سال کا اختتام، محاسبے کی گھڑی یا جشن کی؟

الحمد للہ وحدہُ والصلاۃ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہ و بعد۔۔۔

سالِ نو (ہجری شروع ہوچکا جبکہ میلادی) کا سورج طلوع ہونے کو ہے۔ بحیثیتِ مسلمان ہمارے لئے یہ وقت اپنے محاسبے کا ہے، کہ گذشتہ ایک سال کے دوران ہم نے کیا کھویا، کیا پایا ہے؟ آیا ہم نے اپنے وقت کو صحیح طور پر صرف کیا ہے یا اس کی ناقدری کی ہے؟ سالِ گذشتہ ہمارے نامۂ اعمال میں کیا اضافہ لے کر رخصت ہورہا ہے؟۔

اعجب العجائب ۔۔۔ کہ ہم مال و زر خرچ کرتے ہوئے بہت سوچ سمجھ سے کام لیتے ہیں۔ حالانکہ مال ایسی چیز ہے جس کا دوبارہ حصول ناممکن نہیں ہے۔ اس کے برعکس ہماری عمر، ہمارا وقت، ہماری وہ دولت ہے جس کا گذشتہ کوئی ایک لمحہ ہم دنیا جہاں کے خزانے لُٹا کر بھی دوبارہ حاصل نہیں کرسکتے۔ مگر اس کے باوجود ہم بڑی بے دردی سے اسے ضائع کرتے ہیں۔ بہت اختصار کے ساتھ، جائزہ لیتے ہیں کہ اس حوالے سے شریعتِ مطہرہ میں ہمارے لیے کیا ہدایات ہیں:


اعـوذ بـالله مـن الشـيطـان الـرجـيم
بـســم الله الرحــمن الـرحـــيم


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ لے کہ کل (آخرت) کے واسطے اس نے کیا بھیجا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔
(سورۃ الحشر آیت 18)





اور اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں:
وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ آَمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (3)

ترجمہ: زمانے کی قسم ۔ بے شک انسان سراسر نقصان میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔

(سورۃ العصر)


انسان کو مطلق خسارے میں قرار دے کر اس سے اگلی آیات میں اللہ سبحانہ و تعالی نے ان لوگوں کو اس خسارے سے مستثنی فرمایا ہے جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ کیے، حق اور صبر کی نصیحت آپس میں کرتے رہے۔

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں، صحت اور فراغت"۔

(رواہ الترمذی فی "ابواب الزہد" باسناد صحیح)


ایک اور روایت میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "سات چیزوں سے پہلے نیک اعمال جلدی سے کرلو۔ تمہیں کس چیز کا انتظار ہے سوائے ایسے فقر کے جو آدمی کو اپنے آپ سے بھلادے، یا ایسی مالداری کا جو آدمی کو سرکش بنادے، یا ایسی بیماری کا جو جسم کو ناکارہ کردے، یا ایسے بڑھاپے کا جو آدمی کو سٹھیادے، یا موت کا جو یہاں سے کوچ کرادے، یا دجال کا پس دجال ایک غائب شر ہے جس کا انتظار ہے، یا قیامت کا، پس قیامت بہت ہی ہولناک اور تلخ حقیقت ہے۔"

(رواہ الترمذی و قال حسن غریب)

حضرت مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: "جب تم صبح کرو تو تمہارے دل میں شام کا خیال نہیں آنا چاہیے، اور جب شام کرو تو تمہارے دل میں صبح کا خیال نہیں آنا چاہیے، اور بیماری سے پہلے اپنی صحت سے، اور موت سے پہلے اپنی زندگی سے کچھ حاصل کرلو، کیونکہ اے اللہ کے بندے! تم نہیں جانتے کہ کل کو تمہارا کیا نام ہوگا (زندہ کہلاؤ گے یا مردہ)"
(ترمذی ایضاً)

انسان خسارے میں ہے، سراب کے، یا سائے کے تعاقب میں ہے جو اس سے ہمیشہ ایک قدم آگے ہی رہتا ہے۔ یہ امیدوں اور خواہشات کے تعاقب میں ہے حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے:

"یہ آدمی ہے، اور یہ اس کی اجل ہے (جو قریب ہی کھڑی ہے)" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک پشت کی طرف کیا، پھر اس کو پھیلایا۔ اور فرمایا "اور وہاں اور وہاں (یعنی بہت دور) اس کی آرزو ہے"
(رواہ الترمذی و قال حدیث حسن صحیح)

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "وقت ایک تلوار کی مانند ہے، اگر تم اسے نہیں کاٹو گے تو یہ تمہیں کاٹ دے گا"

یعنی وقت نے تو بہر صورت گزرنا ہے، دن اور رات کی گردش کا نظام روکنا انسان کے بس میں نہیں ہے۔ اگر یہ دن اور رات ہم نے شرعی حدود و قیود کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، اطاعت الہی میں گزارے، یا بالعکس لغویات میں صرف کیے، دونوں صورتوں میں اجل نے آگھیرنا ہے۔

کچھ عرصے سے مغرب کی دیکھا دیکھی ۔۔۔ سال کے اختتام پر نیو ایئر نائٹ منانے کا اہتمام بھی زور پکڑ رہا ہے۔ پہلے تو اس کا حکم سمجھ لینا چاہیے، اہلِ علم نے متعدد وجوہ کی بناء پر اسے ناجائز قرار دیا ہے۔ اس کے بعد ۔۔۔ ذرا عقلِ سلیم کو بھی آواز دے لی جائے، اپنے آپ سے یہ سوال کیا جائے، کہ کیا ہم موت کے نزدیک آنے پر خوشی مناتے ہیں؟۔

ہمیں چند لمحے رک کر غور ضرور کرنا چاہیے۔ سورۂ حشر کی آیت اور ترجمہ اوپر گزر چکا، جس میں اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں اپنے محاسبے کا حکم فرمارہے ہیں، کہ ہر نفس دیکھ لے کہ اس نے کل (آخرت) کیلئے کیا آگے بھیجا ہے؟ سو معلوم ہوا کہ سال کا اختتام بھی ہمارے لیے اپنے محاسبے کا وقت ہے نہ کہ جشن کا۔


مرا در منزل جاناں چہ امن و عیش چوں ہر دم
جرس فریاد می دارد کہ بر بندیز مہمل است

تبصرے