بادشاہ کا خط


تصور کیجیے ۔۔۔ کہ چھٹی کا دن ہے، آپ گھر پر ہیں کہ دروازے کی گھنٹی بجتی ہے۔ آپ اٹھ کر کروازہ کھولتے ہیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ڈاکیہ کھڑا ہے، وہ ایک سر بمہر لفافہ آپ کو تھمادیتا ہے اور خود لوٹ جاتا ہے۔

اب آپ کے اندر تجسس پوری طرح بیدار ہوچکا ہے۔ اور بڑی عجلت کے ساتھ دروازہ بند کرکے لفافے پر نظر دوڑاتے ہیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ لفافے پر سربراہِ مملکت کی خصوصی مہر لگی ہوئی ہے۔ (موجودہ سربراہِ مملکت کا تصور نہ کیجیے گا، ورنہ مزا کرکرا ہوجائے گا) آپ کے دل کی دھڑکن ایک خوشگوار کیفیت کے ساتھ ناہموار ہوجاتی ہے۔ آپ لفافہ کھولتے ہیں۔ اس میں موجود ورق کو نکال کر، چند لمحے تو بے یقینی کی کیفیت کے ساتھ تکتے ہیں، پھر اس کے مضمون پر نظر دوڑاتے ہیں۔ آہا ۔۔۔ کیا دلچسپ اندازِ بیان ہے، کتنا دلنشیں پیرایہ اختیار کیا ہے بادشاہ سلامت نے۔ لکھتے ہیں کہ آپ بھی میرے دربار تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں، اور مقربین میں شمار ہوسکتے ہیں، لیکن اس کی بعض شرائط ہیں جن پر عمل درآمد کچھ مشکل بھی نہیں ہے۔ تھوڑی سی ہمت کی ضرورت ہے۔

بادشاہ کا آپ کے نام خصوصی خط ۔۔۔۔ مہربان لہجے میں خطاب ۔۔۔ دربار تک رسائی کی یقین دہانی ۔۔۔ اور مقربین میں شمار ۔۔۔ آسان شرائط ۔۔۔ آپ کا ردِ عمل کیا ہوگا؟؟؟

اب اگر میں یہ کہوں ۔۔۔ کہ آپ کے پاس بادشاہوں کے بادشاہ کا پیغام آچکا ہے تو۔۔۔۔۔؟ جی ہاں اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ ہم سب کے پاس کسی بھی بادشاہ سے زیادہ مقتدر و باجبروت، ایسے بادشاہ کا پیغام آچکا ہے جس کا کوئی ہمسر نہیں ہے اور جسے کوئی زوال نہیں ہے۔ جی ۔۔۔ آپ صحیح سمجھے ۔۔۔ میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پاس مالک المُلک، ذوالجلال والاکرام کے پیغامات پر مشتمل ایک پوری کتاب آچکی ہے۔ جس میں ہر ہر چیز کھول کھول کر بیان کردی گئی ہے۔ جو اللہ سبحانہ و تعالی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کردہ ایسا معجزہ ہے، جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا کی تمام مخلوق آج تک عاجز رہی اور دائماً عاجز رہے گی۔


یہ کتاب دنیا کی کسی بھی کتاب سے زیادہ دلچسپ ہے، اور یہ بھی اسی کا اعجاز ہے کہ جتنی بار پڑھیں گے، اگر معنی کے ساتھ، اور اس کے احکامات پر عمل کی پابندی کے ساتھ پڑھیں تو ہر مرتبہ علوم کے نئے در وا ہوں گے، اور اگر بغیر ترجمہ کے پڑھیں تو بھی ہزاروں بار پڑھنے کے باوجود جی نہیں اُکتائے۔

اس کتاب میں کہیں آپ کیلئے ترغیب ہے تو کہیں ترہیب، کہیں تبشیر ہے تو کہیں تنذیر ۔۔۔ کبھی اللہ تعالی اپنی رحمتوں، رضا اور جنتوں کی جانب بلا رہے ہیں تو کبھی دوزخ اور اس کے ہولناک عذابوں کے تذکرے سے ڈرا رہے ہیں۔ کہیں انبیاء و صالحین کے قصوں سے پند و نصیحت دلا رہے ہیں تو کہیں نافرمان قوموں کے عذاب سے آنکھوں والوں کو عبرت پکڑنے کا حکم فرما رہے ہیں۔ احسن القصص بھی اسی میں ہیں اور دلوں کی شفا بھی یہیں ہے۔

مگر افسوس ۔۔۔ کہ ہم نے اسے جُزدان میں لپیٹ کر گھر کے سب سے اونچے طاق پر رکھ دیا ہے اور اسے کھولنے کی زحمت کبھی کبھار ہی کرتے ہیں۔ پھر کھولنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جس نے آج تک یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی، کہ آخر اس میں ہمارے لیے کیا پیغام ہے؟ اور اللہ تعالی جگہ جگہ "اے لوگو!"، "اے انسان!"، "اے ایمان والو!"، فرما کر کیا باتیں سمجھا رہے ہیں؟۔

ہاں شرط کی بات رہ گئی ۔۔ شرط ایمان کے ساتھ عملِ صالح کی لگائی گئی ہے۔ دیکھیے قرآن مجید میں جگہ جگہ إِنَّ الَّذِينَ آَمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِکہہ کر پھر انعامات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ تو اللہ کے قرب و رضا کیلئے۔۔۔ ایمان کے ساتھ عملِ صالح شرط ہے۔ واللہ اعلم

تبصرے