محرم اور عاشورۂ محرم کی فضیلت

اعـوذ بـالله مـن الشـيطـان الـرجـيم
بـســم الله الرحــمن الـرحـــيم

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ: مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ (12) کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں۔یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے۔
(سورۃ التوبۃ آیت 36)



جیسا کہ آیتِ مبارکہ میں نشاندہی کی گئی ہے، سال کے بارہ مہینوں میں سے چار حرمت کے ہیں، یعنی دیگر مہینوں کی بہ نسبت ان کی تعظیم و تکریم زیادہ ہے۔ اور ان ہی مہینوں کے متعلق مندرجہ بالا آیت میں ارشادِ باری تعالی ہے کہ "تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو"۔ اس کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ "سب مہینوں میں (اپنے اوپر ظلم نہ کرو) پھر ان میں سے بھی چار مہینوں کو حرمت والا قرار دیا اور ان میں گناہ کو شدید تر اور اعمالِ صالحہ کو زیادہ باعثِ اجر قرار دیا" جبکہ امام قتادہ رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا " ان حرمت والے مہینوں میں بد اعمالی کا گناہ دیگر مہینوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہے۔
در آں حالیکہ گناہ ہر حال میں گناہ ہی ہے، لیکن اللہ جسے چاہتا ہے زیادہ عظمت عطا فرمادیتا ہے۔" اور فرمایا : "اللہ نے اپنی خلقت میں سے بعض کو چن لیا (فضیلت کے اعتبار سے) ملائکہ اور انسانوں میں سے اپنے پیغمبروں کو، اور کلام میں اپنے ذکر کو، اور زمین پر مساجد کو، اور مہینوں میں رمضان المبارک اور حرمت والے (چار) مہینوں کو، دنوں میں جمعہ کے دن کو، راتوں میں لیلۃ القدر کو (چن لیا)۔ پس تم تعظیم کرو اس کی جس کی اللہ نے تعظیم فرمائی، کیونکہ یہی اہلِ فہم و عقل کا شعار ہے کہ جس چیز کو اللہ سبحانہ و تعالی نے عظمت بخشی، اس کی عظمت کی جائے"

(تفسیر ابنِ کثیر)



اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارکہ ہے:
"۔۔۔۔ سال بارہ مہینوں کا ہے، جن میں چار حرمت والے ہیں، تین پے درپے ہیں ذوالقعدۃ، ذوالحجۃ، اور محرم، چوتھا رجب مضر، جو جمادی الآخر اور شعبان کے مابین ہے۔


(متفق علیہ)



محرم الحرام ان ہی چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک اور ہجری سال کا پہلا مہینہ ہے۔ محرم الحرام سے اسلامی سال کی ابتدا کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ سنِ نبوت کے ماہ ذی الحجہ کے اواخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا عزم کرلیا گیا تھا، اور اس کے بعد جو چاند نکلا وہ محرم کا تھا، اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مشورے سے محرم کو ہجری سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔


(فتح الباری کتاب مناقب الانصار)



عاشورہ تاریخ کے آئینے میں


عموماً اس مہینہ کو واقعۂ کربلا کے حوالے سے جانا جاتا ہے، لیکن جیسا کہ آیتِ مندرجہ بالا میں بیان ہوا، کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اسے زمین و آسمان کی تخلیق کے دن سے حرمت والے مہینوں میں رکھا ہے۔ اسلام سے قبل یومِ عاشورہ (دس محرم) کو یہود روزہ رکھتے تھے، اور ایامِ جاہلیت میں عربوں کے ہاں اس دن روزہ رکھنے کا معمول تھا۔ امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں اس بارے میں لکھتے ہیں: "ممکن ہے قریش کو شرعِ ابراہیمی (جس پر عمل پیرا ہونے کا عربوں کو دعوی تھا) میں اس کا کوئی ثبوت ملا ہو"
نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی زمانۂ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ اس ضمن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ "قریش زمانہ جاہلیت میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔"
(بخاری و مسلم و ابوداود)


عاشورہ سے کیا مراد ہے؟


جمہور علمائے کرام کے مطابق عاشورہ سے مراد دس (10) محرم اور تاسوعاء سے مراد نو (9) محرم ہے۔ اور ظاہر احادیث سے سے بھی اسی کی توثیق ہوتی ہے۔
(المجموع)


اور ابنِ قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "عاشورہ سے مراد دس محرم ہے اور یہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا قول ہے، جیسا کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ یعنی دس محرم کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا"
(رواہ الترمذی و حسنہ و صححہ)



یہودی اس دن روزہ کیوں رکھتے تھے؟


حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے، تم لوگ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ تو یہود نے بتایا کہ یہ دن عظیم ہے، اسی دن اللہ نے موسی (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو نجات عطا فرمائی اور فرعون و اس کی قوم کو غرقاب کیا۔ (مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ) "موسی علیہ السلام نے شکرانہ کے طور پر اس دن روزہ رکھا تو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں"۔ (اور امام احمد رحمہ اللہ نے اسے اپنی مسند میں ان الفاظ کے اضافہ کے ساتھ نقل کیا ہے کہ) "اور اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی (پہاڑ) پر ٹھہری اور نوح علیہ السلام نے شکرانہ کے طور پر اس دن روزہ رکھا" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ہم موسی (علیہ السلام) کے (شریکِ مسرت ہونے میں) تم سے زیادہ حقدار ہیں۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھنا شروع کیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

(بخاری، مسلم، مسند احمد)




عاشورہ کے روزہ کی فضیلت


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارکہ ہے: "۔۔۔عاشورہ کے روزہ سے امید رکھتا ہوں کہ ایک سال پہلے کا کفارہ ہو جائے۔"


(صحیح مسلم)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "رمضان المبارک کے بعد محرم کے روزے سب سے افضل ہیں جو اللہ کا مہینہ ہے"


(صحیح مسلم)



ایک اور روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ فرض نماز کے بعد کونسی نماز افضل ہے اور ماہِ رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہیں؟ تو آپ نے فرمایا "نماز رات کی اور روزے محرم کے"


(صحیح مسلم)



اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوم عاشورہ اور ماہِ رمضان کے سوا اور کسی دن کو دوسرے دنوں سے افضل جان کر خاص طور سے روزہ رکھتے نہیں دیکھا ہے۔"
(متفق علیہ)



حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے اور ہمیں اس پر ابھارتے اور اس کا خیال رکھنے کی تاکید فرماتے، لیکن جب رمضان کے روزے فرض کیے گئے تو اس کے بعد آپ نہ ہمیں اس کا حکم دیتے تھے اور نہ اس سے روکتے تھے نہ اس کا خیال رکھنے کی تاکید فرماتے تھے۔
(مسلم)




نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محرم میں روزے کے مختلف احوال


احادیثِ مبارکہ میں اس سلسلے میں چار مختلف احوال ملتے ہیں۔


اول: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دورِ جاہلیت میں اس دن روزہ رکھتے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت میں اس کا تذکرہ ہوچکا۔


دوم: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود کو اس دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا، تو آپ نے بھی اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس دن کے روزے کا حکم فرمایا۔ اس بارے میں بھی احادیث اوپر بیان ہوچکیں۔


سوم: جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے روزے کا حکم اور تاکید چھوڑ دی۔ اور حدیث میں ہے کہ جب رمضان المبارک کے روزے فرض کیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (عاشورہ کے روزے) کا اہتمام ترک کردیا اور فرمایا "اب جو چاہے عاشورہ کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے"
(بخاری، مسلم، ابوداود)


چہارم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ کے آخر میں یہ عزم فرمایا کہ صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھیں گے بلکہ اس کے ساتھ نو (9) محرم کو بھی روزہ رکھیں گے تاکہ یہود کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔ اس ضمن میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لوگوں نے ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس دن کو یہود و نصاری بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ (مطلب یہ تھا کہ اس معاملے میں تو مخالفت کی بجائے ان کی موافقت ہورہی ہے(مرعاۃ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "آئندہ سال ان شاء اللہ ہم نویں تاریخ کو روزہ رکھیں گے۔" ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرماگئے۔
(مسلم)


خلاصہ: معلوم ہوا کہ عاشورہ کا روزہ پہلے فرض تھا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی رکھتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اس کی تاکید فرماتے تھے۔ تاہم رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد عاشورہ کے روزے کی فرضیت باقی نہ رہی لیکن فضیلت و استحباب باقی ہے جیسا کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حیاتِ طیبہ کے آخر میں نو محرم کو روزہ رکھنے کے عزم کا بیان ہے۔



نو محرم کو روزہ رکھنے کی حکمت


امام نووی رحمہ اللہ اس بارے میں لکھتے ہیں: علماء نے اس کے استحباب کی درج ذیل وجوہات بیان کی ہیں:


اول: یہ کہ اس کا مقصد یہود کی مخالفت ہے کیونکہ وہ صرف عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں۔


دوم: اس کا مقصد یہ ہے کہ عاشورہ کے دن سے روزہ کی حالت میں ملا جائے۔


سوم: یہ اس احتیاط کی بناء پر ہے کہ چاند دیکھنے میں کوئی مغالطہ ہوا ہو۔


ان سب میں قوی توجیہہ و حکمت اہلِ کتاب کی مخالفت ہی ہے۔




تاہم یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگر کوئی صرف عاشورہ کے دن ہی روزہ رکھنا چاہے تو اس کی اجازت ہے، لیکن اولی بہرحال یہی ہے کہ اس سے ایک دن قبل یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھا جائے تاکہ تشبہ باہل الکتاب سے بچا جاسکے۔


بدعات سے اجتناب کیا جائے


بدقسمتی سے بعض صحیح العقیدہ مسلمانوں سے بھی اس مہینے میں ایسے افعال کا ارتکاب ہوتا ہے جن کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور انہی بدعات کا اثرِ بد ہے کہ سنت و مستحب عمل کا کوئی اہتمام (الا ماشاء اللہ) باقی نہیں رہا ہے۔ مثلاً اس دن خصوصیت سے "سبیل" کا اہتمام کیا جاتا ہے اور قسم قسم کے مشروبات تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس کی کوئی شرعی حیثیت تو ایک طرف، بالعکس یہ اس لحاظ سے نہایت خطرناک ہے کہ اس سے روزہ رکھنے کے ثابت عمل کا خاتمہ و رجحان شکنی ہورہی ہے۔ واللہ المستعان





ان صواباً فمن اللہ و ان خطاء فمن نفسی و الشیطان
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم ۔۔۔ و صلی اللہ وسلم و بارک علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ وسلم




مراجع و مصادر:

فضل عاشوراء و شہر اللہ المحرم (محمد صالح المنجد)
شہر اللہ المحرم (خالد حسن)
صیام یوم عاشوراء (عبد اللہ بن جار اللہ)


تبصرے