ماہِ رجب سے متعلق چند امور کی وضاحت

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم

وَمَا آَتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (الحشر آیۃ 7)
ترجمہ: رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہیں جو کچھ دیں، لے لو، اور جس سے روکیں رک جاؤ اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالی سخت عذاب والا ہے۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

عليكم بسنتى و سنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدى و اياكم و محدثات الامور فان كل محدثة بدعة و كل بدعة ضلالة (صحيح مسلم)

ترجمه: ميرى اور ميرے خلفائے راشدين كى سنت پر رهنا اور خبردار دين ميں نئے كاموں سے بچو كیونكه ہر نیا كام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراهى ہے.
رواه مسلم رقم 867

ايك اور روايت ميں ہے :

" جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ كام مردود ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 )


اور حضرت عبد الله بن مسعود رضى الله تعالى عنه سے روايت ہے كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ہمارے سامنے ايك لكیر كهينچى اور فرمايا كه يه الله كا راسته ہے پهر اس كے دائیں بائیں چند لكیريں كهينچيں اور فرمايا "يه بہت سارے راستے هيں اور ان ميں سے ہر ايك راستے پر شيطان ہے جو اپنى جانب بلا رہا هے" پهر آپ صلى الله عليه وسلم نے يه آيت تلاوت فرمائى:

وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (153)

ترجمه: اور يه كه يه دين ميرا راسته ہے جو مستقيم ہے سو اس راه پر چلو اور دوسرى راہوں پر مت چلو كه وه راہيں تم كو الله كى راه سے جدا كرديں گى اس كا تم كو الله نے تاكیدى حكم ديا ہے تاكه تم پرہيز گارى اختيار كرو. (سورة الانعام 153)
(ابن حبان ، حاكم و مسند امام أحمد)

ماہ رجب شروع ہوچکا، اس مہینہ کے ساتھ کچھ ایسی باتوں کو مخصوص کردیا گیا ہے جن کا شریعتِ مطہرہ میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
جاننا چاہئے کہ اسلام کو اللہ سبحانہ و تعالی نے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہی میں مکمل کردیا تھا، اس کے اوامر و نواہی، حلال و حرام کو واضح کردیا گیا تھا۔ ہمارے لئے اس امر کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ ہم احکام شرعی میں اپنی من مانی کرتے ہوئے قطع برید یا کمی بیشی کریں۔
اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں:

وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا (النور 54)

ترجمہ: اگر ان کی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی) اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔

لہذا نجات اسی میں ہے کہ تمامتر معاملات میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے۔

مناسب ہوگا کہ ماہ رجب سے جو عبادات و عقائد منسوب ہیں، ان تمام کا ایک نظر میں جائزہ لیا جائے تاکہ حقیقت حال واضح ہوسکے۔

صلاۃ الرغائب
اس مہینہ سے منسوب عبادات میں سے ایک یہ ہے کہ اس ماہ کی پہلی جمعرات کو روزہ رکھا جاتا ہے، جبکہ اگلے دن یعنی جمعہ کو، مغرب و عشاء کے مابین ایک نماز جو "صلاۃ الرغائب" کہلاتی ہے، کہیں باجماعت اور کہیں انفرادی طور پر، پڑھی جاتی ہے۔
یہ نماز سب سے پہلے چار سو اسی (اور ایک قول کے مطابق 448ہجری) کے بعد ظہور میں آئی، یعنی کہ قرون اولی میں اس کا وجود نہیں تھا نہ ہی یہ نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، یا کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔
اس کے اثبات کیلئے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت سے استدلال کیا جاتا ہے، جبکہ اس روایت کے موضوع ہونے پر علامہ ابن النحاس رحمہ اللہ نے محدثین کا اتفاق نقل کیا ہے۔ (تنبیہہ الغافلین ص 496) جبکہ "لطائف المعارف" میں حافظ ابن رجب نے ابو اسمعیل انصاری، ابو بکر سمعانی، ابو الفضل بن ناصر سمیت کئی دیگر علمائے کرام کا اس نماز کے بدعت ہونے پر اتفاق نقل کیا ہے۔ اس کے علاوہ، "البدع والحوادث" میں علامہ ابن الجوزی، حافظ ابو الخطاب ، اور ابو شامہ نے اس نماز کے سلسلہ میں وارد حدیث کو موضوع کہا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المجموع" اور شرح صحیح مسلم میں اس نماز کو منکرات اور بدعات میں سے قرار دیا ہے اور ان روایات کو باطل قرار دیا ہے جن سے اس نماز کی مشروعیت کا استدلال کیا جاتا ہے۔

ابن عابدين رحمہ اللہ تعالى " الحاشيۃ" ميں لکھتے ہیں:

" البحر" ميں كہا ہے كہ يہاں سے ماہ رجب كے پہلے جمعہ كو صلاۃ الرغائب كے نام سے ادا كى جانے والى نماز كى كراہت معلوم ہوتى ہے، اور يہ معلوم ہوتا ہے كہ يہ نماز بدعت ہے...
(حاشيۃ ابن عابدين ( 2 / 26 ).

ابن حجر الہيتمى رحمہ اللہ تعالى نے اس نماز کے بارے میں کہا:

" صلاۃ رغائب يہ اسى معروف نماز كى طرح ہے جو نصف شعبان ميں ادا كى جاتى ہے، اور يہ دونوں قبيح اورمذموم قسم كى بدعتيں ہيں، اور اس كے بارہ ميں احاديث موضوع ہيں، لہذا يہ نمازيں باجماعت اور اكيلے ادا كرنا جائز نہيں"
( الفتاوى الفقھيۃ الكبرى ( 1 / 216 ).


ابن الحاج المالكى رحمہ اللہ تعالى " المدخل" ميں كہتے ہيں:

" اس ماہ مبارك ( يعنى ماہ رجب ) ميں ايجاد كردہ بدعات ميں يہ بھى ہے كہ اس ماہ كے پہلے جمعہ كى رات كو مسجدوں ميں صلاۃ رغائب كے نام سے نماز ادا کی جاتی ہے، اور شھر كى بعض جامع مسجد اور دوسرى مساجد ميں جمع ہو كر اس بدعت كا ارتكاب ہوتا ہے"

امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك يہ ہے كہ صلاۃ رغائب ادا كرنى مكروہ ہے، كيونكہ پہلے گزر جانے والوں كا فعل نہيں، اور خير و بھلائى انہى كى اتباع و پيروى ميں ہے، رضى اللہ تعالى عنہم.
( المدخل ( 1 / 294 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" مقرر ركعات اور مقرر قراءت كے ساتھ معين وقت ميں باجماعت نماز ادا كرنا مثلا: رجب كے پہلے جمعہ والے دن صلاۃ رغائب، اور رجب كے شروع ميں الفيہ اور نصف شعبان اور رجب كى ستائيسويں رات كو نماز ادا كرنا، اور اس طرح كى دوسرى نمازيں مسلمان آئمہ كرام كے متفقہ فيصلہ كے مطابق مشروع نہيں ہيں، جيسا كہ معتبر علماء كرام نے بيان بھى كيا ہے، اس طرح كى نماز بدعتى اور جاہل كے علاوہ كوئى اور ادا نہيں كرتا، اس طرح کی بدعات كا دروازہ كھولنا شريعت اسلاميہ ميں تغير و تبدل كرنے اور ايسے لوگوں كى حالت كو اپنانے كا باعث ہے جنہوں نے دين ميں ايسى اشياء داخل كرلیں جن كا حكم اللہ تعالى نے انہيں ديا"
( الفتاوى الكبرى ( 2 / 239 ).

ایک اور جگہ شيخ الاسلام اس كے متعلق كہتے ہيں:

" يہ نماز نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ادا كى ہے اور نہ كسى صحابى نے اور نہ ہى تابعين نے اور مسلمانوں كے كسى امام نے بھى ايسا نہيں كيا نہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى ترغيب دلائى اور نہ سلف صالحین میں سے کسی نے، اور نہ آئمہ كرام نے اس رات كى كوئى فضيلت ذكر كى ہے جو اس كے ساتھ مخصوص ہو."

الموسوعۃ الفقھيۃ" ميں احناف اور شوافع حضرات کا اس پر اتفاق نقل کیا گیا ہے کہ:

رجب میں "صلاۃ الرغائب" کے نام سے مخصوص رکعات و مخصوص کیفیت کے ساتھ نماز ادا کرنا بدعات منکرہ میں سے ہے
ابن الجوزى رحمہ اللہ كہتے ہيں: "صلاۃ الرغائب نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں يہ موضوع ہے،اور ان كے ذمہ جھوٹ لگايا گيا ہے.علماء نے اس كا بدعت ہونا اور اس كى كراہت كى كئى ايك وجوہات بيان كي ہيں، پھر يہ دونوں نمازيں صحابہ كرام اور ان كے بعد تابعين اور آئمہ كرام سے منقول نہيں ہيں، بلكہ اس کی ابتدا کے آثار تو چار سو سال بعد ملتے ہیں۔ "
( الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 262 ).

"شب معراج"

اس مہینہ کی ۲۷ تاریخ کے متعلق مشہور ہے کہ اسی رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا سفر کیا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سفر معراج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم معجزات میں سے ایک ہے، اس کے وقوع میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کا تذکرہ قرآن مجید میں، سورہ اسراء (بنی اسرائیل) کی ابتدائی آیات میں کیا گیا ہے۔ تاہم آیا واقعی یہ واقعہ ۲۷ ویں رجب ہی کی رات پیش آیا تھا؟ یہ کسی صحیح قول سے ثابت نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "الباعث علی انکار البدع والحوادث" میں ابن دحیہ سے نقل کیا ہے کہ:

"یہ بات کہ واقعہ معراج ماہ رجب میں پیش آیا تھا، درست نہیں اور اکاذیب میں سے ہے"
علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "معراج والی روایت قاسم بن محمد سے ایسی سند سے مروی ہے جو صحیح نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ستائیس رجب کو معراج ہوئی تھی ۔ ابراہیم حربی وغیرہ نے اس بات کا انکار کیا ہے"۔
(تبیین العجب فیما ورد فی فضل رجب)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"معراج کے مہینہ ، عشرہ اور دن کے بارے میں کوئی قطعی دلیل ثابت نہیں ہے، بلکہ اس سلسلہ میں نقول منقطع ومتضاد ہیں جن سے کسی تاریخ کی قطعیت ثابت نہیں ہوسکتی" ۔
(لطائف المعارف)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری، 7/242-243 میں معراج کے وقت کے بارے اختلاف ذکر کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ ایک قول یہ ہے کہ معراج ماہ رجب میں ہوئی تھی، دوسرا قول یہ ہے کہ ماہ ربیع الاول میں اور تیسرا قول یہ کہ ماہ رمضان یا شوال میں ہوئی تھی، صحیح بات وہی ہے جو علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیان کی ہے۔


غور فرمائیں! اس شب کی تعین میں ہی شدید اختلاف ہے تو اس سے منسوب مخصوص عبادات کی شرعاً کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

ماہ رجب میں جانور ذبح کرنا

ماہ رجب میں اللہ کی رضاکے لئے مطلقا جانور ذبح کرنا دیگر مہینوں کی طرح منع نہیں ہے، لیکن اہل جاہلیت اس ماہ میں ایک "عتیرہ" نام کا ذبیحہ ذبح کرتے تھے۔ اہل علم نے اس ذبیحہ کے حکم کے سلسلہ میں اختلاف کیا ہے، چنانچہ علماء کی اکثریت اس بات کی طرف گئی ہے کہ اسلام نے اسے باطل قراردے دیا ہے ، ان کا استدلال بخاری ومسلم کی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ہے کہ : ((لا فرع ولا عتیرۃ)) "نہ فرع جائز ہے نہ عتیرہ درست" ۔ (19) ۔

جبکہ ابن سیرین اور بعض دیگر اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ "عتیرہ" مستحب ہے، ان کا استدلال ان احادیث سے ہے جو اس کے جواز پر دال ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ابو ہریرہ کی حدیث ان احادیث سے زیادہ صحیح اور زیادہ پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہیں، لہذا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل مقدم ہوگا، بلکہ علامہ ابن منذر نے تو اسے منسوخ قرار دیا ہے ، کیونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بہت بعد میں مسلمان ہوئے اور جواز والی حدیث ابتدائے اسلام کی ہیں ، پھر بعد میں یہ منسوخ ہوگئی، اور یہی راجح قول ہے۔ (20) ۔
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اسلام میں عتیرہ نہیں ہے، یہ تو جاہلیت کی بات تھی کہ آدمی روزہ رکھتا تھا اور عتیرہ بھی قربان کرتا تھا" ۔ (21) ۔

علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ماہ رجب میں ذبح کے مشابہ یہ بھی ہے کہ اسے خاص موسم اور عید بنالیا جائے، مثلا اس ماہ میں حلوہ وغیرہ اور دیگر مخصوص کھانے کا اہتمام کرنا وغیرہ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ ماہ رجب کو عید بنا لینا مکروہ جانتے تھے۔ (لطائف المعارف، ص 227 ۔) ۔

ماہ رجب کو روزہ یا اعتکاف کے لئے خاص کرنا


علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"جہاں تک ماہ رجب میں روزوں کا تعلق ہے تو خاص کر اس کے روزوں کی فضیلت کے سلسلہ میں نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت ہے اور نہ آپ کے صحابہ کرام سے " ۔ (23) ۔

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"جہاں تک خصوصیت کے ساتھ ماہ رجب کے روزوں کا تعلق ہے تو اس کی تمام احادیث ضعیف بلکہ موضوع ہیں، ان میں سے کسی پر بھی اہل علم اعتماد نہیں کرتے اور یہ ان ضعیف احادیث میں سے بھی نہیں ہیں جو فضائل میں روایت کی جاتی ہیں، بلکہ تمام کے تمام جھوٹی اور موضوع ہیں 00000 امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےماہ رجب کے روزے سےمنع فرمایا، اس کی سند میں کلام ہے، جبکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے صحیح طور سے ثابت ہے کہ وہ لوگوں کے ہاتھوں کو ڈنڈے سے مارتے تھے تاکہ وہ ماہ رجب میں اپنے ہاتھوں کو کھانوں میں ڈال دیں اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ ماہ رجب کو رمضان کے مشابہ نہ بناؤ۔ جہاں تک روزوں کو رجب، شعبان اور رمضان تین مہینوں کے اعتکاف کے ساتھ خاص کرنے کی بات ہے تو اس سلسلہ میں مجھے کسی بات کا علم نہیں ، البتہ جو مسلمان مشروع روزہ رکھے اور ان روزوں کے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے تو بلا شک یہ جائز ہے اور اگر بلا روزہ کے اعتکاف کرنا چاہے تو اس سلسلہ میں ابل علم کے دو مشہور قول ہیں۔ (فتاوی ، 25/290-292 ۔ ) ۔


ماہ رجب کے خصوصی روزہ کی فضیلت کے سلسلہ میں کچھ وارد نہ ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ماہ رجب میں کوئی نفل روزہ نہیں ہے ، بلکہ جن روزوں کے بارے میں عام نصوص وارد ہوئے ہیں جیسے پیر اور جمعرات کے روزے نیز ہر ماہ کے تین روزے اور صوم داود یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن ترک کرنا تو یہ سب جائز ہیں ، اور جیسا کہ علامہ طرطوشی نے ذکر کیا ہے مکروہ صرف رجب کا وہ روزہ ہے جس میں درج ذیل تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پائی جائے:

1۔ جب مسلمان ماہ رجب کو ہر سال عوام اورشریعت سے ناواقف لوگوں کی رغبت کے مطابق خاص موسم بنالے اور اس کے روزے مثل رمضان فرض ہونا سمجھا جانے لگے۔

2۔ لوگوں کا یہ اعتقاد بن جائے کہ رجب کا روزہ ایک ثابت سنت ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنن راتبہ کی طرح روزے کے ساتھ خاص کیا ہے۔

3۔ یہ اعتقاد بنالیا جائے کہ رجب کے روزے کو دیگر مہینوں کے روزوں کے مقابلہ میں خاص فضیلت حاصل ہے، اور یہ بھی عاشوراء کے روزے اور آخری رات کی تہجد کی فضیلت کے ہم درجہ ہے، لہذا یہ فضائل کے باب سے ہےنہ کہ سنن وفرائض کے باب سے ۔اگر یہ بات ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے ضرور بیان کرتے ، یا زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور عمل کرتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تو ماہ رجب کا کسی مخصوص فضیلت کے ساتھ خاص ہونا باطل ٹھہرا ۔

۲۲ رجب کو، شام کے وقت میٹھی روٹیاں، پوریاں وغیرہ بنا کر بانٹی جاتی ہیں اور اسے رجب کے کونڈوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ رجب کی تمامتر بدعات میں سب سے زیادہ بے اصل بدعت ہے اور برصغیر پاک و ہند میں اکثر مسلمان کار ثواب سمجھ اس میں مبتلا ہیں۔
اس بدعت کو حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ سے منسوب کیا جاتا ہے اور اس کے ضمن میں کوئی لکڑہارے کی کہانی بھی مشہور ہے (تفصیل کا مجھے علم نہیں) ۔

درست بات یہ ہے کہ ۲۲ رجب، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کا یوم وفات ہے، اور روافض نے ان کی وفات کی خوشی میں یہ بدعت شروع کی۔ جس میں آہستہ آہستہ بہت سے مسلمان بھی مبتلا ہوگئے۔


مصادر و مراجع:

1: فضائل شہر رجب فی المیزان (فیصل بن علی البعدانی، اردو ترجمہ : مشتاق احمد کریمی)

2: تبیین العجب فیما ورد فی فضل رجب (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ)

3: زاد المعاد فی ہدی خیر العباد (علامہ ابن القیم رحمہ اللہ)

4: مجموع الفتاوی الشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

5: المدخل (ابن الحاج المالکی رحمہ اللہ)

6: الحاشیہ (ابن عابدین رحمہ اللہ)

7: المجموع (امام نووی رحمہ اللہ)

تبصرے