آنچہ خوباں ہمہ دارند تُو تنہا داری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ تقویتِ ایمان اور حبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پروان چڑھانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ میں نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور کتاب "الرحیق المختوم" سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیۂ مبارک یہاں نقل کیا ہے جس کا مطالعہ ان شاء اللہ ایمان کی تازگی کا باعث ہوگا، کہ ایسی بے مثل صفات سے صرف اللہ جل شانہ کے مرسلین ہی متصف ہوسکتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اتباع کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حلیۂ مبارک
ہجرت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام معبد خزاعیہ کے خیمے سے گزرے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد اپنے شوہر سے آپ کے حلیہ مبارک کا جو نقشہ کھینچا وہ یہ تھا:

چمکتا رنگ، تابناک چہرہ، خوبصورت ساخت، نہ توندلے پن کا عیب نہ گنجے پن کی خامی، جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہوا پیکر، سرمگیں آنکھیں، لمبی پلکیں، بھاری آواز، لمبی گردن، سفید و سیاہ آنکھیں، سیاہ سرمگیں پلکیں، باریک اور باہم ملے ہوئے ابرو، چمک دار کالے بال، خاموش ہوں تو باوقار، گفتگو کریں تو پُر کشش، دور سے (دیکھنے میں) سب سے تابناک و پُر جمال، قریب سے سب سے خوبصورت اور شیریں، گفتگو میں چاشنی، بات واضح اور دوٹوک، نہ مختصر نہ فضول، انداز ایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہیں۔ درمیانہ قد، نہ ناٹا کہ نگاہ میں نہ جچے، نہ لمبا کہ ناگوار لگے۔ دو شاخوں کے درمیان ایسی شاخ کی طرح ہیں جو سب سے زیادہ تازہ و خوش منظر ہے۔ رفقاء ان کے گرد حلقہ بنائے ہوئے، کچھ فرمائیں تو توجہ سے سنتے ہیں، کوئی حکم دیں تو لپک کر بجالاتے ہیں، مُطاع و مکرم، نہ تُرش رو، نہ لغو گو
(زاد المعاد از ابن القیم رحمہ اللہ)


حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ لمبے تڑنگے تھے نہ ناٹے کھوٹے، لوگوں کے حساب سے درمیانہ قد کے تھے۔ بال نہ زیادہ گھنگریالے تھے نہ بالکل کھڑے کھڑے بلکہ دونوں کے بیچ بیچ کی کیفیت تھی۔ رخسار نہ بہت زیادہ پُر گوشت تھا، نہ ٹھوڑی چھوٹی اور پیشانی پست، چہرہ کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا۔ رنگ گورا گلابی، آنکھیں سُرخی مائل، پلکیں لمبی، جوڑوں اور مونڈھوں کی ہڈیاں بڑی بڑی، سینہ مبارک پر ناف تک بالوں کی ہلکی سی لکیر، بقیہ جسم بال سے خالی، ہاتھ اور پاؤں کی انگلیاں پُر گوشت، چلتے تو قدرے جھٹکے سے پاؤں اٹھاتے اور یوں چلتے گویا کسی ڈھلوان پر چل رہے ہیں۔ جب کسی طرف توجہ فرماتےتو پورے وجود کے ساتھ متوجہ ہوتے۔ دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارے انبیاء کے خاتم تھے، سب سے زیادہ سخی دست اور سب سے بڑھ کر جرأت مند، سب سے زیادہ صادق اللہجہ اور سب سے بڑھ کر عہد و پیمان کے پابندِ وفا۔ سب سے زیادہ نرم طبیعت اور سب سے شریف ساتھی۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچانک دیکھتا ہیبت زدہ ہوجاتا۔ جو جان پہچان کے ساتھ ملتا محبوب رکھتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف بیان کرنے والا یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ جیسا نہیں دیکھا۔ (صلی اللہ علیہ وسلم)"
(ابن ہشام و ترمذی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بڑا تھا، جوڑوں کی ہڈیاں بھاری بھاری تھیں، سینے پر بالوں کی لمبی لکیر تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تو قدرے جھک کر چلتے گویا کسی ڈھلوان سے اتر رہے ہیں۔"
(ترمذی)

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دہان مبارک کشادہ تھا، آنکھیں ہلکی سُرخی لیے ہوئے اور ایڑیاں باریک۔"
(صحیح مسلم)

حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گورے رنگ، پُر ملاحت چہرے اور میانہ قد و قامت کے تھے۔"
(صحیح مسلم)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں اور رنگ چمکدار، نہ خالص سفید، نہ گندم گوں، وفات کے وقت تک سر اور داڑھی کے بیس بال بھی سفید نہ ہوئے تھے۔ صرف کنپٹی کے بالوں میں کچھ سفیدی تھی اور چند بال سر کے سفید تھے۔"
(صحیح مسلم)

حضرت برأ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیکر درمیانی تھا۔ دونوں کندھوں کے درمیان دوری تھی۔ بال دونوں کانوں کی لو تک پہنچتے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ جوڑا زیب تن کیے ہوئے دیکھا، کبھی کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت نہ دیکھی۔"
(صحیح بخاری)

ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اگر تم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تو لگتا کہ تم نے طلوع ہوتے ہوئے سورج کو دیکھا ہے"۔
(مسند دارمی، مشکوٰۃ)

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ کا بیان ہے کہ "میں نے ایک بار چاندنی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سُرخ جوڑا پہنے ہوئے تھے۔ میں کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا اور کبھی چاند کو دیکھتا، آخر (اس نتیجہ پر پہنچا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاند سے زیادہ خوبصورت ہیں۔
(ترمذی فی الشمائل)

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز نہیں دیکھی۔ لگتا تھا کہ سورج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک میں رواں دواں ہے۔ اور میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو تیز رفتار نہیں دیکھا، لگتا تھا کہ زمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے لپیٹی جارہی ہے، ہم تو اپنے آپ کو تھکا مارتے تھےاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل بے فکر۔"
(جامع ترمذی مع شرح تحفۃ الاحوذی)

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ کا بیان ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے تو چہرۂ انور دمک اٹھتا، گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے۔
(صحیح بخاری)

ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف فرما تھے۔ پسینہ آیا تو چہرۂ مبارک کی دھاریاں چمک اٹھیں۔ یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابوکبیر ہذلی کا یہ شعر پڑھا:

و اذا نظرت الی أسرۃ وجھہ
برقت کبرق العارض المتہلل


(جب ان (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چہرے کی دھاریاں دیکھو تو وہ یوں چمکتی ہیں جیسے روشن بادل چمک رہا ہو۔)
(رحمۃ للعالمین)

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر یہ شعر پڑھتے تھے:

امین مصطفی بالخیر یدعو
کضوء البدر زایلہ الظلام


(آپ صلی اللہ علیہ وسلم امین ہیں، چنیدہ و برگزیدہ ہیں، خیر کی دعوت دیتے ہیں، گویا ماہِ کامل کی روشنی ہیں جس سے تاریکی آنکھ مچولی کھیل رہی ہے)
(خلاصۃ السیر)

حضرت عمر رضی اللہ زُہیر کا یہ شعر پڑھتے جو ہرم بن سنان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ :

لو کنت من شیٔ سوی البشر
کنت المضیٔ للیۃ البدر



(اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر کے سوا کسی اور چیز سے ہوتے تو آپ ہی چودھویں کی رات کو روشن کرتے)
پھر فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی تھے۔
(خلاصۃ السیر)

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوتے تو چہرۂ انور سُرخ ہوجاتا گویا دونوں رخساروں میں دانۂ انار نچوڑ دیا گیا ہے۔
(مشکوٰۃ، ترمذی)

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلیاں قدرے پتلی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنستے تو صرف تبسم فرماتے (آنکھیں قدرتی سرمگیں تھیں) تم دیکھتے تو کہتے کہ آپ نے آنکھوں میں سرمہ لگا رکھا ہے حالانکہ سُرمہ نہ لگا ہوتا۔
(ترمذی)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کے دونوں دانت الگ الگ تھے، جب آپ گفتگو فرماتے تو ان دانتوں کے درمیان سے نور جیسا نکلتا دکھائی دیتا۔
(ترمذی، مشکوٰۃ)

گردن گویا چاندی کی صفائی لیے ہوئے گڑیا کی گردن تھی، پلکیں طویل، داڑھی مبارکہ گھنی، پیشانی کشادہ، ابرو پیوستہ اور ایک دوسرے سے الگ، ناک اونچی، رُخسار ہلکے، لبہ سے ناف تک چھڑی کی طرح دوڑا ہوا بال، اور اس کے سوا شکم اور سینہ مبارک پر کہیں بال نہیں، البتہ بازو اور مونڈھوں پر بال تھے۔ شکم اور سینہ برابر، سینہ مسطح اور کشادہ، کلائیاں بڑی بڑی، ہتھیلیاں کشادہ، قد کھڑا، تلوے خالی، اعضاء بڑے بڑے، جب چلتے تو جھٹکے کے ساتھ چلتے، قدرے جھکاؤ کے ساتھ آگے بڑھتے اور سہل رفتار سے چلتے۔
(خلاصۃ السیر)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حریر و دیبا نہیں چھوا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی مبارکہ سے زیادہ نرم ہو، اور نہ کبھی کوئی عنبر یا مشک یا ایسی خوشبو سونگھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے بہتر ہو۔
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)

حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے چہرہ پر رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبو دار تھا۔
(صحیح بخاری)

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ جو بچے تھے، کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے رخسار پر ہاتھ پھیرا تو میں نے ان کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اور ایسی خوشبو محسوس کی گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عطار کے عطردان سے نکالا ہے۔
(صحیح مسلم)

حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ گویا موتی ہوتا تھا، اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ یہ پسینہ ہی سب سے عمدہ خوشبو ہوا کرتی تھی۔
(صحیح مسلم)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی راستے سے تشریف لے جاتے تو جب آپ کے بعد کوئی اور اسی راستے سے گزرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم یا پسینہ کی خوشبو سے جان لیتا کہ آپ یہاں سے تشریف لے گئے ہیں۔
(صحیح مسلم)

(اقتباس از "الرحیق المختوم" مؤلفہ صفی الرحمان مبارکپوری)
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،



تبصرے