباً سرفہرست تھا، اُس میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہوگئی۔ اور دیکھ لیجیے کہ اس وقت امن کے عالمی علمبردار امریکہ سمیت کئی طاقتور ممالک کی افواج کی موجودگی کے باوجود وہاں بدامنی عروج پر ہے۔ یہ کیا تھا؟؟ شرعی حدود کے نفاذ کی برکت اور اُس کے نتیجے میں پر امن معاشرے کا قیام۔ معاشرے کی مثال جسم اور جُرم کی مرض سے لیجیے۔ عاقل انسان اپنے صحت مند جسم میں کبھی چُھرا نہ گھونپے گا اور نہ کسی کو اِس کی اجازت دے گا۔ مگر مرض کے خاتمے کیلئے اُسے اپنے طبیب کو اپنے جسم کی چیر پھاڑ کی اجازت دینی پڑجاتی ہے کیونکہ یہی چیز اُس کی اپنی بقاء کی بھی ضامن ہوتی ہے۔
یہ تو عمومی طور پر قصاص کے بارے میں باتیں ہوئیں، توہینِ رسالت پر کسی کے قتل میں کیا حکمت ہے؟ میں پچھلے مضمون میں شیخ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب "الصارم المسلول" کے حوالے سے لکھ چکا ہوں کہ وہ فرماتے ہیں:
Quote:
"اس میں شبہ نہیں کہ جو ذمی (مسلمان ملک میں معاہدہ کے تحت رہنے والا غیر مسلم، ان کے احکامات میں بہت نرمی کے باوجود دیکھیے کہ مؤلف کیا کہتے ہیں) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سبّ و شتم کرتا ہے تو وہ اہلِ ایمان کو ناراض کرتا ہے اور انہیں ایسا دکھ پہنچاتا ہے جو ان کا خون بہانے اور ان کا مال لینے سے بھی زیادہ المناک ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں دل میں غصہ اور حمیت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور اس سے بڑا غیظ و غضب مومن کے دل میں اور کسی چیز سے نہیں بھڑکتا بلکہ صراط مستقیم پر چلنے والا مومن صرف اللہ کیلئے ہی اس قدر غضبناک ہوسکتا ہے۔ شارع چاہتا ہے کہ اہلِ ایمان کے سینہ کو شفا حاصل ہو اور اس کا غم و غصہ دور ہوجائے اور یہ مقصد صرف گالی دینے والے کو قتل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں:
پہلی وجہ: اگر کافر کسی مسلم کو گالی دے تو اس کی تعزیر و تادیب سے مسلمان کا غصہ دور ہوجاتا ہے۔ جبکہ اگر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے اور اس کی تعزیر و تادیب سے مسلمان کا غصہ رفع ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے سے اتنا ہی غصہ آیا جو ایک مومن کو گالی دینے سے آتا ہے۔ اور یہ باطل ہے۔
دوسری وجہ: کافر کو گالی دی جائے تو اسے اس قدر غصہ آتا ہے کہ اگر کوئی اس کا مال لے تو اسے اتنا غصہ نہیں آئے گا۔ اگر کوئی مسلمان کسی کافر کو قتل کردے تو ان کا غصہ تبھی دور ہوگا اگر قاتل کو قتل کیا جائے، اسی طرح ایک مسلم کا غصہ تبھی دور ہوگا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کو قتل کیا جائے۔ یہی وجہ اولیٰ و افضل ہے۔"
پہلی وجہ: اگر کافر کسی مسلم کو گالی دے تو اس کی تعزیر و تادیب سے مسلمان کا غصہ دور ہوجاتا ہے۔ جبکہ اگر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے اور اس کی تعزیر و تادیب سے مسلمان کا غصہ رفع ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے سے اتنا ہی غصہ آیا جو ایک مومن کو گالی دینے سے آتا ہے۔ اور یہ باطل ہے۔
دوسری وجہ: کافر کو گالی دی جائے تو اسے اس قدر غصہ آتا ہے کہ اگر کوئی اس کا مال لے تو اسے اتنا غصہ نہیں آئے گا۔ اگر کوئی مسلمان کسی کافر کو قتل کردے تو ان کا غصہ تبھی دور ہوگا اگر قاتل کو قتل کیا جائے، اسی طرح ایک مسلم کا غصہ تبھی دور ہوگا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کو قتل کیا جائے۔ یہی وجہ اولیٰ و افضل ہے۔"
Quote:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینا اللہ تعالیٰ کو ایذا دینے کے برابر ہے
اہلِ ایمان کی ایذا اور اللہ اور رسول کی ایذا میں اللہ تعالیٰ نے تفریق کی:
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا (57) وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (58)
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں، اللہ نے دُنیا اور آخرت میں اُن پر لعنت کی ہے، اور ان کیلئے ایسا عذاب تیار کررکھا ہے جو ذلیل کرکے رکھ دے گا۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اُن کے کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچاتے ہیں، انہوں نے بہتان طرازی اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیا ہے۔
(الاحزاب: 57،58)
ان آیات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پہلے اپنی ذاتِ باری، پھر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یکجا ذکر کرکے انہیں ایذا پہنچانے پر لعنت اور سخت عذاب کا وعدہ کیا ہے جبکہ عام مسلمانوں کو اذیت پہنچانے کو الگ ذکر کیا ہے اور اسے کم درجے میں رکھا ہے۔
اب جبکہ عام مسلمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک برابر قرار نہیں دیا، تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی سزا بھی ایک جیسی نہ ہو۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو مکانت اللہ کے نزدیک ہے اور ہر مومن کے دل میں اُن کیلئے جو محبت ہے، اُس کا یہ تقاضا ہے کہ اُن کی شان میں تنقیص کے مجرم کو سخت سے سخت سزا دی جائے اور ہمارے پاس موت کی سزا سے بڑھ کر کوئی سزا نہیں۔ اگر ہوتی تو میرا اس بات پر ایمان ہے کہ جس طرح ساری امت شاتمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر متفق ہے (جیسا کہ میں یہاں بیان کرچکا ہوں) وہ اس کیلئے دنیا میں ہرممکن بڑی سزا پر بھی متفق ہوتی۔
اور چونکہ یہ ایمان کے کمال اور حبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا ہے، ایک مسلمان جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرتا ہے، اُن کے اُس عالی کردار اور اخلاق کا تصور کرتا ہے جس کی گواہی اللہ نے اپنی کتاب میں دی ہے، اُن تکالیف کا تصور کرتا ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دین ہم تک پہنچانے کیلئے برداشت کیں، وہ جب پڑھتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے حق میں دعا کرتے ہوئے رودیئے، معراج کی رات پچاس نمازوں میں تخفیف کیلئے بارہا بارگاہِ باری تعالیٰ میں درخواست کی، اور یہ کہ وہ قیامت کے دن اپنی اُمت کے گنہگاروں پر شفقت فرماتے ہوئے اُن کی مغفرت کیلئے شفاعت فرمائیں گے، تو اُس کے دل میں محبت کا وہ دریا موجزن ہوجاتا ہے کہ اُسے اپنی جان، مال، والدین، اولاد، بیوی اور ہر چیز سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم محبوب ہوجاتے ہیں۔ جب ایسا ہوجاتا ہے تو حدیث نبوی کے مطابق وہ اپنے ایمان کو کامل کرلیتا ہے۔ اور جب اُس کا ایمان کامل ہوجاتا ہے تو وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں معمولی سے معمولی گستاخی کرنے والے کیلئے بھی موت سے کم سزا پر رضامند نہیں ہوتا۔ تاریخ اس کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
مجھے امید ہے کہ میں اپنی بات کی وضاحت کرسکا ہوں گا۔ واللہ اعلم
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں