عشرۂ ذو الحجہ کی فضیلت

اعـوذ بـالله مـن الشـيطـان الـرجـيم
بـســم الله الرحــمن الـرحـــيم

تمام تعریفیں اللہ سبحانہ و تعالی کیلئے ہیں جس نے ماہ و سال کا نظام بنایا اور بعض ایام و مہینوں کو بعض پر فضیلت دی۔ اور اللہ سبحانہ و تعالی کی سلامتی و رحمت ہو ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ پر جنہوں نے دین کو ہم تک پہنچایا اور جو امانت انہیں سونپی گئی تھی، اسے بطریق احسن ادا کیا۔ اور امت کو نصیحت کردی اور حلال و حرام سے آگاہ کردیا۔


یہ اللہ سبحانہ و تعالی کا اس امت پر احسانِ عظیم ہے کہ یہ امت سب سے آخر میں پیدا کی گئی، سب سے کم اوسط عمر اسے دی گئی، اور اجر و ثواب اسے دیگر امتوں کی بنسبت کہیں زیادہ دیا گیا۔

جن دنوں اور مہینوں کو اللہ سبحانہ و تعالی نے دیگر پر فضیلت دی ہے، انہی میں ذو الحجہ کا ابتدائی عشرہ (دس دن) بھی شامل ہیں۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ: مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ (12) کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں۔ یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے۔

(سورۃ التوبۃ آیت 36)


اور اس حدیث مبارکہ میں اس آیت کی تشریح بخوبی ہوجاتی ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی۔ سال بارہ مہینوں کا ہے، جن میں چار حرمت والے ہیں، تین پے درپے ہیں ذوالقعدۃ، ذوالحجۃ، اور محرم، چوتھا رجب مضر، جو جمادی الآخر اور شعبان کے مابین ہے۔

(بخاری و مسلم)

اور ایک مقام پر اللہ سبحانہ و تعالی نے ان دس دنوں کی قسم کھائی ہے:

وَالْفَجْرِ (1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ (2)

ترجمہ: قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی۔

(سورۃ الفجر)

حضرات ابن عباس و زبیر رضی اللہ عنہم اور مجاہد رحمہ اللہ اور دیگر کثیر حضرات کے مطابق یہاں "ولیال عشر" سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہی ہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اپنی تفسیر میں اسی قول کو صحیح قرار دیا ہے۔

قسم اُس چیز کی کھائی جاتی ہے جو اہم ہو، اور عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی ان کی قسم کھا رہے ہیں؟

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "دنوں میں ایسے دن نہیں ہیں جن میں اللہ کو عمل صالح ان دس دنوں (میں عمل صالح) سے زیادہ محبوب ہوں۔ پوچھا گیا کہ "کیا جہاد بھی سبیل اللہ بھی (ان دنوں میں نیک اعمال سے زیادہ محبوب) نہیں؟" فرمایا "جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں مگر وہ شخص جو اپنی جان و مال کے ہمراہ نکلا اور ان میں سے کچھ بھی واپس نہ لایا۔ (یعنی اللہ کی راہ میں اپنے مال کے ہمراہ نکلا اور پھر شہید ہوگیا، اس صورت میں اس کی فضیلت زیادہ ہے)۔

(صحیح بخاری، دارمی باسناد حسن)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے کہ "ہر ماہ تین روزے اور رمضان کے روزے ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان تک، یہ ہمیشہ کا روزہ ہے (یعنی ثواب میں)۔ اور عرفہ (نو ذی الحجہ) کے دن کا روزہ ایسا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے اور عاشورہ کے روزہ سے امید رکھتا ہوں کہ ایک سال پہلے کا کفارہ ہو جائے۔"

(صحیح مسلم)

تاہم اس بات کا خیال رہے کہ یہ روزہ وہی لوگ رکھیں جو سفرِ حج پر نہیں ہیں۔ حجاج کیلئے عرفات میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔

اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندوں کو آگ سے اتنا آزاد کرتا ہو جتنا عرفہ کے دن آزاد کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ (اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے اور بندوں کا حال دیکھ کر فرشتوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ کس ارادہ سے جمع ہوئے ہیں؟

(صحیح مسلم)

انہی نصوص کی بناء پر بعض علمائے کرام نے استدلال کیا ہے کہ ان دس دنوں سے زیادہ افضل دن پورے سال میں کسی بھی مہینے میں نہیں ہیں بشمول رمضان المبارک کے، بہ استثنائے رمضان المبارک کی آخری دس راتوں کے، کہ ان میں لیلۃ القدر کے ہونے کے قوی دلائل موجود ہیں۔

ان دس دنوں میں کون سے اعمال کئے جائیں؟

اوپر بیان کردہ حدیث مبارکہ میں "عمل صالح" کے ان دنوں میں اللہ سبحانہ و تعالی کو محبوب ہونے کا تذکرہ ہے لہذا ہر قسم کے اعمال صالحہ کی کثرت ان شاء اللہ موجب اجر و ثواب ہوگی۔ اور اعمال صالحہ میں جو اللہ سبحانہ و تعالی کو زیادہ محبوب ہیں ان میں نفلی روزے رکھنا، ذکر اللہ کی کثرت اور درود پڑھنا، اس کے علاوہ صدقہ کرنا نمایاں ہیں۔ یوم عرفہ کے روزہ کی فضیلت کا بیان اوپر صحیح مسلم کی حدیث میں گزر چکا، اور ذکر الہی کی کثرت کے متعلق مسند احمد کی ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ "فاکثرو فیھن من التھلیل والتکبیر والتحمید" (ان ایام میں تہلیل، تکبیر اور تحمید کی کثرت کرو)۔

یہ سطور لکھتے ہوئے ایک دکھ کی سی کیفیت ہے، اس بنا پر کہ ہم اپنے دین سے کس قدر دور ہوتے جارہے ہیں؟ جن باتوں کا حکم ہے، ان سے ہماری بے خبری کس حد کو پہنچ چکی ہے۔ ہمیں دعوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا ہے لیکن افعال ہم وہ کرتے ہیں جن کا انہوں نے نہ کبھی حکم دیا اور نہ کبھی کیے۔ ذی الحجہ کے آخری دس دنوں کی فضیلت قرآن و سنت سے ثابت ہے، ان میں نیک اعمال کا (الا ماشاء اللہ) اہتمام نہیں۔ جو اعمال و افعال ثابت نہیں ان کی تبلیغ و ترویج بڑے زور و شور سے کی جاتی ہے۔ گویا۔۔۔

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد

بہرحال ۔۔۔ یہ دس دن شروع ہوا ہی چاہتے ہیں۔ اعمال صالحہ کی خوب کثرت کیجئے اور فرصت کو غنیمت جانئے، کہ گزرا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔

(گذشتہ سال تقریباً انہی دنوں لکھا تھا، موقع کی مناسبت سے بلاگ میں بھی پوسٹ کررہا ہوں)

تبصرے