دروس رمضان: تیسرا درس: رمضان المبارک، قرآن کریم کا مہینہ




بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہُ و بعد ۔۔۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رمضان المبارک کو نزول قرآن کا مہینہ ہونے کا شرف بخشا ہے۔ اس مبارک مہینے میں اللہ نے اپنی آخری کتاب اپنے آخری رسول و پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی۔ ہمارے لئے بھی حصولِ عزت و شرف کا تمسکِ قرآن کریم کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وہ مضبوط رسی ہے جسے پکڑ کر ہم دنیا و آخرت کی سعادت پا سکتے ہیں اور ایک بار پھر دنیا کی امامت کے مرتبے پر فائز ہوسکتے ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے سلفِ صالحین فائز ہوئے اور کامیابیوں اور عزت و عظمت نے ان کے قدم چومے۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ وہ قرآن کریم اور سنتِ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا مقتدا و راہنما بنائے ہوئے تھے اور ان کی زندگی کا ہر ہر قدم اس نور کی روشنی میں ہی اٹھا کرتا تھا۔


آئندہ سطور میں مختصراً اس ماہ مبارک اور قرآن کریم میں نسبت بیان کی جائے گی ان شاء اللہ ۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآَنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ
ترجمہ: رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا کہ وہ لوگوں کیلئے ہدایت اور راہِ ہدایت کی کھلی دلیلیں اور فرقان (یعنی فرق کرنے کی چیز ۔ فیصلہ) ہے۔ (البقرہ 185 کا ابتدائی حصہ)


حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"اللہ سبحانہ و تعالیٰ رمضان المبارک کے مہینے کی تعریف اس وصف کے ساتھ کررہے ہیں کہ اسے تمام مہینوں میں خاص کرکے قرآن مجید اس میں نازل فرمایا گیا ہے۔ اسی طرح اس بارے میں بھی حدیث وارد ہے کہ یہی وہ ماہِ مبارک ہے جس میں دیگر سماوی کتب بھی انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل ہوئی تھیں"
(تفسیر ابنِ کثیر)


دیگر سماوی کتب کے بھی اسی ماہ مبارک میں نازل ہونے کی دلیل اس حدیث مبارکہ میں ہے:
امام احمد اورطبرانی وغیرہ نے واثلہ بن الاسقع رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

" صحف ابراھیم (علیہ السلام) رمضان المبارک کی پہلی رات میں نازل کئے گئے، اور تورات سات رمضان میں نازل کی گئی، اور زبور انیس رمضان میں نازل کی گئی، اورقرآن مجید چوبیس رمضان کے بعد نازل کیا گیا"
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ۔ الحدیث رقم ۱۵۷۵)


اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا
"بے شک یہ "قرآن کریم" ایک ہی بار لوحِ محفوظ سے بیت العزۃ میں اتارا گیا اور یہ لیلۃ القدر تھی اور اس کی شہادت قرآن کریم کے اس قول سے ملتی ہے: إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (ترجمہ: ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا) اور اس قول میں بھی: " إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ" (ترجمہ: ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے)

رمضان المبارک کی قرآن کریم کے ساتھ اس خاص نسبت کا اثر ہمیں اس ماہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات میں بھی ملتا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں کثرت سے تلاوت کرتے تھے اور جبرائیل علیہ السلام بھی رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن پاک کا دور کرتے تھے۔
(صحیح بخاری)

ایک اور حدیث جو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، فرمایا:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں میں زیادہ سخی تھے، اور اس سے بھی بڑھ کر وہ اس دوران سخاوت کا مظاہرہ فرماتے جب رمضان المبارک میں ان سے جبریل علیہ السلام ملتے تھے۔ اور رمضان المبارک کی ہر رات میں جبریل علیہ السلام ان سے ملتے اور انہیں قرآن کریم پڑھاتے تھے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھیجی جانے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوتے تھے"
(صحیح البخاری کتاب الصوم)


اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رمضان المبارک کی ہر رات میں جبریل امین علیہ السلام آتے تھے اور انہیں قرآن کریم پڑھاتے تھے۔

امام ابنِ رجب حنبلی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
"اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں جو ذکر ہے کہ قرآن کریم وہ ہر رات پڑھایا کرتے تھے تو اس سے رمضان المبارک کی ہر رات میں کثرتِ تلاوت کے استحباب کی دلیل ملتی ہے۔ کیونکہ رات میں دنیاوی مشاغل ختم ہوجاتے ہیں، ذہن یکسو ہوجاتا ہے اور قلب و زبان تدبر کیلئے تیار ہوتے ہیں"

ایک اور بشارت جو اس ماہ میں روزے داروں اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے والوں کیلئے ہے، یہ ہے کہ قرآن کریم اور روزہ روزِ محشر ان کی شفاعت کریں گے۔ اور جس کی شفاعت قرآن کریم اور روزہ کریں، اللہ کی رحمت سے امیدِ کامل ہے کہ وہ ضرور قبول کی جائے گی ان شاء اللہ ۔ اور اس کا بیان اس حدیث میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے:

"روزہ اور قرآن بندے کیلئے قیامت کے دن سفارش کریں گے، روزہ کہے گا "اے رب! میں نے اسے دن میں کھانے اور پینے سے روکا تھا" اور قرآن کہے گا " میں نے اسے رات کے وقت سونے سے روکا تھا تو اس کے حق میں ہماری سفارش قبول فرما" ۔
(مسند احمد، نسائی)


قرآن کریم کے ساتھ اس ماہِ مبارک میں کثرتِ تعلق ہی کا ایک اور ذریعہ نمازِ تراویح ہے جس کی تعلیم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو دی۔ چنانچہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

"ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تمام ماہ کوئی قیام نہ کروایا، لیکن جب سات راتیں رہ گئیں، تو ہمیں رات کے آخری حصہ میں قیام کروایا حتی کہ رات کا تیسرا حصہ بیت گیا، اگلی شب قیام نہ کروایا اور جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں تو پھر قیام اللیل کروایا حتی کہ رات کا آدھا حصہ بیت گیا، تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ! (کیا ہی اچھا ہوتا) اگر آپ ہمیں پوری رات قیام کروادیتے" تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"جب آدمی امام کے ساتھ نماز ادا کرے حتی کہ امام (فارغ ہوکر) چلا جائے، تو اس کیلئے پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔"
(ابو داود، کتاب الصلاۃ)


اس حدیث سے یہ بھی دلیل ملتی ہے کہ رات کے تہائی حصے یا پھر نصف رات کے قیام سے پوری رات کے قیام کا ثواب لکھا جاتا ہے مگر اس صورت میں جب یہ امام کے ساتھ ہو۔

امام احمد رحمہ اللہ اس حدیث پر عمل فرماتے تھے اور امام کے پیچھے نماز ادا فرماتے اور اس وقت تک نہ جاتے جب تک امام رخصت نہ ہوجاتا۔

واللہ اعلم و صلی اللہ وسلم و بارک علی نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم

تبصرے