بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ رمضان المبارک پر لکھے گئے میرے مضمون سے اقتباس ہے جس میں لیلۃ القدر سے متعلق آیات و احادیث بیان کی گئی ہیں۔ اور چونکہ ہم آخری عشرے میں داخل ہوچکے ہیں اس لیے اسے اپنے لیے اور آپ سب کیلئے یہاں دوبارہ پیش کررہا ہوں کیونکہ ایک تو انسان بھولنے کی صفت رکھتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے:
وما سمی الانسان الا لنسیہ
و لا القلب الا انه يتقلب
انسان کو یہ نام اسی لیے دیا گیا ہے کہ وہ بھولنے (نسیان) میں مبتلا ہونے والا ہے۔ اور دل کو بھی اسی لیے قلب کہا جاتا ہے کہ یہ اُلٹنے، پلٹنے والا ہے۔ ایک حال پر باقی نہیں رہتا۔
(عربی میں قلب کے معنی الٹنے، پلٹنے کے ہیں)
اور کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ:
إذا تكرر الكلام على السمع ، تقرر في القلب.
جب کوئی بات کانوں میں بار بار پڑتی ہے، تو وہ دل میں بھی جگہ پاجاتی ہے اور پختہ ہوجاتی ہے۔ اس تمہید کے بعد اب مضمون کی طرف آتے ہیں:
ایک ہزار مہینوں سے افضل رات، شب قدر کا وجود، اس کے فضائل اور اس کا رمضان المبارک میں ہونا، یہ نصوص قرآنی اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
شب قدر کی فضیلت کے اثبات کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے متعلق قرآن مجید کی ایک مکمل سورت نازل کی گئی ہے۔ جبکہ احادیث مبارکہ میں بھی اس کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں جیسا کہ آگے اس کا کچھ بیان ہوگا، ساتھ ساتھ اس رات کو تلاش کرنے کی تاکید اور اس میں عبادت کی ترغیب بھی احادیث مبارکہ میں بکثرت وارد ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)
ترجمہ: ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا۔ آپ کیا سمجھے کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں (ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل علیہ السلام) اترتے ہیں۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔
(سورۃ القدر)
سورۂ مبارکہ کی تفسیر میں واحدی نے اپنی سند کے ساتھ امام مجاہد رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل میں سےایک شخص کا ذکر فرمایا کہ جس نے ایک ہزار مہینے تک اللہ کی راہ میں جہاد کیا تھا۔ اس کو سن کر مسلمانوں کو بے حد تعجب ہوا۔ اس پر یہ سورت مبارکہ نازل ہوئی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ پہلے زمانے میں شمسون نامی ایک نبی تھے جو ایک ہزار ماہ تک اللہ کے دین کیلئے جہاد فرماتے رہے اور اس تمام مدت میں انہوں نے اپنے ہتھیار جسم سے نہیں اتارے۔ یہ سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اس طویل عمر کیلئے تمنا ظاہر کی تاکہ وہ بھی اسی طرح خدمت اسلام کریں۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ تم کو صرف ایک رات ایسی دی گئی جو عبادت کیلئے ایک ہزار ماہ سے بہتر و افضل ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"قدر سے کیا مراد ہے، اس بارے میں اختلاف ہے، پس کہا گیا ہے کہ قدر سے تعظیم مراد ہے جیسا کہ آیت قرآنی میں ہے (اشارہ اس آیت کی جانب ہے "وما قدرو اللہ حق قدرہ" یعنی "ان کافروں نے پورے طور پر اللہ کی عظمت کو نہیں پہچانا") آیت مبارکہ میں جس طرح قدر سے تعظیم مراد ہے، یہاں بھی اس رات کیلئے تعظیم مراد ہے اس لئے کہ یہ رات وہ ہے جس میں قرآن کریم کا نزول شروع ہوا۔ علماء (کی ایک جماعت) کا قول یہ بھی ہے کہ اس کا نام لیلۃ القدر اس لئے رکھا گیا کہ اس میں اللہ کے حکم سے فرشتے آنے والے سال کی تمام تقدیریں لکھتے ہیں۔ "
(فتح الباری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ فرمایا:
"جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ لیلۃ القدر کا قیام کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں"
(بخاری و مسلم)
بعض علماء نے تشریح کی ہے کہ "ایمان کے ساتھ" یعنی اللہ پر ایمان اور جس اجر کا وعدہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اس رات کے عبادت گزاروں کیلئے کیا ہے، اس پر یقین کے ساتھ۔ "احتساب" کے ساتھ یعنی طلب ثواب کی نیت کے ساتھ۔
امام مالک رحمت اللہ علیہ نے مؤطا میں روایت کی ہے :
"مجھے پہنچا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی عمریں کم ہونے کا احساس ہوا جبکہ پہلی امتوں کی عمریں بہت طویل ہوا کرتی تھیں۔ پس اللہ تعالی نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو لیلۃ القدر عطا فرمائی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو تسلی دینا مقصود تھا جن کی عمریں بہت چھوٹی ہیں اور یہ رات ایک ہزار مہینے سے بہتر ان کو دی گئی۔
شب قدر کی تاریخ کا تعین
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"شب قدر کو رمضان کےآخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو"
(صحیح بخاری)
صحیح بخاری ہی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ (یعنی ۲۱ یا ۲۳ یا ۲۵ ویں شب میں تلاش کرو)
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرہ میں ایک ترکی خیمہ میں کہ جس کے دروازے پر چٹائی لٹکی ہوئی تھی، اعتکاف کیا۔ (تیسرے عشرے کے شروع میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے چٹائی کو پکڑ کر خیمے کے ایک کونے میں کر دیا اور اپنا سر باہر نکال کر لوگوں سے مخاطب ہوئے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے رات (لیلة القدر) کی تلاش میں پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا، پھر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، پھر میرے پاس کوئی (فرشتہ) آیا اور میری طرف یہ وحی کی گئی کہ (لیلة القدر کی) یہ رات آخری عشرہ میں ہے۔ تم میں سے جو شخص اعتکاف کرناچاہے تو وہ اعتکاف کرے۔ چنانچہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ اعتکاف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دکھایا گیا کہ وہ طاق راتوں میں ہے اور میں اس کی صبح کو پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر جب اکیسویں شب کی صبح ہوئی اور اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک نماز پڑھتے رہے۔ اور بارش ہوئی تو مسجد ٹپکی اور میں نے مٹی اور پانی کو دیکھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک کی چوٹی پر مٹی اور پانی کا نشان تھا اور وہ اکیسویں رات تھی۔
(صحیح مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب کو (خواب میں) شب قدر (رمضان کی) آخری سات راتوں میں دکھائی گئی تھی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہوگئے ہیں اس لئے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری (طاق) راتوں میں تلاش کرے۔
(صحیح بخاری)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈو، پھر اگر کوئی کمزوری دکھائے یا عاجز ہو جائے تو آخر کی سات راتوں میں سست نہ ہو۔
(صحیح مسلم)
سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے شب قدر دکھائی گئی تھی پھر بھلا دی گئی۔ اور میں نے (خواب میں) دیکھا کہ اس رات کی صبح کو میں پانی اور کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ راوی نے کہا کہ ہم پر تئیسویں شب کو بارش برسی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر پھرے (یعنی صبح کی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک پر پانی اور کیچڑ کا اثر تھا۔ اور سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ تئیسویں رات کو شب ِ قدر کہا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم)
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیلة القدر کا علم دیئے جانے سے قبل اسے ڈھونڈھتے تھے۔ جب درمیانی عشرہ گزر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ کھولنے کا حکم دیا تو وہ کھول دیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بذریعہ وحی) یہ بتا دیا گیا کہ یہ آخری عشرہ میں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ لگانے کا حکم کیا تو دوبارہ لگا دیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے پاس آئے تو فرمایا: اے لوگو! مجھے لیلة القدر کا علم دے دیا گیا تھا اورمیں تمہیں بتانے کیلئے نکلا تھا کہ دو آدمی لڑتے ہوئے آئے جن کیساتھ شیطان بھی تھا، تو (اس کی تعیین) مجھے بھلا دی گئی۔ اب تم اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو(آخری عشرے کی) نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔
(صحیح مسلم)
سیدنا زِرّ بن حبیش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تمہارے بھائی عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ جو سال بھر تک جاگے گا، اس کو شب ِ قدر ملے گی تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے، یہ کہنے سے ان کی غرض یہ تھی کہ لوگ ایک ہی رات پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں (بلکہ ہمیشہ عبادت میں مشغول رہیں) ورنہ وہ خوب جانتے تھے کہ وہ رمضان میں، آخری عشرہ میں ہے اور وہ ستائیسویں رات ہے۔ پھر انہوں نے بغیر ان شاء اللہ کہے قسم اٹھا کر کہا کہ کہ وہ ستائیسویں رات ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابو منذر! تم یہ دعویٰ کس بنا پر کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ایک نشانی یا علامت کی وجہ سے جس کی خبر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، وہ یہ کہ اس کی صبح کو آفتاب جو نکلتا ہے تو اس میں شعاع نہیں ہوتی (مگر یہ علامت اس رات کے ختم ہونے کے بعد ظاہر ہوتی ہے)۔
(صحیح مسلم)
خلاصۂ تحقیق:
اس رات کی حتمی تعین کے بارے میں علمائے کرام کے بہت سے اقوال ہیں جن کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور ان کی تعداد 46تک جا پہنچتی ہے۔ آخر میں اپنی رائے دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ :
"ان سب میں ترجیح اس قول کو حاصل ہے کہ یہ مبارک رات رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کسی رات میں ہوتی ہے۔ اور یہ کسی ایک رات میں نہیں بلکہ ہر سال (ان آخری پانچ طاق راتوں میں ایک سے دوسری رات میں) منتقل ہوتی رہتی ہے۔ ویسے جمہور علمائے کرام نے ستائیسویں رات کو زیادہ ترجیح دی ہے جبکہ فقہائے شافعیہ نے اکیسویں رات کو، تاہم صحیح تر یہ ہے کہ لیلۃ القدر کیلئے کوئی خاص تاریخ متعین نہیں کی جاسکتی۔ علماء نے کہا کہ اس رات کے مخفی ہونے میں یہ حکمت ہے کہ اس کی تلاش کیلئے کوشش کی جائے اور (خصوصیت کے ساتھ) رمضان المبارک کی تمام آخری راتوں میں عبادت کی جائے کیونکہ اگر اس کا تعین کردیا جاتا تو پھر باقی راتوں میں عبادت کی رغبت نہ رہتی اور اسی رات پر اکتفا کرلیا جاتا"
(فتح الباری)
ان راتوں میں عبادت میں سخت محنت کرنی چاہئے اور نوافل و تلاوت، ذکر الہی و درود پڑھنے، توبہ و استغفار اور دعا میں خلوص دل سے مشغول رہنا چاہئے۔ اگر تمام رات جاگنے کی استطاعت نہ ہو تو جتنا ہوسکے جاگے۔ اگر خدانخواستہ یہ بھی نہ ہوسکے تو عشاء اور فجر کی نماز باجماعت پڑھنے کا اہتمام کرے، کیونکہ حدیث میں وارد ہے کہ ایسا کرنے پر بھی تمام رات کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے۔
تنبیہہ:
ان راتوں کو مختلف قسم کی ہنگامہ آرائیوں، مثلاً جلسوں، اور دیگر محفلوں میں صرف کرنا حد درجہ بدبختی و محرومی کی علامت ہے۔ یہ رات سال میں صرف ایک مرتبہ آتی ہے اور (علاوہ فرائض و تراویح کے) تمام تر عبادات انفرادی طور پر افضل و بہتر ہیں۔
بعض جگہ دیکھا جاتا ہے کہ شب قدر کے حوالے سے اشتہارات اور دیگر ذرائع سے کچھ مخصوص عبادات لکھی جاتی ہیں جو بے بنیاد ہیں، شریعت مطہرہ میں اس رات کی کوئی مخصوص عبادت، (سوائے اس دعا کے جو آگے بیان ہوگی ان شاء اللہ) مقرر نہیں ہے۔ لہذا جس سے جس قدر ہوسکے اعمال صالحہ کرے مگر بدعات و رسومات سے اجتناب کرے۔ المدخل، کتاب الاعتصام میں ہے کہ اہل بدعت کی نہ دعا قبول کی جاتی ہے اور نہ عبادت۔
شب قدر میں کیا دعا مانگی جائے؟
شب قدر کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص یہ دعا بتلائی ہے:
اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی
ترجمہ: اے اللہ! آپ معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں پس میری خطائیں معاف کردیں۔
(سنن الترمذی ابواب الدعوات، ابن ماجہ کتاب الدعاء)
اس لئے چاہئے کہ رمضان المبارک کی آخری طاق راتوں میں بکثرت اس دعا کو ورد زبان رکھا جائے۔
آخری عشرہ میں عبادت میں زیادہ محنت کرنا سنت ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تہبند مضبوط باندھتے (یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے) اور ان راتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔
(بخاری)
تشریح: کمر کس لینے کا مطلب یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عشرہ میں عبادت الہی کیلئے خاص محنت کرتے، خود جاگتے گھر والوں کو جگاتے اور رات بھر عبادت الہی میں مشغول رہتے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل تعلیم امت کیلئے تھا۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا:
ترجمہ: بیشک اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے لئے بہترین نمونہ ہیں۔ (الاحزاب ۲۱)
یوں تو ہمیشہ ہی عبادت الہی کرنا مسلمان پر لازم ہے تاہم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اس کی بہت تاکید بھی ہے، پھر لیلۃ القدر بھی اسی عشرہ کی کسی رات میں ہے، لہذا ان ایام میں جس قدر بھی عبادت کی جائے کم ہے۔
یہ رمضان المبارک پر لکھے گئے میرے مضمون سے اقتباس ہے جس میں لیلۃ القدر سے متعلق آیات و احادیث بیان کی گئی ہیں۔ اور چونکہ ہم آخری عشرے میں داخل ہوچکے ہیں اس لیے اسے اپنے لیے اور آپ سب کیلئے یہاں دوبارہ پیش کررہا ہوں کیونکہ ایک تو انسان بھولنے کی صفت رکھتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے:
وما سمی الانسان الا لنسیہ
و لا القلب الا انه يتقلب
انسان کو یہ نام اسی لیے دیا گیا ہے کہ وہ بھولنے (نسیان) میں مبتلا ہونے والا ہے۔ اور دل کو بھی اسی لیے قلب کہا جاتا ہے کہ یہ اُلٹنے، پلٹنے والا ہے۔ ایک حال پر باقی نہیں رہتا۔
(عربی میں قلب کے معنی الٹنے، پلٹنے کے ہیں)
اور کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ:
إذا تكرر الكلام على السمع ، تقرر في القلب.
جب کوئی بات کانوں میں بار بار پڑتی ہے، تو وہ دل میں بھی جگہ پاجاتی ہے اور پختہ ہوجاتی ہے۔ اس تمہید کے بعد اب مضمون کی طرف آتے ہیں:
ایک ہزار مہینوں سے افضل رات، شب قدر کا وجود، اس کے فضائل اور اس کا رمضان المبارک میں ہونا، یہ نصوص قرآنی اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
شب قدر کی فضیلت کے اثبات کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے متعلق قرآن مجید کی ایک مکمل سورت نازل کی گئی ہے۔ جبکہ احادیث مبارکہ میں بھی اس کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں جیسا کہ آگے اس کا کچھ بیان ہوگا، ساتھ ساتھ اس رات کو تلاش کرنے کی تاکید اور اس میں عبادت کی ترغیب بھی احادیث مبارکہ میں بکثرت وارد ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)
ترجمہ: ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا۔ آپ کیا سمجھے کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں (ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل علیہ السلام) اترتے ہیں۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔
(سورۃ القدر)
سورۂ مبارکہ کی تفسیر میں واحدی نے اپنی سند کے ساتھ امام مجاہد رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل میں سےایک شخص کا ذکر فرمایا کہ جس نے ایک ہزار مہینے تک اللہ کی راہ میں جہاد کیا تھا۔ اس کو سن کر مسلمانوں کو بے حد تعجب ہوا۔ اس پر یہ سورت مبارکہ نازل ہوئی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ پہلے زمانے میں شمسون نامی ایک نبی تھے جو ایک ہزار ماہ تک اللہ کے دین کیلئے جہاد فرماتے رہے اور اس تمام مدت میں انہوں نے اپنے ہتھیار جسم سے نہیں اتارے۔ یہ سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اس طویل عمر کیلئے تمنا ظاہر کی تاکہ وہ بھی اسی طرح خدمت اسلام کریں۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ تم کو صرف ایک رات ایسی دی گئی جو عبادت کیلئے ایک ہزار ماہ سے بہتر و افضل ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"قدر سے کیا مراد ہے، اس بارے میں اختلاف ہے، پس کہا گیا ہے کہ قدر سے تعظیم مراد ہے جیسا کہ آیت قرآنی میں ہے (اشارہ اس آیت کی جانب ہے "وما قدرو اللہ حق قدرہ" یعنی "ان کافروں نے پورے طور پر اللہ کی عظمت کو نہیں پہچانا") آیت مبارکہ میں جس طرح قدر سے تعظیم مراد ہے، یہاں بھی اس رات کیلئے تعظیم مراد ہے اس لئے کہ یہ رات وہ ہے جس میں قرآن کریم کا نزول شروع ہوا۔ علماء (کی ایک جماعت) کا قول یہ بھی ہے کہ اس کا نام لیلۃ القدر اس لئے رکھا گیا کہ اس میں اللہ کے حکم سے فرشتے آنے والے سال کی تمام تقدیریں لکھتے ہیں۔ "
(فتح الباری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ فرمایا:
"جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ لیلۃ القدر کا قیام کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں"
(بخاری و مسلم)
بعض علماء نے تشریح کی ہے کہ "ایمان کے ساتھ" یعنی اللہ پر ایمان اور جس اجر کا وعدہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اس رات کے عبادت گزاروں کیلئے کیا ہے، اس پر یقین کے ساتھ۔ "احتساب" کے ساتھ یعنی طلب ثواب کی نیت کے ساتھ۔
امام مالک رحمت اللہ علیہ نے مؤطا میں روایت کی ہے :
"مجھے پہنچا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی عمریں کم ہونے کا احساس ہوا جبکہ پہلی امتوں کی عمریں بہت طویل ہوا کرتی تھیں۔ پس اللہ تعالی نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو لیلۃ القدر عطا فرمائی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو تسلی دینا مقصود تھا جن کی عمریں بہت چھوٹی ہیں اور یہ رات ایک ہزار مہینے سے بہتر ان کو دی گئی۔
شب قدر کی تاریخ کا تعین
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"شب قدر کو رمضان کےآخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو"
(صحیح بخاری)
صحیح بخاری ہی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ (یعنی ۲۱ یا ۲۳ یا ۲۵ ویں شب میں تلاش کرو)
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرہ میں ایک ترکی خیمہ میں کہ جس کے دروازے پر چٹائی لٹکی ہوئی تھی، اعتکاف کیا۔ (تیسرے عشرے کے شروع میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے چٹائی کو پکڑ کر خیمے کے ایک کونے میں کر دیا اور اپنا سر باہر نکال کر لوگوں سے مخاطب ہوئے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے رات (لیلة القدر) کی تلاش میں پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا، پھر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، پھر میرے پاس کوئی (فرشتہ) آیا اور میری طرف یہ وحی کی گئی کہ (لیلة القدر کی) یہ رات آخری عشرہ میں ہے۔ تم میں سے جو شخص اعتکاف کرناچاہے تو وہ اعتکاف کرے۔ چنانچہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ اعتکاف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دکھایا گیا کہ وہ طاق راتوں میں ہے اور میں اس کی صبح کو پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر جب اکیسویں شب کی صبح ہوئی اور اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک نماز پڑھتے رہے۔ اور بارش ہوئی تو مسجد ٹپکی اور میں نے مٹی اور پانی کو دیکھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک کی چوٹی پر مٹی اور پانی کا نشان تھا اور وہ اکیسویں رات تھی۔
(صحیح مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب کو (خواب میں) شب قدر (رمضان کی) آخری سات راتوں میں دکھائی گئی تھی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہوگئے ہیں اس لئے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری (طاق) راتوں میں تلاش کرے۔
(صحیح بخاری)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈو، پھر اگر کوئی کمزوری دکھائے یا عاجز ہو جائے تو آخر کی سات راتوں میں سست نہ ہو۔
(صحیح مسلم)
سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے شب قدر دکھائی گئی تھی پھر بھلا دی گئی۔ اور میں نے (خواب میں) دیکھا کہ اس رات کی صبح کو میں پانی اور کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ راوی نے کہا کہ ہم پر تئیسویں شب کو بارش برسی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر پھرے (یعنی صبح کی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک پر پانی اور کیچڑ کا اثر تھا۔ اور سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ تئیسویں رات کو شب ِ قدر کہا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم)
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیلة القدر کا علم دیئے جانے سے قبل اسے ڈھونڈھتے تھے۔ جب درمیانی عشرہ گزر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ کھولنے کا حکم دیا تو وہ کھول دیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بذریعہ وحی) یہ بتا دیا گیا کہ یہ آخری عشرہ میں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ لگانے کا حکم کیا تو دوبارہ لگا دیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے پاس آئے تو فرمایا: اے لوگو! مجھے لیلة القدر کا علم دے دیا گیا تھا اورمیں تمہیں بتانے کیلئے نکلا تھا کہ دو آدمی لڑتے ہوئے آئے جن کیساتھ شیطان بھی تھا، تو (اس کی تعیین) مجھے بھلا دی گئی۔ اب تم اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو(آخری عشرے کی) نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔
(صحیح مسلم)
سیدنا زِرّ بن حبیش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تمہارے بھائی عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ جو سال بھر تک جاگے گا، اس کو شب ِ قدر ملے گی تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے، یہ کہنے سے ان کی غرض یہ تھی کہ لوگ ایک ہی رات پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں (بلکہ ہمیشہ عبادت میں مشغول رہیں) ورنہ وہ خوب جانتے تھے کہ وہ رمضان میں، آخری عشرہ میں ہے اور وہ ستائیسویں رات ہے۔ پھر انہوں نے بغیر ان شاء اللہ کہے قسم اٹھا کر کہا کہ کہ وہ ستائیسویں رات ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابو منذر! تم یہ دعویٰ کس بنا پر کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ایک نشانی یا علامت کی وجہ سے جس کی خبر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، وہ یہ کہ اس کی صبح کو آفتاب جو نکلتا ہے تو اس میں شعاع نہیں ہوتی (مگر یہ علامت اس رات کے ختم ہونے کے بعد ظاہر ہوتی ہے)۔
(صحیح مسلم)
خلاصۂ تحقیق:
اس رات کی حتمی تعین کے بارے میں علمائے کرام کے بہت سے اقوال ہیں جن کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور ان کی تعداد 46تک جا پہنچتی ہے۔ آخر میں اپنی رائے دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ :
"ان سب میں ترجیح اس قول کو حاصل ہے کہ یہ مبارک رات رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کسی رات میں ہوتی ہے۔ اور یہ کسی ایک رات میں نہیں بلکہ ہر سال (ان آخری پانچ طاق راتوں میں ایک سے دوسری رات میں) منتقل ہوتی رہتی ہے۔ ویسے جمہور علمائے کرام نے ستائیسویں رات کو زیادہ ترجیح دی ہے جبکہ فقہائے شافعیہ نے اکیسویں رات کو، تاہم صحیح تر یہ ہے کہ لیلۃ القدر کیلئے کوئی خاص تاریخ متعین نہیں کی جاسکتی۔ علماء نے کہا کہ اس رات کے مخفی ہونے میں یہ حکمت ہے کہ اس کی تلاش کیلئے کوشش کی جائے اور (خصوصیت کے ساتھ) رمضان المبارک کی تمام آخری راتوں میں عبادت کی جائے کیونکہ اگر اس کا تعین کردیا جاتا تو پھر باقی راتوں میں عبادت کی رغبت نہ رہتی اور اسی رات پر اکتفا کرلیا جاتا"
(فتح الباری)
ان راتوں میں عبادت میں سخت محنت کرنی چاہئے اور نوافل و تلاوت، ذکر الہی و درود پڑھنے، توبہ و استغفار اور دعا میں خلوص دل سے مشغول رہنا چاہئے۔ اگر تمام رات جاگنے کی استطاعت نہ ہو تو جتنا ہوسکے جاگے۔ اگر خدانخواستہ یہ بھی نہ ہوسکے تو عشاء اور فجر کی نماز باجماعت پڑھنے کا اہتمام کرے، کیونکہ حدیث میں وارد ہے کہ ایسا کرنے پر بھی تمام رات کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے۔
تنبیہہ:
ان راتوں کو مختلف قسم کی ہنگامہ آرائیوں، مثلاً جلسوں، اور دیگر محفلوں میں صرف کرنا حد درجہ بدبختی و محرومی کی علامت ہے۔ یہ رات سال میں صرف ایک مرتبہ آتی ہے اور (علاوہ فرائض و تراویح کے) تمام تر عبادات انفرادی طور پر افضل و بہتر ہیں۔
بعض جگہ دیکھا جاتا ہے کہ شب قدر کے حوالے سے اشتہارات اور دیگر ذرائع سے کچھ مخصوص عبادات لکھی جاتی ہیں جو بے بنیاد ہیں، شریعت مطہرہ میں اس رات کی کوئی مخصوص عبادت، (سوائے اس دعا کے جو آگے بیان ہوگی ان شاء اللہ) مقرر نہیں ہے۔ لہذا جس سے جس قدر ہوسکے اعمال صالحہ کرے مگر بدعات و رسومات سے اجتناب کرے۔ المدخل، کتاب الاعتصام میں ہے کہ اہل بدعت کی نہ دعا قبول کی جاتی ہے اور نہ عبادت۔
شب قدر میں کیا دعا مانگی جائے؟
شب قدر کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص یہ دعا بتلائی ہے:
اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی
ترجمہ: اے اللہ! آپ معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں پس میری خطائیں معاف کردیں۔
(سنن الترمذی ابواب الدعوات، ابن ماجہ کتاب الدعاء)
اس لئے چاہئے کہ رمضان المبارک کی آخری طاق راتوں میں بکثرت اس دعا کو ورد زبان رکھا جائے۔
آخری عشرہ میں عبادت میں زیادہ محنت کرنا سنت ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تہبند مضبوط باندھتے (یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے) اور ان راتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔
(بخاری)
تشریح: کمر کس لینے کا مطلب یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عشرہ میں عبادت الہی کیلئے خاص محنت کرتے، خود جاگتے گھر والوں کو جگاتے اور رات بھر عبادت الہی میں مشغول رہتے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل تعلیم امت کیلئے تھا۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا:
ترجمہ: بیشک اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے لئے بہترین نمونہ ہیں۔ (الاحزاب ۲۱)
یوں تو ہمیشہ ہی عبادت الہی کرنا مسلمان پر لازم ہے تاہم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اس کی بہت تاکید بھی ہے، پھر لیلۃ القدر بھی اسی عشرہ کی کسی رات میں ہے، لہذا ان ایام میں جس قدر بھی عبادت کی جائے کم ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں